مری کوئی سائبیریا تو نہیں جو ستانوے لاکھ چونتیس ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ مری کوئی سیاچن نہیں جہاں دو ایٹمی ملکوں کی فوجیں ہمہ وقت آمنے سامنے کھڑی ہوں۔ یہاں نہ جنگ کا خطرہ ہے‘ نہ ویسی برفباری کی قیامت۔ سیاچن‘ جو ایک گلیشیر ہے‘ وہاں آج بھی درجہ حرارت منفی سترہ ہے۔ مری ایک شہر ہے‘ دارالحکومت سے محض ساٹھ کلومیٹر یعنی ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع۔ جہاں سانحے والے روز محض سترہ انچ برف گری۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ تب مری کا درجہ حرارت تین سینٹی گریڈ ہے۔ باایں ہمہ مری میں ایسا سانحہ برپا ہوا جس میں بیس سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بیڈ گورننس کے علاوہ اس سانحے نے ہماری اجتماعی دانش کو بھی بے نقاب کیا ہے اور ہماری اخلاقی پستی کو بھی ظاہر و باہر ہوا ہے۔ بظاہر جو اطلاعات ہیں‘ ان کے مطابق مری میں گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجاش تین ہزار سے ذرا اوپر ہے مگر وہاں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ گاڑیاں موجود ہوں تو ایسی صورتِ حال کا جنم لینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ صورتِ حال مگر اتنی سادہ نہیں کہ محض گاڑیوں کو گنجائش سے زیادہ کہہ کر حکومت اپنی جان چھڑا لے۔ سانحہ اپنی نوعیت میں حکومت کی ناکامی ہی نہیں‘ ایک بہت بڑی کوتاہی ہے جس کی قیمت عام آدمی کو برفباری میں موت کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔
کسی نے اس واقعے کے بعد بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اطلاعات ہیں کہ اب بھی ضلعی انتظامیہ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ مری کی جانب سیاحوں کی گاڑیوں کا جانا ممنوع ہے‘ صرف مقامی لوگوں کی گاڑیاں جا سکتی ہیں۔ ذہنِ رسا نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ مقامی لوگ سیاحوں کی گاڑی کو اہلکاروں اور ٹول پلازہ پر تعینات لوگوں کی ملی بھگت سے ایک سے دو ہزار روپیہ لے کر کراس کروا رہے ہیں۔ مری میں اب بھی اسی طرح سیاح جا رہے ہیں‘ اگرچہ اس میں تھوڑی کمی واقع ہوئی ہے۔ مری شہر کی کل آبادی پچیس ہزار کے لگ بھگ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ بہت سارے لوگ اس موسم میں شہر سے نقل مکانی کر کے آس پاس کے شہروں میں چلے جاتے ہیں لیکن بہت سارے لوگ اپنے گھروں میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ زیادہ برے حالات سنی بینک اور جھیکا گلی کے درمیان تھے جہاں پر قیامت صغریٰ بپا تھی۔ سیاحوں اور چشم دید ''گواہوں‘‘کا کہنا ہے کہ اس رات کسی محکمے کا کوئی اہلکار موجود نہیں تھا۔ اطراف میں فوج کے کیمپ ہیں‘ آخر کار انہوں نے ہی حالات کو درست کیا، لوگوں کی جانیں بچائیں اور ان کو طوفان سے بحفاظت نکالا۔ فوج کے نوجوان از خود وہاں نہیں جا سکتے تھے‘ صرف ایک کال پر یہ جوان ہمہ وقت قوم کی خدمت کے لیے حاضر ہوتے ہیں مگر ان کو مدد کی کال کرنا اور انہیں بلانا حکومتِ وقت کا فرض تھا۔
سانحے سے ایک دن پہلے وفاقی اور صوبائی‘ دونوں حکومتی ارکان ''سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دے رہے تھے۔ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اتنے لوگوں کا ایک سیاحتی مقام پر جانا اور اس تعداد میں جانا‘ حکومت کی سیاحت کو فروغ دینے کی پالیسی کی وجہ سے ہے اور ثانیاً اس سے لوگوں کی قوتِ خرید اور مالی حالت بہتر ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ان دونوں وجوہات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر سال میں ایک آدھ بار اپنی جمع پونجی سے ایک دن کسی سیاحتی مقام پر گزارنا کوئی مشکل امر ہے؟ مری پنجاب بلکہ سندھ والوں کے لیے بھی نزدیک ترین بلند سیاحتی مقام ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ان سیاحوں میں زیادہ تر لوگ سینٹرل پنجاب سے گئے تھے۔ وسطی پنجاب کے لوگ عموماً وہاں ایک دن کے لیے جاتے ہیں‘ موج میلہ کرتے ہیں اور رات کو واپسی کی راہ ناپتے ہیں۔ اتنے لوگوں کا وہاں موجود ہونا کسی خوش حالی کا مظہر نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ جتنے لوگ وہاں گئے تھے‘ کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ رات کے قیام کی غرض سے بھی گئے تھے ؟ ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں میں اگر فی گاڑی دو سیاح بھی فرض کر لیں‘ تو کیا ہوٹلوں میں دو سے تین لاکھ افراد کی گنجائش تھی؟ لہٰذا اس نقطۂ نظر پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے کہ ملک میں خوش حالی کا دور دورہ ہے۔
یہ سانحہ اپنے پیچھے ایسی کہانیاں چھوڑ گیا ہے جس میں انتظامیہ، حکومت اور عوام کے لیے بہت سارے سبق پوشیدہ ہیں۔ سرکاری ذرائع ابلاغ سے کہیں پہلے سوشل میڈیا پر سب کچھ نظر آرہا تھا۔ ''ایس او ایس‘‘ پیغامات اَپ لوڈ کیے جا رہے تھے‘ تب مناسب انتظامات کا وقت بھی تھا اور ضرورت بھی۔ ضلعی سرکاری مشینری‘ جو ضلعی ہیڈکوارٹر میں موجودہے‘ کا پہلا فرض ریسٹ ہائوسز کی بکنگ، دوست احباب کے مری میں قیام اور ہوٹلوں میں مفت قیام و طعام تک محدود ہے۔ سانحے سے ہمارا مجموعی قومی مزاج بھی ظاہر ہوا ہے۔ عوام نے بھی مناسب نہیں جانا کہ یہ سوچا جاتا کہ ایسا ہجوم مری جیسے چھوٹے سے پہاڑی شہر میں کہاں سما سکے گا؟ ایک بھیڑ چال تھی کہ لوگ پنجاب، کے پی اور جڑواں شہروں سے کثیر تعداد میں نکل پڑے۔ کوئی ایسا نہیں تھا جو سوچتا کہ اس ازدحام میں کوئی نکلنے کی سبیل بھی ہو گی یا نہیں ؟ شہر کے سینٹر پوائنٹ تک پہنچنے کے لیے پہلے دو اور پھر تین‘ تین لائنیں لگنا شروع ہو گئیں۔ جب گاڑیوں کا رش بڑھا تو کار برداروں نے راولپنڈی آنے والی سڑک سے جانا چاہا‘ یوں نکلنے والی ٹریفک وہیں رک گئی۔ رہی سہی کسر ان شوقین حضرات نے پوری کر دی جو برف باری کے شوق میں اور راستہ نہ ملنے کی پروا نہ کرتے ہوے اپنی اپنی گاڑیاں عین سڑک کے بیچ میں‘ یا جہاں گاڑی پھنسی تھی‘ وہیں چھوڑ کر برفباری دیکھنے کے لیے پیدل ہی مری کی جانب چل نکلے۔ یہ ایک کلومیٹر کا علاقہ تھا جہاں یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔ اوپر مال پر اسی طرح شور اور ہنگامہ تھا۔ فیملی والوں کے لیے البتہ مشکل صورتحال تھی کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ تھے۔ ان کے پاس مدد نہ ہونے کی صورت میں انہیں گاڑی کے اندر ہی رہنا تھا اور برفانی طوفان کا سامنا ہیٹر چلا کر کرنا تھا۔ کھانے پینے کی اشیا کی عدم فراہمی اور واش رومز کی عدم دستیابی الگ مسئلہ تھا۔
یہ درست ہے کہ ایسی آسمانی آفت کے وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ جانوں کا ضیاع بھی ہو سکتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی صوبائی اور وفاقی حکومت کی صلاحیتوں کے امتحان کا بھی یہی وقت ہوتا ہے۔ انہی حالات میں حکومت کا فرض فوری مدد اور بر وقت ریسکیو آپریشن ہوتا ہے۔ اگر سیاحوں کا اس طرح سڑکوں پر دھاوا بولنا غلط ہے تو حکومت کا کام بھی اس موقع پر بہترین انتظامات کرنا ہوتا ہے۔ اگر زیادہ سواریوں کے سبب کوئی کشتی دریا میں ڈوب رہی ہو تو اس پر سوار لوگوں کو بچانا حکومت کا ہی فرض ہوتا ہے۔ اس وقت طعن و تشنیع نہیں‘ انتظامات اور فوری انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت یہ فرض ادا کرنے میں مکمل ناکام نظر آئی۔ لوگوں نے کچھ مدد فراہم کی‘ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر مجموعی طور پر رویہ انتہائی قابلِ افسوس تھا۔ ہوٹل مالکان نے رات کا کرایہ فی کمرہ تیس تا پچاس ہزار کر دیا۔ ایک آدھ لیٹر پانی کی بوتل ایک ہزار روپے، ایک انڈہ پانچ سو روپے اور ایک روٹی بارہ سو روپے تک میں مل رہی تھی۔ ستم بالائے ستم چھوٹی گاڑی کو دھکا لگانے کے تین اور بڑی گاڑی کو دھکا لگانے کے پانچ ہزار تک وصول کیے گئے۔
ہوٹل مالکان مجموعی طور پر اس سانحے میں اپنا کردار نبھانے میں ناکام رہے۔ جن لوگوں کے پاس کیش ختم ہو چکا تھا‘ ان کا کریڈٹ؍ ڈیبٹ کارڈ تک قبول نہیں کیا گیا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ فیملی والوں نے اپنے زیورات گروی رکھوا کر رات کے قیام کا بندوبست کیا۔ جو لوگ اپنی گاڑیوں میں تھے ان کی اور بری حالت تھی۔ مری والے ان کی مدد کو آ سکتے تھے‘ ان کو کھانے پینے کی اشیا فراہم کر سکتے تھے۔ بہت سارے افراد اور ہوٹل والوں نے انفرادی طور پر ضرور کوششیں کیں مگر وہ انتہائی ناکافی تھیں۔
مری کوئی سائبیریا نہیں تھا جہاں پہنچنا مشکل ہوتا۔ جو کام اتنی ہلاکتوں کے بعد فوج کے جوانوں نے انجام دیا‘ ہمارے سول اداروں کے بس کی بات نہ تھی‘ ہمارے سول ادارے تو کب کے ناکارہ ہو چکے۔