تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     13-01-2022

ہنر مندی کا زمانہ آگیا

آج جن معاشروں کو افلاس کا سامنا ہے اُن میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ خطے میں ہماری حالت البتہ نسبتاً بہتر ہے۔ پاکستان میں عام آدمی اچھا کھاتا پیتا ہے‘ اُس کا پہناوا بھی کچھ ایسا برا نہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور افغانستان کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ پاکستانی اب تک قابلِ رشک انداز سے جی رہے ہیں۔ ہاں! اس قابلِ رشک اندازِ زندگی کی جو قیمت ہمیں ادا کرنا پڑ رہی ہے وہ ہمیں ہی معلوم ہے۔ خطے میں کون کتنے مزے میں ہے اور کون زندگی کو عذاب کی صورت جھیل رہا ہے‘ یہ بحث پھر کبھی سہی۔ آج کے ہمارے معاشرے کو ایسے بہت سے مسائل کا سامنا ہے جو پسماندہ دنیا میں عام ہیں۔ افلاس ہی نہیں، مہنگائی کا جادو بھی سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بیروزگاری نے نئی نسل کو شدید الجھن میں ڈال رکھا ہے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کس طور کی جائے، ایسا کیا کِیا جائے جس سے معیاری زندگی ممکن ہو پائے۔
ہر دور میں زندگی کو علم و فن کا توازن درکار رہا ہے۔ محض علم کا حصول کافی نہیں‘ فن کے حوالے سے بھی بہت کچھ آنا چاہیے۔ جو لوگ علم کے حصول کی پروا کیے بغیر کوئی فن یا ہنر سیکھ کر عملی زندگی شروع کرتے ہیں وہ کسی نہ کسی مقام پر الجھ کر رہ جاتے ہیں مگر خیر! ہنر مندی کے ساتھ زندگی بسر کرنے میں ایک بات تو طے ہے‘ کہ کمانا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ کسی بھی انسان کے لیے انتہائی بنیادی معاملہ ہے کمانا۔ کمانے کے مرحلے سے آسان گزر جانے والوں کی زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ ہر قابلِ ذکر معاشرے میں ایسے کروڑوں افراد موجود ہیں جو علم کے حصول کی تگ و دَو سے بہت دور اپنے آپ کو کسی نہ کسی ہنر کے حوالے کر بیٹھے اور بہت آسانی سے دریا کے پار اُتر گئے۔
کسی بھی ہنر کا حصول انسان کو بہت سے مسائل سے چھٹکارا دلانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ہنر کا مطلب ہے کمانے کی صلاحیت۔ کامیاب آپ اُنہی کو پائیں گے جنہوں نے اپنے آپ کو کسی شعبے کے حوالے کیا یعنی کسی ہنر کے سیکھنے پر مائل ہوئے اور پھر اِتنی مہارت ممکن بنائی کہ زندگی آسان ہوتی چلی گئی۔ ہنر مندی ہر دور میں استحسان کی نظر سے دیکھی گئی۔ کیوں نہ دیکھی جاتی کہ ہنر مندی ہی سے دنیا کا بھلا ہوتا آیا ہے۔ ہم آج اپنے اطراف جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ خالص ہنر مندی کا نتیجہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ علم اور ہنر کا حسین امتزاج شاہکار تخلیق کیا کرتا ہے مگر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ لوگ علم کے معاملے میں کمزور پڑ جائیں تو ہنر مند بہر حال اپنے آپ کو منوا لیتے ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار سے ہوتا ہوا جو ورثہ ہم تک پہنچا ہے وہ اول و آخر ہنر مندوں ہی کی دَین ہے۔ آج ہم جتنی بھی سہولتوں سے استفادہ کر رہے ہیں اور جو خدمات ہماری زندگی میں معنویت پیدا کر رہی ہیں وہ سب کی سب مختلف ادوار کے ہنر مندوں کی محنت شاقّہ کا نتیجہ ہیں۔ ہر دور کے انسانوں نے اِس دنیا کو زیادہ سے زیادہ دلکش اور قلب و نظر کو راحت بخشنے والی بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ اِن کوششوں کے نتیجے ہی میں ہمیں شاندار عمارتیں ورثے میں ملیں۔ یہی کوششیں ہمیں ایجاد و دریافت کے کوچوں کی بھی سیر کراتی رہی ہیں۔ اَن گِنت لوگوں نے ہزاروں سال تک جو کچھ کیا اُس کا مآل ہمارے سامنے ہے۔ آج ہمیں میسر تمام اشیا و خدمات ہزاروں برس کے ارتقائی سفر کا نتیجہ ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں اس لیے تو نہیں ملا کہ بس اِن سے مستفید ہوں اور دنیا سے چل دیں۔ ہمیں بھی تو کچھ کرنا ہے۔ یہ دنیا اپنی خوبصورتی اور دل کشی میں اضافے کے لیے ہم سے بھی کچھ مانگتی ہے، کچھ چاہتی ہے۔
تین چار عشروں کے دوران پرسنٹیج کا بہت غلغلہ رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ پرسنٹیج کے لیے طلبہ و طالبات دن رات محنت کرتے ہیں۔ بڑی جماعتوں میں داخلوں کے لیے بھی پرسنٹیج بنیادی ضرورت ہے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ پرسنٹیج کا زمانہ لدنے والا ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ غیر معمولی پرسنٹیج والے طلبہ و طالبات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ہر سال لاکھوں نوجوان غیر معمولی پرسنٹیج کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔ اُن کے لیے ملازمتیں کہاں سے لائی جائیں؟ سرکاری شعبہ تو خیر زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتا، نجی شعبہ بھی تھکن سے چُور دکھائی دیتا ہے۔ وہ بھی کہاں تک نئی نسل کے روشن مستقبل کے لیے گنجائش فراہم کرے؟ نئی نسل کو حقیقی مفہوم میں آگے بڑھنے کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ نجی شعبہ جوش و جذبے کے ساتھ فراہم کرتا رہا ہے۔ اِس میں اُس کا اپنا مفاد بھی مضمر ہے۔ نجی ادارے انتہائی باصلاحیت نوجوانوں کی خدمات حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جب نوجوان پوری دلچسپی کے ساتھ بھرپور محنت کریں گے تو صرف اُن کا اپنا بھلا نہ ہوگا بلکہ ادارے کا بھی بھلا ہوگا۔
آج نئی نسل کو علم سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ مختلف شعبوں میں اعلیٰ اسناد رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ بیشتر کا حال یہ ہے کہ عملی زندگی کا تجربہ برائے نام بھی نہیں۔ وہ جب ملازمت کے سلسلے میں کہیں جاتے ہیں تو ٹکا سا جواب ملتا ہے۔ کیوں نہ ملے؟ کارپوریٹ دنیا چاہتی ہے کہ تجربہ کار افراد کو ملازمت فراہم کرے، ایسے لوگوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرے جو اپنے شعبے کے عملی پہلوؤں سے بخوبی واقف ہوں۔ یہ خواہش اور کوشش کسی بھی درجے میں غلط ہے نہ ناپسندیدہ۔ ہم میں سے ہر ایک یہی تو چاہتا ہے۔ اب کیا کِیا جائے؟ نئی نسل کو مستقبل کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی ضرورت تو یہ ہے کہ اُنہیں عملی زندگی کا تھوڑا بہت تجربہ حصولِ علم کے دوران ہی حاصل ہو جانا چاہیے۔ تکنیکی تعلیم و تربیت کے اداروں میں اِس کا غیر معمولی اہتمام کیا جاتا ہے۔ بہتر معاشی امکانات کے لیے تعلیم و تربیت دینے والے ادارے جانتے ہیں کہ سند پاتے ہی اُن کے طلبہ و طالبات کے لیے معقول عملی زندگی کے دروازے اُسی وقت کھل سکتے ہیں جب وہ اُس زندگی کے بارے میں چند بنیادی باتیں اچھی طرح جانتے ہوں۔ عام تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کو زندگی کے عملی پہلوئوں کے بارے میں کم ہی بتایا جاتا ہے اور عملی زندگی سے متعارف کرانے کی کوششیں بھی برائے نام ہوتی ہیں۔ مثلاً انٹر‘ کامرس کی تعلیم دینے والے کالجوں میں کم کم ہی بتایا جاتا ہے کہ طلبہ کو تعلیم مکمل کرنے پر فنانس کے شعبے میں جانے پر کس طرح کے ماحولِ کار کا سامنا کرنا ہوگا۔ دوسری طرف بڑے ادارے اپنے طلبہ کو تیار ہی عملی زندگی کے لیے کرتے ہیں۔ بزنس مینجمنٹ کی تعلیم دینے والے ادارے اگرچہ عملی پہلو کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اپنے طلبہ کو عملی زندگی کے لیے عمومی تعلیمی اداروں سے کہیں بہتر انداز سے تیار کرتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں کاروباری اداروں کی سوچ بھی مختلف ہے۔ ہم ''سمارٹ زمانے‘‘ میں جی رہے ہیں۔ جب چیزوں کو سمارٹ بنانے پر زور دیا جارہا ہے تو سوچئے کہ انسان کو کتنا سمارٹ ہونا چاہیے! اب تعلیم بھی سمارٹ ہی ہونی چاہیے۔ تعلیم کے سمارٹ ہونے کا مفہوم اِس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ طلبہ کو حصولِ علم کے دوران ہی اچھی طرح بتایا جائے کہ جب وہ سند پاکر عملی زندگی شروع کریں گے تب کس نوعیت کے ماحول اور کس طرح کی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب ایس ایس سی (میٹرک) سے ایچ ایس سی (انٹرمیڈیٹ) کی سطح تک نوجوانوں کو خوب اندازہ ہو جانا چاہیے کہ عملی زندگی اُن کے لیے کس نوعیت کے ثمرات کی حامل ہوگی۔ نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تعلیمی اداروں ہی میں تیار کرنا لازم ہے۔ اُنہیں اپنی پسند کے کسی ایک ہنر کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہونا چاہیے۔ کسی ایک ہنر کے ساتھ عملی زندگی شروع کرنے والے نوجوان کامیابی کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں۔ نئی نسل کو خصوصی طور پر ذہن نشین کرایا جائے کہ اب کاروباری ادارے پرسنٹیج سے زیادہ ہنر اور مہارت کو اہمیت دیتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved