جس طرح ادبی ثقافتی حوالوں سے ہمارے ہاں کچھ ریسٹورنٹس معروف ہوئے‘ اسی طرح ریڈیو پاکستان کے بڑے سٹیشنوں کی کینٹینیں بھی بہت شہرت کی حامل رہی ہیں۔ پاکستان کی قومی زندگی میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے سینکڑوں افراد ہوں گے جنہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو سے کیا۔ ان میں سے بیشتر کو بھلا ریڈیو کی کینٹین کیسے بھول سکتی ہے جہاں بیٹھے بغیر ریڈیو پر بکنگ حاصل کرنا محال ہوتا تھا۔ ان میں سے اکثر کا کینٹین پر ادھار بھی چلتا تھا جو ریڈیو کا چیک ملنے پر ادا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ریڈیو کی کینٹین اس وجہ سے بھی یاد رکھی جاتی ہے کہ بڑی بڑی اہم شخصیتیں یہاں محفل سجایا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر ریڈیو کے شروع کے زمانے میں کراچی سٹیشن پر جب معروف ادیب چراغ حسن حسرت قومی پروگراموں کے شعبے سے منسلک تھے تو وہ اپنا بیشتر وقت‘ سنا ہے‘ ریڈیو کراچی کی کینٹین پر گزارتے تھے۔ باغ و بہار شخصیت تھے۔ ان کے گرد ہر وقت لوگ جمع رہتے تھے اور کام کے ساتھ ساتھ گپ شپ چلتی رہتی تھی۔ ریڈیو کے ایک اس دور کے افسر راوی ہیں کہ یہ بات ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری کو اچھی نہیں لگتی تھی۔ بخاری صاحب خود محفل سجانے کے شوقین تھے اور ان کے ہوتے ہوئے کوئی اور ان سے بھی بڑی محفل سجائے‘ یہ بات ان کو بہت کھلتی تھی؛ لہٰذا بخاری صاحب نے مولانا چراغ حسن حسرت جو فیچر تحریر کرتے تھے اس فیچر پروگرام کے پروڈیوسر کی سرزنش کی کہ تم مولانا کے فیچر پروگرام کی نگرانی صحیح طور پر نہیں کرتے‘ تمہیں چاہیے کہ مولانا جو تحریر کریں اس کو اچھی طرح Vet کیا کرو۔ Vet کرنا نشریاتی دنیا میں اس عمل کو کہتے ہیں جس کے دوران یہ دیکھا جاتا ہے کہ مسودہ قابل نشر ہے یا نہیں‘ یا پھر اس مسودے میں اگر تھوڑی بہت اصلاح کی ضرورت ہے تو وہ کردی جائے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ریڈیو میں یہ روایت بھی رہی ہے کہ کسی بھی صاحب علم شخصیت کے مسودے کو چھیڑا نہیں جاتا تاوقتیکہ اس میں کوئی بات حکومت وقت کی پالیسی کے خلاف ہو۔ مولانا چراغ حسن حسرت کو تو وزارت اطلاعات نے تعینات کیا ہوا تھا لہٰذا کوئی ان کے مسودے کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا۔ تاہم اب بخاری صاحب کی سرزنش کے بعد فیچر پروگرام کے پروڈیوسر جوش میں آچکے تھے۔ مولانا حسب معمول کینٹین میں محفل سجائے بیٹھے تھے کہ پروڈیوسر صاحب آئے اور مولانا سے گویا ہوئے۔ ’’مولانا میں آپ کے فیچر پروگرام کا پروڈیوسر ہوں‘‘۔ مولانا اس کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے ’’برخوردار مجھے معلوم ہے‘‘۔ ’’مولانا میں آپ کا مسودہ Vet کیا کروں گا آپ کسی ننانوے کے چکر میں نہ رہیں۔‘‘ پروڈیوسر کی یہ بات سن کو مولانا سمجھ گئے کہ اس کم علم نوجوان کو کسی نے بھر کر بھیجا ہے۔ مولانا نے انتہائی تحمل سے اس نوجوان پروڈیوسر کو اپنے پاس بٹھایا اور بولے : ’’میاں صاحبزادے ننانوے کا پھیر ہوتا ہے چکر نہیں ہوتا۔ چکر جس شے کا ہوتا ہے وہ ان صاحب سے پوچھ لینا جنہوں نے آپ کو میرے پاس بھیجا ہے۔‘‘ مولانا کے اس جملے پر وہاں موجود لوگ اس زور سے ہنسے کہ پروڈیوسر جھینپ کر وہاں سے چلا گیا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کی کینٹین بھی بڑی بڑی ادبی ثقافتی شخصیات کا مسکن رہی ہے۔ میں کچھ نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ لازمی طور پر بہت سے نام رہ جائیں گے اور یہ نہ انصافی ہوگی۔ بس آپ یہ سمجھ لیں کہ کم ہی کوئی معروف شخصیت ہوگی جس نے اس کینٹین کی چائے نہ پی ہو۔ موسیقی کے نامور فنکار مہدی حسن کی تو باقاعدہ کینٹین کنٹریکٹر معین سے دوستی تھی۔ کنٹریکٹر بس معین کے نام سے ہی مشہور تھا۔ معین کی کینٹین پر مہدی گھنٹوں موسیقی کے دیگر فنکاروں، سازندوں اور ریڈیو ملازمین کے درمیان بیٹھے قصے سنایا کرتے تھے۔ اپنی گائیکی سے گلاس توڑنے کا واقعہ بھی انہوں نے ایسی ہی ایک محفل میں سنایا تھا۔ اس وقت کئی لوگوں نے مہدی حسن کی اس بات کا مذاق اڑایا تھا حالانکہ فزکس کے قوانین کی رو سے ثابت ہوچکا ہے کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ ریڈیو لاہور پر اپنی پوسٹنگ کے دوران میں کا م میں مصروفیت کی وجہ سے مجھے بہت کم موقع ملتا تھا کہ کینٹین میں جا کر بیٹھوں۔ ویسے بھی افسر ہونے کی وجہ سے ریڈیو میں ایک کمرہ ملا ہوا تھا جہاں چپڑاسی چائے وغیرہ لے آتا تھا۔ اس کے باوجود جب کبھی کینٹین کے سامنے سے گزر ہوا اور وہاں محفل جمی دیکھی تو پھر تھوڑی دیر اس کا لطف ضرور اٹھایا۔ ایک مرتبہ تو ایسا ہوا کہ میں ایسی ایک محفل میں شریک ہوا اور پھر ایک ضروری میٹنگ میں جانا ہی بھول گیا۔ اس روز موسیقی کے کچھ فنکار ، سازندے اور دو چار ادیب اور شاعر اس بات پر بحث کررہے تھے کہ قیامت کے روز تو نفسا نفسی کا عالم ہوگا مگر کیا اس دنیا میں نفسا نفسی نہیں ہے۔ اس حوالے سے دنیا میں نفسا نفسی کے ایسے قصے بیان ہورہے تھے کہ ان کے سامنے قیامت کی نفسا نفسی کم لگتی تھی۔ یہ جملہ مجھے آج تک یاد ہے جو اس بحث میں ایک سازندے نے کہا تھا ’’دیکھیں جی قیامت میں جو ایمان والے لوگ ہوں گے وہ تو ایک دوسرے کے ساتھ ہوں گے مگر یہاں ان ایمان والوں کی یہ حالت ہے کہ ایک دوسرے کا کنٹریکٹ چرا لیتے ہیں۔ جس کو کنٹریکٹ بھیجا جاتا ہے‘ کوئی دوسرا علاقے کے ڈاکیے سے ساز باز کرکے اس کا کنٹریکٹ غائب کر دیتا ہے اور اپنا چانس بنا لیتا ہے۔‘‘ شاید بات آپ کی سمجھ میں نہ آئی ہو۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ریڈیو میں تقریر کرنے کے لیے پینل پر جو حضرات ہوتے تھے ان کو بذریعہ ڈاک کنٹریکٹ بھیجا جاتا۔ اس کنٹریکٹ سے اطلاع ملنے کے بعد متعلقہ شخص بذریعہ ڈاک اس کنٹریکٹ کے ایک صفحے پر دستخط کرکے واپس بھجواتا تھا اور مقررہ دن آ کر پروگرام کی ریکارڈنگ کروا دیتا تھا یا براہ راست نشر کرتا تھا۔ اس سازندے کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ایک صاحب کا بھیجا گیا کنٹریکٹ ان تک پہنچنے سے پہلے ہی ایک دوسرے صاحب ڈاکیے سے ساز باز کرکے غائب کر دیتے تھے۔ جب ان صاحب کی طرف سے جن کو کنٹریکٹ بھیجا گیا تھا کوئی جواب نہ آتا تو کنٹریکٹ غائب کرنے والے صاحب ویسے ہی کسی اور بہانے سے متعلقہ پروڈیوسر کو اپنا چہرہ دکھا دیتے۔ اکثر صورتوں میں پروڈیوسر چہرہ دکھانے والے صاحب کو متبادل کے طور پر بک کر کے نیا کنٹریکٹ بنوا دیتا‘ جس سے پروڈیوسر کی مصیبت کا فوری مداوا ہوجاتا۔ ایسے واقعات ہمارے قومی کردار کا نوحہ تو ہیں ہی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں صورتحال سنورنے کے بجائے بگڑتی ہی رہی ہے۔ ریڈیو کی کینٹین پر اس ناگفتہ بہ قومی حالت کا بہت رونا رویا گیا ہے۔ یہاں شاعروں کی محفلیں ہوتی رہیں، یہاں دانشور بحثیں کرتے رہے۔ یہاں مذہبی امور زیر بحث آتے رہے۔ موسیقی کے زوال کا رونا دھونا ہوتا رہا۔ مجھے یاد ہے یہیں موسیقی کے ایک فنکار سے جب کسی نے پوچھا کہ ریڈیو کی اتنی خدمت کی۔ کیا ملا آپ کو؟ تو اس نے جواب میں ایک جملہ کہہ کر دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ وہ جملہ تھا ’’سب کچھ ملا سوائے عزت اور دولت کے‘‘۔ ریڈیو کے ہمارے ایک افسر کہا کرتے تھے کہ جس طرح کمپیوٹر چپ میں بے بہا معلومات سٹور ہوجاتی ہیں اسی طرح بعض مقامات بھی کمپیوٹر چپ کی طرح ہوتے ہیں۔ یقیناً ریڈیو کی کینٹین بھی ایک کمپیوٹر چپ کی مانند ہے جس میں بے اندازہ گفتگو، خیالات، جذبات، تبصرے، اشعار، نغمے اور بحث و مباحثے سٹور ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved