تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     12-01-2022

یہاں پارٹی ہورہی ہے

جو کچھ مری میں ہوا وہ افسوسناک اور دردناک بہت ہے لیکن حیران کن ہرگز نہیں۔ کم از کم میرے لیے۔ تھرڈ ورلڈ کے ملکوں میں انسانی جانوں کی اہمیت نہیں ہوتی اور عوام بھی اپنے قاتلوں سے محبت کرتے ہیں۔ فوری طور پر اپنے قاتلوں کے حق میں تاویلیں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ فوراً ہی جواز گھڑ لیے جاتے ہیں اور سارا قصور مرنے والوں کا نکلتا ہے۔ جو زندہ ہیں وہ کلین چٹ لے کر بری ہو جاتے ہیں۔ ساہیوال میں جس فیملی کو گولیوں سے بھون دیا گیا اس میں بھی یہی کچھ ہوا کہ ان کا قصور یہ نکلا کہ وہ ایک غلط انٹیلی جنس اطلاع پر مار دیے گئے۔ جو گولیاں مار رہے تھے انہوں نے ایک لمحہ بھی نہیں سوچا کہ انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ بس ایک ہی حکم تھا کہ دور سے اڑا دو اور سب اڑا دیے گئے۔
اس ایک واقعے سے مجھے یہ سمجھ آئی کہ اس ملک میں کوئی بھی اپنی نوکری کے لئے اوپر سے دیے گئے حکم کے برعکس سوچنے کو تیار نہیں۔ جنہوں نے بے گناہ لوگ مار دیے ان کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں۔ ماڈل ٹائون میں بیریئر ہٹانے کے ایشو پر چودہ لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا‘ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ جو لوگ ماڈل ٹائون میں چودہ بندے مار دیں‘ ساہیوال میں پوری فیملی کو اڑا کر بھی نارمل لائف گزاریں ان سے آپ کیا توقع کئے بیٹھے ہیں کہ وہ مری میں برف باری کے دوران مارے گئے بائیس لوگوں کی موت پر افسردہ ہوں گے یا خود کو بدلنے کی کوشش کریں گے؟
چلیں ایک اور سن لیں۔ کچھ برس پہلے موٹروے پر گاڑیوں کی ٹکریں ہوئیں جس کی وجہ موٹروے کے ارد گرد کھیتوں میں فصلوں کی باقیات کو لگائی گئی آگ کا دھواں تھا۔ اس میں دس لوگ جاں بحق ہوئے جن میں سابق گورنر پنجاب خالد مقبول کی بہن بھی شامل تھیں۔ تو کیا ہم نے اس سے سبق سیکھا؟ ابھی کچھ دن پہلے خاور گھمن کے والد صاحب کی وفات پر سیالکوٹ میں ان کے گائوں گئے۔ واپسی پر سیالکوٹ موٹروے کے ارد گرد کھیتوں میں آگ لگی ہوئی تھی اور دھواں موٹر وے پر آرہا تھا۔ لاہور سے اسلام آباد موٹر وے پر پہنچے تو وہاں بھی آگ لگی ہوئی تھی اور دھواں پھیلا ہوا تھا۔ جہاں دس برس پہلے گاڑیوں کی ٹکڑ ہوئی تھی ان جگہوں پر اب بھی کھیتوں میں آگ لگائی جاتی ہے اور اب بھی موٹر وے پر گاڑیاں ٹکراتی ہیں اور لوگ مارے جاتے ہیں۔ اگر اس ملک کے حکمران اور بیوروکریسی موٹر وے پر چند کلومیٹر کے ایریا میں کسانوں کو آگ لگانے سے نہیں روک سکے تو آپ کا کیا خیال ہے وہ مری والے واقعے سے کوئی سبق سیکھیں گے؟
ہمارے ہاں بیوروکریسی اب عوام کی سروس بھول چکی ہے۔ اب جو لوگ سول سروس جوائن کر رہے ہیں وہ پاور اور پیسے کے لیے جوائن کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تصور عام ہے کہ اگر غربت ختم کرنی ہے یا طاقت چاہئے تو آپ سی ایس ایس کریں۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ پانچ سال میڈیکل کالجز اور انجینئر نگ یونیورسٹیز میں پڑھنے کے بعد نوجوان پولیس افسر یا اسسٹنٹ کمشنر لگ جاتے ہیں۔ اس تصور کا یہ نقصان ہوا ہے کہ اب عوام کی سہولتیں یا ان کے ایشوز حل کرنا ترجیح نہیں رہا۔ یہ بگاڑ آپ کو ہر جگہ نظر آئے گا۔ کوئی ضلع بتائیں جو بدانتظامی‘ گندگی اور کیچڑ سے بھرا ہوا نہ ہو۔ ڈاکٹر ظفر الطاف صاحب بتاتے تھے کہ گورا ڈپٹی کمشنر گھوڑے پر بیٹھ کر پورے ضلع یا علاقے کا دورہ کرتا تھا اور اس کی باقاعدہ لاگ بک میں انٹری ہوتی تھی۔ اب تو جدید ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او اپنے بچے لاہور رکھتے ہیں اور ہر ہفتے وہ اپنے تعیناتی کے ضلع سے سفر کر کے ویک اینڈ یہاں گزارتے ہیں۔ اضلاع سے پیسہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور لاہور میں فیملی کو سپورٹ کیا جاتا ہے۔ چلیں دور دراز تو چھوڑیں اب تو اسلام آباد اور پنڈی سے تیس منٹ کی ڈرائیو پر اتنا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے اور پوری حکومتی مشینری کو پروا نہیں کہ کون مر رہا ہے یا جی رہا ہے۔ شریف خاندان اقتدار میں تھا تو مری کے گورنر ہاؤس پر ان کا قبضہ تھا جس پر پچاس کروڑ کا خرچہ کر کے اس کی آرائش کی گئی۔ عمران خان وزیر اعظم بنے تو انہوں نے نتھیا گلی میں ڈیرے ڈال لیے اور وہاں سڑکیں بند کر کے پورے پروٹوکول کے ساتھ وہ رہتے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے انقلابی رہنما جو اس ملک میں انقلاب لانے آئے تھے اور پنجاب میں عثمان بزدار اور خبیرپختونخوا میں محمود خان کو انقلاب کا سربراہ بنا دیا گیا۔ آپ عمران خان صاحب اور شریف برادران کو دیکھ لیں تو پتہ چل جائے گا یہ لوگ سیاست اور انقلاب لانے آئے تھے اور کیسے ایک نے مری کے گورنر ہاؤس پر قبضہ جما لیا تو دوسرے نے نتھیا گلی میں۔ دوسری طرف داد دیں چیف سیکرٹری پنجاب کو جنہوں نے ڈی سی راولپنڈی کو ہی ہوٹلوں کے خلاف کارروائی کا ٹاسک دیا ہے۔ مطلب انکوائری بھی وہی بیوروکریسی کرے گی جس کی نالائقی سے اس ٹریجڈی نے جنم لیا۔ ڈپٹی کمشنر پنڈی ہوں یا اسسٹنٹ کمشنر مری‘ کسی کو خیال نہیں تھا کہ محکمہ موسمیات شدید برف باری کی پیشگوئی کر چکا ہے اور وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری ٹویٹ کرکے خوشخبری سنا چکے ہیں کہ ایک لاکھ کاریں مری داخل ہو چکی ہیں‘ مطلب اوسطاً چار لاکھ بندہ مری پہنچ گیا ہے۔ تو کیا مری میں اتنی سہولت ہے کہ چار لاکھ بندے سما سکیں‘ ہوٹلوں میں رہ سکیں یا گاڑیاں پارک کر سکیں؟ یہ سوچنا کس کا کام تھا؟ عوام کا نہیں تھا‘ یہ حکومتوں اور بابوز کا کام ہوتا ہے۔ وہ سب مزے سے سوئے رہے اور لوگ مرتے رہے۔ لوگوں کو روکنا بھی حکومت کا کام ہوتا ہے۔ لوگ کہیں نہیں رکتے حکومتیں زبردستی روکتی ہیں۔ یورپ تک میں لوگ کورونا کی پابندیاں توڑ کر ساحل سمندر پر نہانے پہنچ گئے تھے۔ امریکہ میں وہ کورونا ویکسین لگوانے کو تیار نہیں لیکن حکومتیں زبردستی کرتی ہیں کہ انسانی جانوں کا مسئلہ ہے۔
جہاں تک مری میں ہوٹلوں کے کرائے یا کھانے کے ریٹس بڑھنے کی بات ہے تو یہ کہاں نہیں ہوتا؟ پچھلے دنوں اوورسیز پاکستانیوں کو لانے اور لے جانے کے لیے ایئرلائنز نے ڈبل ٹرپل کرائے لیے۔ افغانستان سے لوگوں کو جب نکالا گیا تو بھی کرائے بہت بڑھا دیے گئے۔ چینی اور آٹے کی قلت ہوئی تو بھی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ یہ کام ہر جگہ ہوتا ہے۔ جو پاکستانی مری میں پھنسے ہوئے تھے ان میں سے اکثر اگر دکاندار یا تاجر تھے تو وہ بھی یہی کرتے ہیں کہ جس چیز کی ڈیمانڈ بڑھ گئی اس کی قیمت بڑھا دو۔ ابھی کھاد کسانوں کو بلیک میں بیچی گئی اور ایک ایک بوری پر چار پانچ ہزار روپے زیادہ لئے گئے۔ پورا ملک یہی کرتا ہے کہ مجبوری سے فائدہ اٹھائو‘ تو پھر حیرانی کیسی؟ حیرانی اس بات کی ہے کہ جو حکومت اور اس کے وزیر ایک لاکھ گاڑیوں کے مری داخلے پر خوش ہو رہے تھے اور ٹورازم کو بڑھا چڑھا کر کریڈٹ لے رہے تھے وہ اب انہی لوگوں کو اپنی موت کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ جب ٹورازم کو بیچ کر سیاسی فائدہ نظر آیا تو ٹورازم کے نعرے مارے اور جب اپنی بے حسی‘ بدانتظامی اور نااہلی سے بائیس لوگ مارے گئے تو ساری ذمہ داری سیاحوں پر ڈال کر خود انکوائری شروع کر دی۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ‘ کڑوا کڑوا تھو۔ وہی عوام جن کے ٹیکسوں سے یہ سب عیاشیاں کر رہے ہیں‘ اب قصوروار بھی وہی ہیں‘ جنہیں آج تک ہجوم سے ایک ذمہ دار معاشرہ بنانے کا کوئی پروجیکٹ شروع نہ کیا گیا۔ جتنے پیسے اپنے نامعلوم کارناموں کی تشہیر پر خرچ کئے گئے اگر ان سے آدھے بھی اس بے ہنگم معاشرے کو انسان بنانے پر لگاتے تو ہم بہت آگے ہوتے۔
یہ ہیں ہم‘ یہ ہے پاکستان‘ یہ ہیں ہمارے حکمران اور بابوز اور یہاں پارٹی ہو رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved