تعلیمی میدان میں ہماری صورتحال اس قدر منتشر ہے کہ اس کا احاطہ کرنا اب ناممکن لگتا ہے۔ اپنی مدد آپ کا مؤثر عملی مظاہرہ اگر دنیا نے دیکھنا ہو تو وہ ایک نظر ہمارے تعلیمی نظام پر ڈال لے۔ ویسے جو کچھ تعلیم کے شعبے میں ہو رہا ہے‘ اس کو نظام کہنا بھی زیادتی ہو گی۔ ہم یہاں تک کیسے پہنچے‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کوئی سوشل سائنٹسٹ ہی دے سکتا ہے جو ہمارے ہاں پائے ہی نہیں جاتے۔ میں نے خود تعلیم کی صورتحال کو مختلف ادوار میں کیسے دیکھا‘ اپنے تعلیمی کیریئر کے ذریعے اور اس شعبے سے بطور استاد منسلک رہنے کے حوالے سے اس کی ایک جھلک پیش کر سکتا ہوں۔ ساٹھ کے عشرے میں جب میں نے گریجویشن کر لی تو ارادہ تھا کہ اب کچھ سکھ کا سانس لوں گا اور من پسند ادب کی کتابیں پڑھوں گا مگر ہوا یہ کہ میرے ایک دوست کے بڑے بھائی اسلامیہ ہائی سکول موہنی روڈ لاہور میں سیکنڈ ہیڈ ماسٹر تھے‘ انہوں نے مجھے پوچھا کہ ایک کام کرو گے؟ میں نے پوچھا: کیا کام ہے؟ بولے: ہمارے سکول میں جو سائنس ٹیچر تھا‘ وہ چلتے سیشن میں نوکری چھوڑ کر چلا گیا ہے‘ تم نے سائنس کے مضامین میں گریجویشن کی ہے لہٰذا تم تین ماہ کیلئے سائنس کی کلاس کو پڑھا دو؛ بس ایک پریڈ روزانہ۔ بچوں نے کہاں تک پڑھا ہے‘ کتنا کورس باقی ہے‘ وہ سب آپ کو بتا دیا جائے گا۔ اس طرح میں بیس برس کی عمر میں استاد کے درجے پر پہنچ گیا۔ جو بات میں بتانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ان تین ماہ کے دوران میں نے دیکھا کہ کلاس کے بیشتر طالبعلم پڑھنے کے حوالے سے بہت سنجیدہ تھے ۔ شرارتی لڑکوں کی تعداد برائے نام تھی اور وہ بھی شرارتیں حد میں رہ کر کرتے تھے۔ لگ بھگ ایسے ہی ماحول میں مَیں نے میٹرک کیا تھا۔ میرے ایک ٹیچر تھے اظہار احمد قریشی‘ کمال کے استاد تھے۔ بعض اوقات سختی بھی کرتے تھے لیکن وہ سبق پڑھا کر رہتے تھے۔ جو ذہین بچے ہوتے ان کو تو پہلی مرتبہ ہی سبق ذہن نشین ہو جاتا تھا لیکن قریشی صاحب اگلے روز وہی سبق دہراتے تھے۔ اس کے نتیجے میں کچھ اور طالبعلم بات سمجھ جاتے تھے۔ تیسرے دن وہ طالب علموں سے پوچھتے کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے کیا سیکھا ہے۔ پھر ٹیسٹ لیتے‘ کبھی زبانی اور کبھی تحریری۔ اس تمام عمل کے بعد بھی کچھ طالبعلم بتیس دانتوں میں زبان کی طرح ہی رہ جاتے تھے۔ ان کو قریشی صاحب پچھلے بنچوں پر بٹھا دیتے تھے۔ میں نے میٹرک میں جتنا کچھ سیکھا‘ بعد میں اتنا علم کالج میں بھی حاصل نہیں کر سکا۔ کالج میں جو بھی سیکھا وہ اپنی کوشش سے۔ فرسٹ ایئر میں میرے ایک انگلش ٹیچر ہوتے تھے جو کالا گائون پہن کر آتے تھے۔ حاضری لگاتے اور بولنا شروع کر دیتے تھے۔ ان کا لہجہ تک ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر کچھ کہہ نہیں سکتے تھے لیکن ایک چیز جو معرکہ آرا تھی‘ وہ کوراس کی کتاب تھی جس کا نام تھا An Approach to English literature۔میں نے ساری انگریزی اس کتاب سے سیکھی۔ اس میں پورے انگریزی ادب کے اہم ترین ادیبوں اور شاعروں کی تصنیفات کے اقتباسات شامل تھے۔ ہر صفحے کا اسی فیصد حصہ تو اقتباس پر مشتمل ہوتا تھا اور باقی بیس فیصد حصے میں مشکل الفاظ کے معنی بیان کیے گئے تھے۔ ڈکشنری کی ضرورت بھی نہیں رہتی تھی۔ جو لڑکے پڑھنے کے خواہش مند تھے وہ بآسانی انگریزی ادب سے ایک مناسب اور جامع تعارف حاصل کر لیتے تھے جبکہ امتحان میں نمبر بھی ٹھیک آ جاتے تھے، البتہ جو انگلش ٹیچر تھے‘ ان کا لیکچر پھر بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ یہی حساب دیگر مضامین کا تھا۔ کورس کی کتابیں ہی رہنما تھیں‘ ٹیچر حاضری لگاتے تھے‘ ایک رٹا رٹایا لیکچر دے کر کلاس روم سے چلے جاتے تھے۔ ہم لوگ بس 'یس سر، یس سر‘ کرتے رہتے تھے۔
سب کو معلوم ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں طالبعلموں کے گروپ بن جاتے ہیں۔ ہم خیال دوست بھی بن جاتے ہیں۔ میرے ساتھ چار لڑکے اور تھے جو پڑھائی میں دلچسپی لیتے تھے۔ ہم پانچوں امتحان کی تیاری اکٹھے کیا کرتے تھے۔ ہماری کلاس میں انگلش میڈیم سے آئے ہوئے تین لڑکوں کا ایک گروپ تھا جو انگریزی لہجے میں انگریزی بولتے تھے۔ ٹیچر ان کی طرف زیادہ توجہ دیتے تھے۔ مجھے اور میرے دوستوں کو اپنے میں یہ کمی محسوس ہوتی تھی حالانکہ ماہانہ ٹیسٹوں میں ہمارے نمبر ان لڑکوں سے زیادہ آتے تھے۔ یہ کمی پوری کرنے کیلئے ہم نے سوچا کہ انگریزی بولی جائے مگر مسئلہ تھا کہ کس کے ساتھ۔ ان انگلش میڈیم لڑکوں کے ساتھ تو سوال ہی پیدا نہیںہوتا تھا۔ اسی مسئلے کو ہمارے ایک دوست نے حل کیا جو پرانی انار کلی میں رہتا تھا۔ اس زمانے میں وہ سیاح جن کو ہپی کہا جاتا تھا‘ بہت آتے تھے اور مال روڈ پر کافی دیکھے جاتے تھے۔ ہمارے دوست نے کہا کہ یہ جو انگریز آتے ہیں‘ ان کے ساتھ انگریزی کی پریکٹس کرتے ہیں۔ پھر ہم روزانہ شام کو عجائب گھر سے بینک سکوائر تک چکر لگاتے اور جو سیاح ملتے ان سے انگریزی میں بات چیت کرتے۔ ہمارا تلفظ جب ان کی سمجھ میں نہ آتا تو وہ اندازے سے درست تلفظ بول کر کہتے You mean this? اور ہم کہتے یس‘ یس! اس طرح ہمارا تلفظ درست ہو جاتا۔ پھر ان کے جملوں کی ساخت بھی ہم نے یاد کرنا شروع کر دی۔ یہ عمل کئی مہینے جاری رہا۔ تھرڈ ایئر میں اگرچہ ہم دوست مختلف کالجوں میں داخل ہوئے لیکن شام کا یہ مشغلہ جاری رہا۔ ان سیاحوں کو ہم پیدل لاہور کی سیر کرواتے۔ اکثر بالکل کنگال ہوتے تھے اور ہم ان کو نان کباب وغیرہ بھی کھلا دیتے تھے۔ اس طرح اُردو کے حوالے سے میرے ایک دوست تھے اقبال نظر‘ معروف شاعر نظر امروہوی کے صاحبزادے تھے۔ اقبال اور میں مل کر شفیق الرحمن سے شروع ہوئے اور پطرس بخاری اور یوسفی تک پہنچے۔ سنجیدہ ادب میں روسی ادب کے تراجم اور پھر موپساں کی کہانیوں کے تراجم وغیرہ۔ اقبال نظر آج کل کراچی میں ہیں اور ایک ادبی رسالے کے ایڈیٹر ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ سیکھنے کی لگن میرے اندر میٹرک کی تعلیم کے دوران میرے استاد اظہار احمد قریشی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ اور بھی ٹیچر تھے مگر ان کا حصہ زیادہ تھا۔
اگر حکومت اس طرف توجہ دے اور صرف میٹرک تک کی تعلیم ایسی مؤثر بنا دے کہ طلبہ و طالبات بعد میں خود کتابوں اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے آپ کو سنبھال سکیں‘ تو کافی بہتری ہو سکتی ہے۔ یہ کیسے ہوگا‘ یہ تو کوئی ماہرین کی ٹیم سب حالات کا جائزہ لے کر ہی بتا سکتی ہے میں نے تو آپ بیتی بیان کی ہے۔ اب آتے ہیں اکیسویں صدی میں! میں جب وائس آف امریکا کی ملازمت کے سلسلے میں واشنگٹن میں تعینات تھا تو وہاں جارج ٹائون یونیورسٹی میں ریڈیو جرنلزم کا ایک کورس کیا تھا جو کافی طویل تھا۔ اس کے واجبات میرے ادارے نے ادا کیے تھے کیونکہ میں ریڈیو پاکستان کی طرف سے ایک معاہدے کے تحت وہاں گیا تھا جس میں یہ بھی شامل تھا کہ وہاں میری تعلیم و تربیت کا انتظام بھی ادارے کے ذمے ہوگا۔ ڈاکٹر مہدی حسن صحافت کی تعلیم کے حوالے سے ایک اہم شخصیت ہیں‘ وہ ایک یونیورسٹی میں صحافت کے شعبے کے ڈین تھے۔ انہوں نے مجھے ماسٹرز کے طلبہ و طالبات کو ریڈیو پروگرام‘ پروڈکشن اور ریڈیو جرنلزم پڑھانے پر مامور کر دیا، کوئی نو برس تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران میں نے طلبہ و طالبات کی جو حالت دیکھی‘ وہ ناقابلِ بیان ہے۔ نہ کسی کو انگریزی پوری طرح آتی تھی اور نہ ہی اُردو۔ اکثر تو اُردو لکھنے سے بھی معذور تھے۔ بولنے میں کمزور تھے، زبان بھی اُردو‘ انگریزی ملا کر بولتے تھے لیکن مجموعی طور پر میں ان کی کارکردگی سے کچھ مطمئن تھاالبتہ ریڈیو جرنلزم سے وہ بالکل نابلد تھے۔ انٹرنیٹ سے میٹریل نکال کر کٹ اور پیسٹ (cut and paste)سے کام چلاتے تھے‘ جو لکھے ہوئے نوٹس میں ان کو دیتا تھا‘ ٹیسٹ میں مجھے وہی نوٹس دیکھنے کو ملتے۔ کوئی طبع زاد شے شاذ ہی ملتی تھی۔ کئی اس کے بعد فیلڈ میں آ گئے اب چینلز کا زبان اور متن کے لحاظ سے جو معیار ہے‘ وہ بلند ان نوجوانوں ہی نے کرنا تھا۔ اگر ان کی تعلیم پختہ بنیادوں پر ہوئی ہوتی تو ہمارے نشریاتی اداروں کا معیار موجودہ سے بہت بہتر ہوتا اور چینلز کو ان نوجوانوں کی تربیت کیلئے ورکشاپس وغیرہ کا اہتمام نہ کرنا پڑتا۔ اب اگر تربیت ادارے نے ہی کرنی ہے تو پھر برسوں جو تعلیم حاصل کرتے رہے‘ اس کا کیا فائدہ؟ ہمیں اگر دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو ہمیں اپنے بچوں کی دسویں جماعت تک تعلیم کا ایک ٹھوس پروگرام مرتب کرنا ہوگا۔ وگرنہ وہی کچھ ہوگا جو آج ہو رہا ہے۔