تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-01-2022

سانحۂ مری اور قومی مجرم

سانحۂ مری کو کم سے کم الفاظ میں بھی بیان کیا جائے تو اسے انتہائی افسوسناک اور دلخراش سانحہ ہی قرار دیا جائے گا۔اپوزیشن ہو یا حکومت‘ کیا کسی ایک بھی سیاستدان نے مری اور گلیات میں موجود اپنے فارم ہائوس اور محل نما گھروں کو متاثرین کیلئے کھولنے کا اعلان کیا؟ اس قیامت خیز رات کے بعد‘صبح میڈیا کے سامنے ہر کوئی حکومتی کوتاہی اور غفلت کے حوالوں سے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا تھا لیکن مری میں اپوزیشن کے کئی افراد کے محل نما گھر موجود ہیں‘ کسی ایک کے بھی دروازے برف باری میں پھنسے متاثرین کیلئے کھولے گئے؟ اُس رات نہ سہی کہ ممکن ہے کہ ان کو پتا ہی نہ چلا ہو‘ کیا اگلے دن ریسکیو ورکرز اور متاثرین کو انہوں نے کوئی مدد فراہم کی؟ ایک جانب اگر ضلعی انتظامیہ کی نا اہلی اس قیامت کے برپا ہونے کی ذمہ دار ہے تو دوسری جانب ہم سب بھی اس تباہی کے مجرم ہیں۔ ضلعی انتظامیہ‘ پنجاب کے ٹور ازم ڈیپارٹمنٹ اور دوسرے متعلقہ اداروں سے پہلی غلطی یہ ہوئی کہ جب انہیں پتا چل چکا تھا کہ بارہ کہو اور سترہ میل سے مری آنے والی ٹریفک کو روکا جا رہا ہے تو پھر وہ یہ بھی دیکھتے کہ جب جھیکا گلی تک کی ٹریفک برف باری کی وجہ سے جام ہو چکی ہے تو وہ گاڑیاں جو جھیکا گلی میں پہنچ چکی تھیں‘ انہیں مری میں داخل ہونے کی ا جا زت کیوں نہیں دی گئی؟ اگر ان کیلئے مری کی ٹریفک کھول دی جاتی تو سڑکوں پر پھنسے ہزاروں لوگوں کی مدد کا کچھ سامان مہیا ہو جاتا۔مری مال روڈ کی برف تو ہٹائی جا سکتی تھی۔ ایک اور غلطی یہ کی گئی کہ ناجائز منافع خوری کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ اگر فوری طور پر تمام سرکاری اور غیر سرکاری ریسٹ ہائوسز اور ہوٹلز کو ضلعی انتظامیہ اپنے کنٹرول میں لے لیتی تو ایک عام کمرے کا کرایہ ستر ہزار سے تیس‘ چالیس ہزار تک وصول نہ کیا جاتا اور لگژری نہ سہی‘ متاثرین کو منا سب خوراک ہی مہیا کر دی جاتی۔ اپوزیشن حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر حساب چکتا کررہی ہے اور حکومت لاکھوں کی تعداد میں مری آنے والے سیاحوں کو غلط قرار دے کر بری الذمہ ہونا چاہے گی۔ مختلف محکمہ جات اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کر سرخرو ہونے کی کوشش کریں گے لیکن اپنی غلطی تسلیم کرنے کی کوئی بھی کوشش نہیں کرے گا۔ سچ سننا بڑا کام نہیں بلکہ سچ کہنا مشکل امر ہے اور یہ ظرف کسی کسی کے حصے میں ہی آتا ہے۔
اب تک نجانے کتنے گھر اور کتنی انسانی جانیں مون سون کی طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی نذر ہو چکی ہیں۔ جانوروں اور مالی نقصان کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ پنجاب سے کے پی اور بلوچستان سے سندھ تک‘ نجانے کتنے اربوں‘ کھربوں کی املاک سیلاب جیسی قدرتی آفات کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ جو لوگ آج مری کے جانکاہ سانحہ پر موجود ہ حکومت کی غفلت پر تاک تاک کر تنقید کے تیر برسا رہے ہیں‘ کیا کبھی انہوں نے اپنی کارکردگی پر نظر ڈالی؟ یہاں حکومت کی حمایت مقصود نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ آج تنقید کرنے والے خود کیا کرتے رہے ہیں؟ مسلم لیگ نواز کے ایک درجن سے زائد لیڈران کی جانب سے سانحہ مری پر وزیراعظم عمران خان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے‘ کیا ان کے دورِ حکومت میں محکمہ موسمیات یا دیگر متعلقہ اداروں نے شدید بارشوں اور برف باری کی پیشین گوئی نہیں کی تھی؟ اہالیانِ لاہور ابھی تک نہیں بھولے جب لیگی دورِ حکومت میں برسات کی بارشوں سے گلبرگ اور سمن آباد سمیت مزنگ اور بند رود کے ہزاروں گھروں میں بارش کا پانی ٹخنوں تک نہیں بلکہ گھٹنوں سے بھی اوپر پہنچ گیاتھا۔ لوگوں کی اربوں روپے کی املاک تباہ ہوئی تھیں۔ الیکٹرانکس مارکیٹوں کے گوداموں میں پانی بھر گیا تھا، لاہور کے درمیان میں بہنے والی نہر میں جگہ جگہ شگاف پڑ نے سے ہر جانب سیلابی پانی بہہ رہا تھا۔ نون لیگ کے دور میں لاہور میں ایک معمول بن چکا تھا کہ بارشوں سے ایک نہیں‘ سینکڑوں علاقے کئی کئی فٹ تک پانی میں ڈوب جاتے تھے۔ انہی کے دورِ حکومت میں پسندیدہ افراد کو دیے گئے ٹھیکے کی وجہ سے مری کی چیئر لفٹ کا سانحہ پیش آیا جس میں دو درجن سے زائد افراد‘ جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت تھی‘ ہلاک ہوئے تھے۔ وہ وقت بھی یاد کریں جب کئی کئی گھنٹے یہ لفٹ خراب رہ کر فضا میں لٹکی رہی‘ اس وقت جو اموات ہوئیں وہ آج شاید کسی کو یاد بھی نہیں۔ پیپلز پارٹی‘ جو گزشتہ ساڑھے تیرہ سالوں سے سندھ کی حکمران ہے‘ کے دورِ حکومت میں کراچی سمیت سندھ میں آنے والے سیلابوں کی تباہی کس سے چھپی ہوئی ہے؟ گزشتہ سال ہی جو کچھ کراچی میں ہوا‘ وہ کون بھول سکتا ہے؟تھر میں بھوک سے مرنے والے بچے ہوں‘ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے باعث پیش آنے والے حادثات ہوں‘ جن میں ہر روز درجنوں افراد مارے جاتے ہیں‘ یا سندھ میں کتا کاٹے کی ویکسین تلاش کرنے والے افراد‘ ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر نوحہ کرتی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ ہم سب کیوں یہ تسلیم نہیں کرتے کہ بحیثیت قوم ہم سب مجرم ہیں۔ شہدا مری کے سانحے کے ہوں یا پتریاٹہ کے، نیلم ویلی کے ہوں یا سوات کے، سندھ کے ہوں یا جنوبی پنجاب کے‘ ہم سب مجرم ہیں۔ ہمارا شمار ان مجرمین میں ہوتا ہے جن کے ہاتھ سے اپنا وطن بھی سلامت نہیں رہتا۔ ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طریقے سے اپنا مفاد کشید کیا جائے‘ خواہ اس کوشش میں وطن کو گھن کی طرح چاٹ جائیں۔ جس کو جہاں موقع ملتا رہا‘ اس نے وہاں اس وطن اور اس کے باسیوں کی کھال اتارنے میں جلدی دکھائی۔
گلیات‘ سوات اور چترال سمیت دوسرے پہاڑی علاقوں میں برف باری اچانک نہیں ہوئی‘ یہ ہر سال کا معمول ہے۔ اس سے نمٹنے کیلئے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہر طرح کے ادارے موجود ہیں لیکن اگر آج ان کا تفصیلی معائنہ کیا جائے تو کسی ایک بھی ا دارے کے پاس آسمانی آفات سے نمٹنے کیلئے درکار سازو سامان موجود نہیں۔ نہ تو سول اداروں کے پاس شدید برفباری اور سردی سے مکمل بچائو کیلئے جیکٹس ہیں اور نہ ہی کسی کے پاس برف پر چلنے والے جوتے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو رات کو امدادی آپریشن کیلئے منا سب لائٹس دستیاب ہیں اور نہ ہی برف‘ گاڑیاں یا عمارتیں کاٹنے والا ضروری سامان ہے۔ ہائی وے کے ملازمین‘ جنہیں برف ہٹانے کا کام سونپا جاتا ہے‘ کے سروں پر موجود ہیلمٹ دیکھیں تو لگے گا کہ یہ دوسری جنگ عظیم کے وقت کا خریدا گیا سامان ہے۔ اگر ایک ایماندارانہ آڈٹ کیا جائے تو یقینا اس مد میں کروڑوں روپوں کے گھپلے نظر آئیں گے۔ کاغذوں میں خریدا کچھ گیا ہوگا لیکن سٹاک میں کچھ اور ہی نکلے گا۔ ایسے محکموں کے پاس اپنی گاڑیوں کے ٹائروں کیلئے چینز کی بہتات ہونی چاہئے‘ جو خریدی تو گئی ہوں گی‘ لیکن کہیں دکھائی نہیں دیں گی۔
موجودہ حکومت کو تین برس ہوچکے ہیں‘وہ بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی‘ ا س کی کوتاہی بھی ناقابلِ معافی ہے لیکن کیا اس سے پہلے کی حکومتوں نے برف باری کے طوفانوں سے نمٹنے کیلئے درکار سازوسامان خرید کر رکھا ہوا تھا؟ میری اطلاعات کے مطا بق پنجاب ہائی وے اتھارٹی کے پاس ایسی کوئی مشینری نہیں جس سے گرے ہوئے درختوں کو اٹھا یا جا سکے۔ نہ گاڑیوں کے لیے چینز ہیں‘ نہ لائٹس ہیں اور ہیلمٹ بھی کسی کام کے نہیں۔ اس سب کے بعد اگر یہ کچھ نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ اگر کبھی کسی کو خیال آ جائے تو برف ہٹانے اور امدادی کام کیلئے بھرتی کیے گئے سٹاف کی ٹریننگ کا بندوبست بھی کر لیں۔ بائیس اموات کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں‘ ہم سب ہیں۔ جب بتایا جا رہا تھا کہ برف کا طوفان متوقع ہے اور مری‘ جہاں چند ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہے‘ وہاں80 ہزار سے زائد گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں‘ تو پھر مجرم وہ بھی ہیں جنہوں نے انہیں وہاں تک جانے دیااور وہ بھی جنہوں نے عقل وشعورسے کام نہیں لیا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ بارہ کہو یا سترہ میل سے آگے صرف 4 بائی4وہیکلز کو ہی گزرنے کی اجا زت دی جائے۔ جو لوگ چھوٹی گاڑیوں میں ہوں‘ انہیں یہا ں سے محکمہ سیاحت بڑی اور آرام دہ بسوں کے ذریعے مری لانے اورواپس پہنچانے کا بند وبست کرے۔ یہ بسیں اگر ہر آدھ گھنٹے بعد سترہ میل سے مری اور وہاں سے واپسی کیلئے محو سفر ہوں تو مری میں ٹریفک کا رش بھی کم ہو گا اور شدید برف باری کی صورت میں گاڑیوں کے پھنسنے یا دھنسنے کے امکانات بھی نہیں ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved