''ہم غلیل والوں کے ساتھ نہیں بلکہ دلیل والوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمیشہ غلیل کے بجائے دلیل والوں کے ساتھ ہی کھڑے رہیں گے کیونکہ ہمارے نزدیک زبان و بیان کی آزادی انسان کا خاصہ ہے‘ کسی کی زبا ن بندی ہو یا قلم پکڑے ہاتھ پر کسی بھی قسم کی گرفت ہو‘وہ آزادیٔ اظہار کی تذلیل ہوتی ہے‘‘۔
ہم نے اور آپ سب نے ان الفاظ کی گونج سنی ہو گی کیونکہ یہ کوئی بہت پرانی نہیں ہے۔ اقتدار کی بلند مسند اور تاجِ شاہی کے انتہائی قریب رہنے والے شخص کی زبان سے ادا ہوئے تھے۔ یہ الفاظ ہم سب کو اس قدر اچھے اور جاندار لگے کہ ہر کوئی سننے اور دیکھنے والا جی جا ن سے اَش اَش کر اٹھا۔ بات وہی اچھی اور منا سب لگتی ہے جو اپنے اندر ایک واضح اور اچھی سی دلیل لیے ہو۔ وہ نکتہ اور دلیل جو طاقت، دولت اور دھونس سمیت کسی بھی قسم کے لالچ سے ٹھونسی جائے وہ اپنے بیان میں نہ تو دیر پااثر رکھتی ہے اور نہ ہی ایسی دلیل پیش کرنے والے کو دنیا میں اچھی نظر سے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ بات وہی ہوتی ہے جو دل سے نکلتی ہے‘ چاہے وہ زبان سے ادا کی جا رہی ہو یا قلم سمیت کسی بھی ذریعۂ اظہار سے لکھی اور بتائی جا رہی ہو۔ اگر اس دلیل کے پیچھے کوئی لالچ آ جائے یا اسے کسی کی رغبت متوجہ کرے تو اس سچائی اور زبان و بیان کا نہ تو کسی بات پر اثر برقرار رہتا ہے اور نہ ہی ایسے شخص کی شخصیت پر کوئی اچھا تاثر مرتب ہوتا ہے۔
اب اگر غلیل کی بات کی جائے تو غلیل کی بھی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں، ایک غلیل وہ ہے جو کسی بھی باغ یا پھلدار درختوں پر لگے ہوئے پھلوں اور ان کی کونپلوں کی پرندوں سے حفاظت کیلئے استعمال میں لائی جاتی ہے۔ سوچئے کہ آپ کے‘ یا آپ کے کسی دوست‘ عزیز کے گھر کے صحن میں کوئی ایسا پھلدار درخت ہے جن پر کئی قسم کے پرندے اپنی چونچوں سے ہر وقت طبع آزمائی کرتے ہوں اور ان پرندوں کو اڑانے یا اس درخت کے تنے کو چونچ مار کر کھوکھلا کرنے سے روکنے اور پرندوں کو بھگانے کیلئے غلیل کا استعمال کر لیا جائے تو اس میں کوئی برائی کی بات ہے؟ ہاں‘ اگر کوئی جان بوجھ کر کسی بھی جانور اور انسان کو اپنی غلیل سے نشانہ بناتا ہے تو اسے کبھی بھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جائے گا‘ چاہے اس غلیل کو آپ کسی عداوت کا بدلہ لینے کی دلیل کے ساتھ ہی کیوں نہ استعمال کریں۔ غلیل سے ہمہ وقت نشانے بازی اپنے پھول اور پھلدار پودوں اور درختوں کی حفاظت کرنا ہو تو اس سے بہتر کوئی کا م ہی نہیں لیکن اگر اس غلیل کو آپ اپنی دلیل کا نام دیتے ہوئے مقابل پر آزمانا شروع کر دیں تو یہ کسی حد تک تو برداشت کی جا سکتی ہے لیکن جب بات حد سے بڑھ جائے تو پھر دوسرے کو بھی اپنی غلیل استعمال کرنے کا اتنا ہی حق ملنا چاہئے جتنا آپ کو ہے‘ پھر یہ گلہ مناسب نہیں ہو گا کہ جواب دینے والے کی غلیل آپ سے زیا دہ بہتر اور کئی درجے اچھا نشانہ لگا سکتی ہے۔
اگر اپنی ضد‘ اپنی مرضی اور اپنی خواہشات پر مبنی دلیلوں کے ٹوکرے اگر آپ ہر بوجھ اٹھانے والے کے سپرد کرتے ہوئے انہیں تاک تاک کر یا ادھر ادھر پھینکتے ہوئے نشانے بازی کی ترغیب دینا شروع کر دیں تو پھر آپ کیلئے یہ کہنا درست اور کسی طور بھی منا سب نہیں ہو گا کہ آپ غلیل کے مقابلے میں دلیل والوں کا ساتھ دینے کیلئے کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ دلیل دل سے دی جاتی ہے‘ دَھن سے نہیں۔ کسی بھی دلیل میں لالچ کا آ جا نا یہی سمجھا جائے گا کہ دلیل کی بات کرنے والا اپنی مرضی سے نہیں یہ بات نہیں کر رہابلکہ ترغیب و فہمائش سمیت کسی غلط طریقے سے مستعار لیا گیا ہے۔
کہتے ہیں دل سے جو بات نکلتی ہے‘ اثر رکھتی ہے‘ چاہے وہ آہ ہو یا واہ! لیکن اس کا اثر نیت سے ہو تو وہ کہنے والے کی زبان اور دھیان کو کسی اور جانب جھکنے سے روک دیتی ہے۔ اگر آپ کوئی ایسی دلیل دینا شروع کر دیں جس سے معاشرے اور سماج کو نقصان پہنچ رہا ہو یا اپنے کسی دنیاوی لالچ کا شکار ہو کر آپ دوسروں کی زبان بولنا شروع کر دیں تو یہ سماجی و پیشہ ورانہ‘ کسی بھی اخلاقیات میں نہیں سما سکتا۔ اگر آپ کسی مارکیٹنگ کے شعبے سے متعلق ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ جس مال یا پراڈکٹ کی تعریفوں میں آپ زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں‘وہ اچھائیاں اس میں دور دور تک موجود نہیں‘ تو آپ کا یہ کام بھی رب کریم کے حضور پسندیدہ نہیں۔ شریعتِ اسلامیہ میں اس حوالے سے خاصی تاکید کی گئی ہے کہ حق بات کہو‘ خواہ وہ تمہارے اپنے ہی خلاف کیوں نہ ہو۔ اسی طرح کہا گیا کہ گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار نہ بنو۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ اپنے مومن بھائی کی مدد کرو‘ خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ سوال کیا گیا کہ مظلوم کی مدد تو کی جا سکتی ہے‘ ظالم کی مدد کیسے کی جائے‘ فرمایا: اسے ظلم سے روک کر۔
کسی زمانے میں غلام بکا کرتے تھے اور جو کوئی ان کو خرید لیتا تھا‘ اس غلام کی زبان‘ اس کے الفاظ اور اس کا ہر ہر عمل اس کے خریدار کے ہاتھ میں آ جاتا تھا۔ فروخت شدہ غلام اپنے تمام حقوق اپنے مالک کے ہاتھ میں دے دیا کرتا تھا۔اب جدھر کو ا س کا مالک اسے ہانکتا‘ غلام کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ اس سے ایک انچ بھی ادھر ادھر ہو جاتا۔ غلاموں کی منڈیاں امریکہ میں بھی لگائی جاتی رہیں۔
گزشتہ صدی تک دنیا میں غلاموں کی خرید و فروخت کا کام ہوتا رہا ہے۔البتہ اب خریدو وفروخت کے انداز اور طریقۂ کار تبدیل ہو چکے ہیں۔ اسے ایک فرسودہ اور انسانی تہذیب اور حقوقِ انسانی کی سنگین خلاف ورزی کا نام دے دیا گیا ہے لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ نئے اطوار سے اس کو استعمال میں لایا جا رہا ہے ۔
دلیل کی بات کر لیں تو پھر یہ کیا بات ہوئی کہ اپنی طبیعت اور مزاج ایسا بنا لیا جائے کہ ہلکی سی کوئی بات‘ جسے آپ کا ذہن ا چھا نہ سمجھے‘ کرنے والوں کو توہین آمیز الفاظ سے پکارنا شروع ہو جائیں۔ ہمت کریں اور جیسے آپ کسی دوسرے کے ہاتھ سے نامنا سب الفاظ سے بھری ہوئی ''دلیل‘‘ کے ٹوکرے بھر بھر پھینکتے رہے ہیں‘ اب اگر ان کی طرف سے کوئی ردعمل آیا ہے‘ یا انہوں نے کچھ کہہ دیا ہے تو برداشت کریں۔ اب جو کچھ سب کے سامنے آ رہا ہے‘ اسے دیکھتے اور سنتے ہوئے کیسے مان لیا جائے کہ آپ دلیل والوں کے ساتھ تھے؟ بلکہ اب تو یہ واضح ہو چلا ہے کہ ''دلیل والے‘‘ آپ کے ماتحت تھے، کسی کے سر پر آپ نے اپنی ہی گھڑی ہوئی دلیلوں کے ٹوکرے سجا رکھے تھے تو کسی کو آپ نے اپنے دربار کی عنا یات کے بھاری بھر کم بوجھ سے اس قدر لرزاں کر رکھا تھا کہ وہ بے چارے نہ تو اپنی مرضی سے کہیں آ سکتے تھے اور نہ ہی کہیں جا سکتے تھے بلکہ آپ کے لادے ہوئے بوجھ سے ان کی حالت یہ ہو چکی تھی کہ ان سے اپنے پائوں پر صحیح طریقے سے کھڑا بھی نہیں ہو ا جا رہا تھا۔ جب یہ حالت ہو جائے تو سوچئے ایسے لوگ دلیل کہاں سے لاسکتے ہیں‘ وہ تو ادھر ہی جائیں گے جدھر انہیں ہانکا جائے گا یا وہی کچھ بیان کریں گے جو انہیں فیڈ کیا جائے گا۔
ہم جب اپنے بچپن کی جانب لوٹتے ہیں تو ہمیں اپنے آبائی گلی محلے کے وہ مناظر یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں، جب کسی کے گھر سے کوئی چیز بانٹنے کے لیے محلے کے بچوں کو پکارنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں تو ہم سب اس گھر کی جانب دوڑ لگا دیتے تھے، پھر ہم ہی کیا‘ ہرگھر سے بچے بچیاں اپنی جھولی یا برتن بھرنے کیلئے اس گھرکا ہی رخ کر لیا کرتے تھے۔ شاید یہی کچھ ''دلیل‘‘ کے ان ٹوکروں کی کہانی ہے۔