ہم ایک ایسے عہد کے مقدر میں لکھے گئے ہیں جس میں بہت کچھ اِس طرح اُلٹ پلٹ چکا ہے کہ اب معاملات کے درست ہونے کی سبیل دکھائی دیتی ہے نہ سُوجھتی ہے۔ ہر دور کے انسان کو بعض معاملات میں شدید نوعیت کی بے چینی کا سامنا رہا ہے۔ بے چینی جب زیادہ ہو جائے تو حواس پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ تب انسان ڈھنگ سے کچھ سمجھنے کے قابل رہتا ہے نہ سوچنے کے۔ ہر دور کے انسان نے فکر و نظر کے حوالے سے غیر معمولی پیچیدگیوں کا سامنا کیا ہے۔ فی زمانہ سبھی کچھ ذرائع ابلاغ سے وابستہ ہوکر رہ گیا ہے۔ اِس سے ایک قدم آگے جاکر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سبھی کچھ میڈیا کے آغوش میں سماگیا ہے۔ ہر معاملے کا اول و آخر میڈیا سے جڑ جانا پریشان کن ہے مگر فطری بھی۔ میڈیا کے حوالے سے جو بھرپور ترقی ہم نے دیکھی ہے اُس میں بالآخر یہ تو ہونا ہی تھا۔ بے بسی تو یہ ہے کہ ہم محض تماشائی بنے رہنے پر مجبور ہیں۔ بہت کچھ ہے جو ہماری سمجھ میں بھی آرہا ہے مگر ہم کچھ کر نہیں سکتے۔ حد یہ ہے کہ اگر کسی حوالے سے کوئی پختہ ارادہ بھی کرلیں تو معاملات کو درست کرنے میں بہر کیف اچھا خاصا وقت لگ جاتا ہے۔
میڈیا کے حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی یکسر غیر ضروری ہے وہ زندگی کا حصہ بن جاتا ہے اور جن باتوں سے ہمارا واقعی یا بنیادی تعلق ہے وہ اَن کہی رہ جاتی ہیں۔ آج کا انسان عجیب ہی ڈھنگ سے جی رہا ہے۔ ہر غیر متعلق معاملہ زندگی کا لازمی حصہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم دن رات ایسی باتوں میں الجھے رہتے ہیں جو ہمیں کوئی فیض نہیں پہنچاتیں بلکہ وقت اور توانائی برباد کرتی ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کیے جانے والے سمارٹ فونز نے معاملات کو کچھ کا کچھ بنادیا ہے۔ عام آدمی کی پہنچ اب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پوری دنیا تک ہے۔ ایسے میں وہ خود کو خاصا توسیع یافتہ محسوس کرنے لگا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ کسی جواز کے بغیر تمام معاملات میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور پھر پریشان رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ پریشان کن تو ہے مگر ناگزیر بھی۔ ہم ترقی کے ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں کسی بھی شعبے کو فطری تبدیلی سے بچایا نہیں جاسکتا۔ ہم اپنی زندگی میں ایسی چیزوں کا دخل نہیں روک سکتے مگر ہاں! عمل دخل ضرور روک سکتے ہیں‘ اور روکنا ہی چاہیے۔
آج کا انسان بہت سے معاملات میں انتہائی نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ بہت سے بنیادی حقوق کا تیا پانچا ہوچکا ہے۔ بنیادی حقوق کے حوالے سے جدوجہد بھی لازم ہے اور اُس کے بارے میں دوسروں کو بتانا بھی ناگزیر ہے تاکہ معاملہ درست کیے جانے کی راہ ہموار ہو۔ ہر معاشرے میں ایسے طبقات پائے جاتے ہیں جو مختلف معاملات میں حق تلفی کی شکایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کے لیے انصاف یقینی بنایا جائے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا کی چکاچوند میں بہت سی کام کی باتیں ایک طرف رہ جاتی ہیں اور جن باتوں کو کسی بھی اعتبار سے نمایاں نہیں ہونا چاہیے‘ وہی نمایاں ہیں۔ عام آدمی دن رات ایسی لایعنی باتوں میں گم رہتا ہے جو اُس کا وقت، پیسہ اور توانائی تینوں ہی اثاثے ضائع کرتی ہیں۔ کچھ مدت پہلے جماعتِ اسلامی بلوچستان کے رہنما ہدایت الرحمن نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ''حق دو گوادر کو‘‘ تحریک چلائی تھی۔ اس عنوان کے تحت کامیاب دھرنا دیا گیا۔ گوادر اور اُس سے ملحق علاقوں کے مسائل کی طرف قوم کی توجہ دلانے کی یہ ایک اچھی کوشش تھی۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے ''حق دو بلوچستان کو‘‘ کے زیرِ عنوان تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اِس حوالے سے میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے شکوہ کیا کہ حق دو گوادر کو تحریک بھرپور کوریج اس لیے نہ پاسکی کہ اُنہی دنوں بھارتی اداکارہ کترینہ کیف کی شادی تھی اور کئی چینلز کو کترینہ کی شادی کور کرنے کی زیادہ فکر لاحق رہی! ایسا تو کئی بار ہوا ہے۔ بعض اہم ایشوز سیلیبریٹیز کے ایونٹس کی کوریج میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ زندگی کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ دلانے والوں کا ایک بنیادی شکوہ یہ رہا ہے کہ میڈیا میں بنیادی اور حقیقی مسائل کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہی دلائی جاتی ہے اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اُنہیں مشہور کرکٹرز، فلم اسٹارز اور گلوکاروں کے معاملات تک محدود رہنا چاہیے۔ گویا ہماری قومی زندگی میں اب یہی کچھ رہ گیا ہے۔
ذرائع ابلاغ سے بھی عام آدمی کا یہی شکوہ ہے کہ وہ حقیقی معاملات کو ایک طرف ہٹاکر بعض غیر اہم معاملات کو لیپا پوتی کرکے یوں پیش کرتے ہیں گویا وہی ہمارے اصل مسائل ہوں۔ یہ سب کچھ آخر کیا ہے؟ جو کچھ میڈیا کے ذریعے دکھایا جا رہا ہے‘ کیا وہ صرف اُن کی مرضی ہے؟ عوام کیا بالکل بے قصور ہیں؟ کوئی مانے یا نہ مانے، حقیقت یہ ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ میڈیا وہی کچھ پیش کرتا ہے جو لوگوں کو اچھا لگتا ہے۔ عام آدمی اپنے اور اپنے جیسے دوسرے بہت سے لوگوں کے بنیادی مسائل کے بارے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ سوچنے اور اُس پر بات کرنے کے بجائے غیر متعلق اور لایعنی قسم کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔ وہ ٹی وی اور انٹرنیٹ پر وہی سب کچھ دیکھنا چاہتا ہے جس کا اُس سے کچھ خاص تعلق نہ ہو۔ عام آدمی میڈیا پر جو کچھ دیکھتا ہے اور دیکھنا چاہتا ہے اُس کے لیے صرف میڈیا کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ تکنیکی ترقی اس قدر ہوچکی ہے کہ اب کسی بھی معاملے کو مکمل کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔ میڈیا پر ہر طبقے کے لیے سب کچھ ہے۔ کسی کو اپنے حقوق کے لیے سنجیدہ جدوجہد کرنی ہے تو میڈیا پر اِس کی بھی گنجائش موجود ہے۔ ہدایت الرحمن نے جس مسئلے کی نشاندہی کی ہے وہ میڈیا کا نہیں بلکہ عام آدمی کا ہے۔ سیلیبریٹیز کی نجی زندگی کے بارے میں لوگ زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے ہیں اس لیے میڈیا اُنہیں یہ سب دکھاتا ہے۔ بہت سوں کی نظر میں یہ سب کچھ منفی ہے۔ اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ میڈیا پر سب کچھ ہوتا ہے مگر لوگوں کو مثبت کی زیادہ فکر لاحق نہیں رہتی۔ میڈیا بھی اِسی معاشرے کا حصہ اور عوام کی پسند و ناپسند کا عکاس ہے۔ عام آدمی جو کچھ زیادہ دیکھنا چاہتا ہے وہی میڈیا پر اسے زیادہ نظر آتا ہے۔
یہ بات تو ہر انسان کو خود طے کرنی ہے کہ اُسے میڈیا سے کیا لینا چاہیے اور کیا نہیں لینا چاہیے۔ مین سٹریم میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، سبھی پر وہی کچھ نمایاں ہوتا ہے جو عوام کو زیادہ پسند ہو۔ اگر عوام اپنی اصلاح پر مائل نہیں ہوتے تو اس میں قصور میڈیاسے زیادہ خود عوام کا ہے۔ کم و بیش ہر نوعیت کے میڈیا پر عام آدمی کے لیے سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو دن رات فلمیں دیکھے، فلمی شخصیات کے بارے میں پڑھتا اور سوچتا رہے۔ یا پھر علمی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں پڑھے اور اپنے مزاج میں علم پسندی پیدا کرے۔ کسی طالب علم کے لیے میڈیا پر بہت کچھ ہے مگر یہ کچھ اُسی وقت کام کا ثابت ہوسکتا ہے جب وہ پڑھنے پر مائل ہو اور امتحانات میں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے سنجیدہ ہو۔ اگر وہ محض گیمنگ، ڈراموں، فلموں اور سوشل میڈیا میں گم ہوکر رہ جائے تو کوئی کیا کرے؟ ہم کھلے بازار کی معیشت کا حصہ ہیں۔ بازار میں وہی چیز زیادہ ملتی اور بکتی ہے جس کی طلب زیادہ ہو۔ یہی حال میڈیا کا ہے۔ میڈیا پر وہی چیز زیادہ اور نمایاں ہوتی ہے جو زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ یہ فیصلہ تو فرد کو کرنا ہے کہ وہ معاشرے سے کیا چاہتا ہے اور کیا قبول کرنے پر آمادہ ہے۔ میڈیا تو مختلف النوع اشیا و خدمات کا ایک ڈھیر ہے جس میں سے اپنے مطلب کی چیز نکالنا فرد کی اپنی مرضی کا سودا ہے۔