''تھوڑی دیر بعد مردہ گاڑی میرے دروازے تک آپہنچی۔ایک بھورے رنگ کا گھوڑا جُتا ہوا تھا۔ گھوڑے اور اس کے مالک کو موقع کی سنجیدگی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ کوچوان پان چباتا ہوا آرام سے بیٹھا تھا اور بھیڑ کو دیکھ رہا تھا۔ اندازہ لگا رہا تھا کہ ان میں سے کسی سے بخشش وغیرہ ملنے کی امید ہے کہ نہیں ؟لوگوں کو زیادہ دیر تک رکنا نہیں پڑا۔میری لاش کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر نیچے لایا گیا اور مردہ گاڑی میں رکھ دیا گیا۔کچھ تھوڑے سے پھول بھی ارتھی کے اوپر ڈال دیے گئے۔ اب جلوس کو چ کے لیے تیار تھا‘‘۔
یہ اقتباس خوشونت سنگھ کے اُس مضمون سے ہے جو اس نے اپنی وفات سے پہلے اپنی وفات پر لکھا تھا۔ ایسے مضمون کو '' خود وفاتیہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ عقیل عباس جعفری نے ایسے مضامین‘ یعنی '' خود وفاتیے‘‘ جمع کیے ہیں اور کتاب کی شکل میں شائع کر دیے ہیں۔ کتاب کا عنوان ہے ''اپنی یاد میں‘‘ غالباً اس موضوع پر اردو میں یہ پہلی کتاب ہے۔ عطا الحق قاسمی نے درست کہا ہے کہ عقیل عباس جعفری خاموش طبع ہیں اور زیادہ باتیں نہیں کرتے۔ رئیس امروہی نے شاید ایسے لوگوں کے بارے ہی میں کہا تھا ؎
خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم
عقیل نے خاموشی سے کام کیا ہے اور بہت کام کیا ہے! ٹھوس‘ اہم اور جاندار کام! مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے لائقِ تحسین! تشہیر سے بے پروا‘ وہ اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ پاکستان کرانیکل کے عنوان سے اس نے جو انسائیکلو پیڈیا تالیف کیا ہے‘ وہ فرد کا نہیں ایک ادارے کا کام تھا مگر اس نے تن تنہا کر دکھایا!
''خود وفاتیے‘‘ جمع کرنے کا کام بھی اس نے انوکھا ہی کیا ہے۔ یہ کتاب دیکھنے اور پڑھنے سے پہلے معلوم ہی نہیں تھا کہ اس صنف میں (ہاں! یہ ایک الگ صنف ہی تو ہے ) اتنے ادیبوں نے طبع آزمائی کی ہے اور اتنے بڑے بڑے ادیبوں نے! رشید احمد صدیقی‘ انتظار حسین‘ منٹو‘ جوش‘ کنہیا لال کپور‘ اشفاق احمد‘ محمد طفیل‘ جوگندر پال‘ خشونت سنگھ‘ حمید اختر اور بہت سے دوسرے معروف ادیبوں نے اپنی موت کا ماتم خود کیا ہے! یہ اوربات کہ یہ ماتم‘ اکثر و بیشتر‘ طنزیہ ہے یا عبرتناک! بیشتر ادیبوں نے اپنے کارناموں کو گھٹا کر پیش کیا۔ایک بات جو سب مضامین میں‘ کم و بیش‘ مشترکہ ہے مرنے کے بعد احباب کی بے رُخی اور اہلِ دنیا کی بے وفائی ہے۔ جنازہ ہو یا تعزیت‘ کسی کے پاس وقت نہیں۔ سب اپنے اپنے دھندوں میں مصروف ہیں۔ کچھ لکھاریوں نے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ مال و متاع‘ ساز و سامان‘ زمین اور حویلیاں سب یہیں رہ جاتی ہیں۔ اپنی وفات کے پردے میں کچھ اہلِ قلم نے دنیا اور اہلِ دنیا پر طنز بھی کیا ہے مگر کمال ان قلمکاروں نے کیا ہے جنہوں نے اپنی تنقیص کی اور اپنا محاسبہ کیا۔کچھ نے تو اپنے آپ پر نفرین بھی بھیجی۔مجتبیٰ حسین اپنے بارے میں لکھتے ہیں :
'' مجتبی حسین (جنہیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آنا چاہیے مگر جانے کیوں نہیں آرہا) پرسوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ ان کے مرنے کے دن نہیں تھے کیونکہ انہیں تو بہت پہلے نہ صرف مر جانا بلکہ ڈوب مرنا چاہیے تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس دن وہ پیدا ہوئے تھے تب سے ہی لگاتار مرتے چلے جا رہے تھے۔ گویا انہوں نے مرنے میں پورے اسّی سال لگا دیے۔ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں یہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندہ رہے۔ ان کی زندگی بھی قسطوں میں چل رہی تھی اور مرے بھی قسطوں میں ہی‘‘۔
انتظار حسین اپنی موت کے بعد اپنے بارے میں رقمطراز ہیں : ''اس نے ہوش سنبھالا تھا اور قلم ہاتھ میں پکڑنے لگا تھا کہ ہندوستان کا بٹوارا ہو گیا۔ایک الگ ملک پاکستان بن گیا۔اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ سپیشل ٹرین میں بیٹھا اور لاہور جا اترا۔ڈبائی کا روڑا لاہور جا کر ہیرا بن گیا۔نقلی ہیرا ڈبائی کے گلی کوچوں کا حال لکھ لکھ کر سنانے لگااور چھپوانے لگا۔اس دعوے کے ساتھ کہ یہ کہانیاں ہیں۔ان دنوں جو ہندوستان سے لُٹ پٹ کر پاکستان پہنچتا تھااس کے ساتھ مروت ہوتی جاتی تھی۔اسی مروت میں لاہور والوں نے اسے کہانی کار مان لیا،مگر مہاجر اس کی اوقات کو سمجھتے تھے۔وہاں کافی ہاؤس میں ایک دن اس کی مڈ بھیڑ ایک ویٹر سے ہو گئی جو رام پور کا تھا۔یہ سمجھا کہ ویٹر ہی تو ہے‘ میں اپنی کہانیوں کا حوالہ دوں گا تو مرعوب ہو جائے گا۔وہ تھا رامپور کا چھنٹا ہوا‘ اس نے کہیں ان حضرت کی ایک دو کہانیاں پڑھ لی تھیں اور جان لیا تھا کہ یہ کتنے پانی میں ہیں۔ کہنے لگا کہ انتظار صاحب! آپ نے اپنی کہانیوں میں جو زبان لکھی ہے وہ ہمارے رامپور میں کنجڑیاں بولا کرتی ہیں۔ کبھی شریف زادیوں کی زبان اور اشراف کا محاورہ لکھ کر دکھایے۔‘‘
فکر تونسوی کا اصل نام رام لال بھاٹیا تھا۔ تونسہ شریف میں پیدا ہوئے اور بھارت میں آخری سانس لی۔ اپنے بارے میں لکھتے ہیں ''مرحوم کو برسوں پہلے ایک پامسٹ نے بتا دیا تھا کہ آپ کو مرنے سے پہلے بیش بہا دولت ملے گی مگر افسوس کہ پامسٹ کی صرف ایک بات صحیح نکلی یعنی وہ مر گئے اور دولت والی بات انتہائی بے بنیاد نکلی۔اس پامسٹ کے بارے میں عام مشہور تھا کہ اس کی وہی بات صحیح نکلتی ہے کہ جو واقعی صحیح ہوتی ہے‘‘۔ فکر تونسوی نے اپنے مرنے کے بعد اُس ماتمی جلسے میں بھی شرکت کی جو ان کی یاد میں منعقد کیا گیا تھا۔ اس میں ان کی بیوہ نے بھی شرکت کی۔ فکر تونسوی لکھتے ہیں '' کلائمکس اس وقت پیدا ہوا جب سیاہ ساڑھی میں ملبوس میری بیوہ بیوی کو مائکروفون پر آنسو بہانے کے لیے لایا گیا۔اس نے سہاگ کی آخری چوڑی سٹیج پر توڑی۔ ماتھے کا سیندور اور بندی مٹائی۔آنکھوں کا کاجل پونچھااور پھر ان میں آنسو بھر لائی۔اس ماتمی حالت میں میری بیوی مجھے انتہائی دلکش اور دلربا لگی۔ میں نے جی ہی جی میں کہا ''اے ظالم! تو میرے جیتے جی بیوہ کیوں نہ بنی ؟‘‘میری آنکھوں میں آنسو آگئے مگر یہ خوشی کے آنسو تھے کہ کم از کم میری موت کے بعد تو مجھے بیوی کی محبت ملی ورنہ اس سے پہلے جب بھی اس کی آنکھوں میں آنسو آتے تھے اپنی ماں کی یاد میں ہی آتے تھے‘‘۔
عطا الحق قاسمی بتاتے ہیں کہ موت کے بعد لوگ کس طرح آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں۔'' میں نے اپنے ایک دانشور دوست کو فون کیااور کہا یار تھوڑی دیر پہلے میرا انتقال ہو گیا ہے۔ تمہاری بھابی اور بھتیجوں کا رو رو کر برا حال ہے۔ تم ذرا میرے گھر آکر انہیں تسلی دو۔ دوست کا جواب تھا: میں نے ابھی تراویح پڑھنی ہے۔ پھر وظیفہ کرنا ہے۔اس کے بعد مجھے سونا ہے تا کہ سحری کے وقت اٹھنے میں تکلیف نہ ہو۔ تم اور تمہارے بچے مجھے بہت عزیز ہیں لیکن ان کے لیے عبادت تو نہیں چھوڑی جا سکتی‘‘۔
عقیل نے اس کالم نگار کا مضمون '' میری وفات‘‘ بھی کتاب میں شامل کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ہمارے ادب میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ ادبی حوالے سے قطع نظر‘ اس کتاب کی ایک اخلاقی حیثیت بھی ہے۔ بقول میر درد ؎
وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا