زندگی کا سفر بھی کیسا سفر ہے۔ اگلے موڑ کی خبر نہیں۔ اس سفر میں منظر تیزی سے بدلتے جاتے ہیں۔ انہیں بدلتے منظروں اور جلتی بجھتی روشنیوں کا نام زندگی ہے۔ 2021 کا آخری مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ یہ مہینہ میرے لئے کئی لحاظ سے اہم ہے۔ اسی مہینے میں میری سالگرہ آتی ہے‘ اسی میں اسماء کی سالگرہ اور اسی مہینے ہماری شادی کی سالگرہ بھی ہوتی ہے‘ لیکن اس بار دسمبر کا مہینہ پچھلے سالوں سے مختلف تھا۔ کچھ ماہ پہلے ہی ہمارا چھوٹا بیٹا شعیب پڑھائی کے سلسلے میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو چلا گیا تھا۔ ٹورنٹو جانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کا بڑا بھائی صہیب ٹورنٹو میں رہتا ہے۔ صہیب بھی آج سے 13 سال پہلے سکالرشپ پر سوئٹزرلینڈ کی ایک یونیورسٹی چلا گیا تھا جہاں اس نے پہلے ڈویلپمنٹ اکنامکس میں ایم اے‘ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور پھر ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف کے ساتھ کام کرنے کے بعد آج کل کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں کام کر رہا ہے۔ شعیب کے جانے کے بعد گھر میں ہمارے پاس ہماری بیٹی انعم تھی۔ بڑی بیٹی ہاجرہ شادی کے بعد اپنے گھر اسلام آباد میں رہتی ہے۔
اب گھر میں انعم کا کردار مرکزی تھا لیکن لڑکیاں تو والدین کے گھر مہمان ہوتی ہیں۔ انعم کی شادی کی بات چلی اور سارے معاملات خود بخود طے ہوتے گئے۔ اسلام آباد ہی میں نکاح کی رسم ادا ہوئی۔ اسی دوران لاہور کی ایک یونیورسٹی میں مجھے ملازمت کی پیشکش ہوئی اور ہم اسلام آباد سے لاہور شفٹ ہو گئے۔ انعم نے شادی کے بعد امریکہ کے شہر جارجیا شفٹ ہو جانا تھا۔ تین دسمبر کو جب ہم انعم کو رخصت کر کے گھر واپس آ رہے تھے تو دل کی کیفیت عجیب تھی۔ والدین اور بچوں کا یہی معاملہ ہے۔ بچے شعور کی سرحد پر پہنچ کر اپنی اپنی دنیائوں کی تلاش کا سفر شروع کرتے ہیں۔ وہ دنیائیں جن کی تشکیل ان کے خوابوں کے رنگوں سے ہوتی ہے۔ اس روز گھر پہنچ کر ہمیں اچانک خالی پن کا احساس ہوا لیکن زندگی رُکتی نہیں چلتی رہتی ہے۔
15 دسمبر کو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والی میری کتاب Education Policies in Pakistan کی ایک مقامی یونیورسٹی میں رونمائی تھی۔ 18 دسمبر کو ہمیں اسلام آباد جانا تھا جہاں ایک شادی میں شرکت کرنی تھی۔ اس روز مجھے یوں محسوس ہوا کہ مجھے بخار ہے لیکن شادی میں شرکت ضروری تھی۔ اتوار کو لاہور واپسی تھی۔ راولپنڈی کی پشاور روڈ سے موٹر وے پر جانے سے پہلے اسماء کے کہنے پر میں نے ایک نجی لیب سے کووڈ19 کا ٹیسٹ کرایا۔ مجھے کہا گیا کہ رپورٹ آن لائن مل جائے گی۔ لاہور پہنچ کر مجھے غیر معمولی تھکان کا احساس ہوا۔ شام رات میں ڈھل رہی تھی‘ میں لاؤنج میں بیٹھا تھا کہ اچانک میرے موبائل پر لیب کا نوٹیفکیشن ملا۔ میں نے رپورٹ دیکھی تو پتہ چلا کہ میرا کووڈ کا ٹیسٹ پازیٹیو ہے۔ میں نے اسماء کو بتایا۔ ہم نے ایک دوسرے کو تسلی دی۔ میں نے اگلے روز اپنے عزیز دوست ڈاکٹر جا وید اکرم کو فون کیا۔ انہوں نے اطمینان سے بات سنی اور پوچھا کہ میری ویکسینیشن ہو چکی ہے؟ میرے اثبات میں جواب دینے پر انہوں نے کہا: فکر کی کوئی بات نہیں۔ پھر راولپنڈی کے ڈاکٹر ریاض اور ڈاکٹر ناصر جمال سے بات ہوئی۔ انہوں نے بھی یہی بات کی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ صرف اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کا آکسیجن لیول نارمل حد میں رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہائی پروٹین خوراک یقینی بنائیں۔ دو تین دن اور گزر گئے۔
میں دن میں تین چار بار آکسی میٹر سے آکسیجن چیک کررہا تھا جو نارمل تھی۔ منگل کے دن اچانک آکسیجن کا لیول نارمل درجے سے نیچے آگیا۔ یہ بات تشویشناک تھی۔ اسماء نے راولپنڈی عرفان بھائی اور طاہر بھائی کو اطلاع دی۔ طاہر اگلے ہی روز گاڑی میں آکسیجن مشین رکھ کر لے آیا۔ اسی دوران آن لائن آکسیجن سلنڈر کا آرڈر دیا اور وہ بھی آگیا۔ اب میرے تنفس کا سلسلہ آکسیجن مشین سے جڑ گیا تھا۔ اگلے روز عرفان بھائی بھی لاہور آ گئے اور میری حالت دیکھ کر فوری طور پر ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ گھر سے ہسپتال کا فاصلہ تقریباً نصف گھنٹے کا تھا۔ گاڑی میں آکسیجن کا سلنڈر بھی تھا جس کے ذریعے میں سانس لے رہا تھا۔ ہسپتال کے کووڈ وارڈ کے ایک کمرے میں مجھے داخل کر لیا گیا۔ کچھ دیر میں ڈاکٹر فہیم آئے‘ انہوں نے معائنہ کیا اور کہا کہ مجھے نمونیہ بھی ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ میں بستر پر الٹا لیٹوں اس سے آکسیجن کا لیول بہتر ہو گا۔ میں نے اسماء سے کہا کہ بچوں کو اور خاص طور پر انعم کو میری بیماری کی اطلاع نہیں ہونی چاہیے۔ اسی دوران کمرے میں ایک نرس داخل ہوئی بالکل انعم کی عمر کی۔ اسماء نے پوچھا: بیٹا آپ کا نام کیا ہے۔ اس نے کہا ''انعم‘‘۔ میں نے اسماء کو دیکھا اور اس نے مجھے۔ انعم کے نام سے ہماری آنکھوں میں روشنی سی پھیل گئی۔ اسماء نے کہا ''انعم‘‘ تو ہماری بیٹی کا نام ہے۔ میں سوچ رہا تھا‘ اس وقت انعم یہاں سے دور بہت دور امریکہ میں عبداللہ کے ہمراہ کیلیفورنیا کی سیر کر رہی ہو گی۔ اس نے دوروز پہلے مجھے موبائل پر پیغام بھیجا تھا کہ وہ شدت سے کیلیفورنیا جانے کا انتظار کر رہی ہے‘ جہاں اس نے ڈزنی ورلڈ، یونیورسل سٹوڈیو، گولڈن گیٹ اور سان فرانسسکو کے اس میوزیم میں جانا تھا‘ جہاں کبھی Alcatraz جیل ہوا کرتی تھی۔
اب میری دنیا کووڈ وارڈ کا یہ کمرہ تھا۔ یہ میری زندگی کی پہلی رات تھی جو میں نے ہسپتال میں گزارنی تھی۔ کمرے میں میرے ساتھ علی رضا تھا۔ علی پچھلے دس سالوں سے ہمارے ساتھ ہے۔ وہ گھر کا ڈرائیور ہے اور منیجر بھی۔ وہ رات اس لحاظ سے مشکل تھی کہ آکسیجن ماسک کے ساتھ مجھے بستر پر الٹا لیٹنا تھا۔ آکسیجن کی ضرورت کا لیول 2ml تھا‘ جو رات گئے 4ml تک چلا گیا اور اگلے روز آکسیجن کی request 10ml تک چلی گئی۔ یہ تشویش کی بات تھی۔
صبح ہوئی تو گھر سے اسماء، عرفان بھائی اور طاہر بھائی بھی پہنچ گئے۔ علی نے جوس اور دلیے کا ناشتہ کرایا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ کمرے میں علی کے علاوہ کوئی نہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر نے اسماء، عرفان بھائی اور طاہر بھائی سے علیحدہ کمرے میں میٹنگ کی اور انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے کہا کہ آکسیجن لیول کا اتنی تیزی سے کم ہونا ہمارے لئے تشویش کی بات ہے‘ اگلے 48 گھنٹے انتہائی اہم ہیں‘ اگر آکسیجن لیول کی requirement مزید بڑھتی ہے تو اگلا مرحلہ ventilator کا ہوگا‘ ہمیں فوری طور پر مریض کو Intensive Care Unit میں شفٹ کرنا ہو گا۔ اس سارے عمل کی نگرانی ڈاکٹر عدنان کر رہے تھے اور ڈکٹر ذیشان عملی طور پر رابطہ کار تھے۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے ویل چیئر اور آکسیجن سلنڈر کے ساتھ ICU کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ ویل چیئر پر بیٹھے مجھے اپنے بیٹوں صہیب اور شعیب کا خیال آیا جو ٹورنٹو کے سرد موسم میں اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوں گے۔ انعم ڈزنی لینڈ کی سیر کر رہی ہو گی۔ مجھے بتایا گیا کہ ہاجرہ بیٹی اور حنبل اسلام آباد سے چل پڑے تھے۔ میرے کانوں میں منتشر آوازوں کا شور آ رہا تھا اور رت جگے سے بند ہوتی ہوئی آنکھوں میں ہسپتال کی روشنیاں دھندلا رہی تھیں۔ (جاری)