تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     14-01-2022

چائے‘ کافی اور اشرافیہ

قہوہ‘ سبز چائے اور اس نوع کے دیسی گرم مشروبات ہمارے خطے میں صدیوں سے نوش کئے جاتے ہیں۔ سردیاں ہوں یا نزلہ زکام کی کیفیت حکیم مقامی جڑی بوٹیوں سے جوشاندے آج بھی تیار کرتے ہیں۔ مغرب میں تو تقریباً نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے جنگلی پھولوں‘ جھاڑیوں کے پتوں اور گلاب کی کلیوں سے بنی چائے یا قہوہ دیدہ زیب رنگ دار پڑیوں میں بند کرکے بیچا جا رہا ہے‘ جسے ہربل چائے کا نام دیا جاتا ہے۔ قدرتی نباتاتی اجزا سے تیارکردہ چائے کو صحت کیلئے انتہائی مفید خیال کیا جاتا ہے۔ ہمیں بھی جب موقع ملتا ہے‘ گوناگوں جڑی بوٹیوں اور پھولوں سے بنی چائے کے کچھ ڈبے ساتھ لے آتے ہیں۔ سوچتا ہوں‘ روایت تو یہاں بھی تاریخی ہے‘ مگر سوائے چند جوشاندوں کے ہمارے صنعتکار اور حکیم گھرانے کچھ زیادہ بازار میں نہیں لا سکے۔ ہمارے جیسے پُرانی وضع کے لوگ بھی گراس کی چند جڑیں لگا کر پورا سال قہوے کا انتظام رکھتے ہیں۔ الائچی‘ سونف‘ دارچینی اور اجوائن کا مرکب بنا لیں تو یہ اجزا خوشبو‘ تازگی کے ساتھ ساتھ بدن میں نئی روح اور جان ڈال دیتے ہیں۔ نسخے ہیں جو عصرِ حاضر میں بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہیں۔
ہماری بات قومی سطح پر کچھ اور ہے‘ اجتماعی طورپر ہم اپنی دیسی حکمت کو جدید خطوط پر استوار نہیں کر سکے۔ حکیم محمد سعید صاحب اور ہمدرد دواخانہ نے اعلیٰ درجے کا کام کیا‘ مگر اسے مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ میں ہرگز یہ بات نہیں کر رہاکہ کیمیاوی ادویات کی کوئی ضرورت نہیں‘ گزارش صرف اتنی ہے کہ جو طبی علم یونانیوں سے عربوں کے راستے ہمارے خطے میں آیا‘ اور ابھی تک لوگ اسے یونانی طریقہ علاج ہی کہتے ہیں‘ ہمیں اس کی سرپرستی اور جدید سائنسی تحقیق کے قالب میں ڈھالنے کی ضرورت تھی۔ ریاستی سطح پر کوئی قومی طبی کونسل تو موجود ہے‘ مگر تحقیق کے بارے میں معاملات غالباً وہی ہیں جو دیگر شعبوں کے وطنِ عزیز میں ہیں۔ کم از کم ''ہربل چائے‘‘ کی تیاری کے لئے تو کسی لیبارٹری کی ضرورت نہیں‘ اور اگر ہو تو وہ بھی کوئی ہنرمند اپنے وسائل سے شروع کر سکتا ہے۔ عالمیت اور مسابقت کے اس دور میں ہمارے نوجوانوں کو‘ جو بیکار سندیں ہاتھ میں پکڑے سرکاری نوکریوں کی تلاش میں رہتے ہیں‘ زراعت اور معدنیات کے مقامی وسائل پر مبنی اشیا تیار کرنے کی مہارت حاصل کرنے کی ترغیب اور تحریک ملنی چاہئے۔ اگر چائے کا متبادل تلاش کرنا ہے تو وہ ان مقامی جڑی بوٹیوں‘ پھولوں‘ پتوں اور بیریوں میں ہے۔ سب کرشمہ ڈبے کی خوبصورتی اور مارکیٹنگ میں ہے۔ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ گزشتہ سال ہم نے تقریباً چھ سو ملین ڈالرز کی چائے درآمد کی اور یہ رجحان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
یہ درویش خود چائے اور کافی کا شوقین نہیں بلکہ نشئی یاروں کی طرح عادی ہے۔ جب تک صبح سویرے دو چارگھونٹ کالی‘ ابلتی ہوئی چائے یا کافی کے حلق سے نیچے نہ اتریں ''غیب سے خیال‘‘ آتے ہی نہیں‘ توجہ کہیں مرکوز ہو ہی نہیں پاتی۔ ہمیں چائے کا عادی بنانے کی شروعات انیسویں صدی کے اوائل میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے کی تھی۔ سگریٹ اور کالی چائے لوگوں میں مفت تقسیم کئے جاتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ایک دفعہ یہ چیزیں منہ کو لگ گئیں تو چھوڑنا محال ہو گا۔ سگریٹ مستیوں کے زمانے میں کئی بار سلگائے رکھنے کی کوشش تو کی‘ مگر کبھی اس کے ساتھ محبت کا رشتہ استوار نہ ہو سکا‘ مگر چائے ہمارے ساتھ ایسی لپٹی کہ اب اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ امریکہ میں تعلیم کی غرض سے چالیس سال قبل جانا ہوا تو کافی سے ہماری دوستی وہاں ہوئی۔ کالی کافی کے صبح سے شام تک کپ پہ کپ چلتے تھے۔ شعبے کے ایک کونے میں ایک شیشے کا جگ نما دیگچہ مسلسل کافی کی بھاپ اگل اگل کر سارے ماحول کو معطر رکھتا تھا۔ ہر کافی کا طلبگار ساتھ رکھے خالی کپ میں چونّی کا سکہ ڈالتا اور اپنا کپ بھر کر لے آتا۔ چھوٹے اور بڑے کپ کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ کافی بنانے اور پینے کا فن امریکہ میں عروج پہ رہا ہے‘ مگر وہاں چائے پینے کی تمیز پیدا نہیں ہو سکی۔ اس کے پیچھے امریکی قومیت پرستی اور برطانیہ کے خلاف جنگِ آزادی کی کہانی پوشیدہ ہے۔ ہندوستان میں اگائی اور کارخانوں میں تیارکردہ چائے امریکہ کی نوآبادیوں میں فروخت کی جاتی تھی۔ بیرونی جنگوں کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے جب برطانوی حکومت نے 1773 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو بغیر ٹیکس ادا کئے چائے فروخت کرنے کی اجازت دی تو امریکی قومیت پرستوں نے بوسٹن کی بندرگاہ پر جہازوں میں لائی گئی چائے کو سمندر میں غرق کر دیا تھا۔ یہ واقعہ 16دسمبر 1773 کے روز رونما ہوا تھا‘ جو امریکی تاریخ میں 'بوسٹن ٹی پارٹی‘ کے نام سے مشہور ہے۔ دوسری بات‘ کافی کی پیداوار کا جغرافیائی ماحول جنوبی امریکہ میں قریب ہی تھا۔ معافی چاہتا ہوں‘ بات کچھ آگے نکل گئی۔ جس طرح انگریزی چائے کی کمپنیاں دنیا میں آج بھی چائے کے کاروبار پر چھائی ہوئی ہیں‘ اس کے مقابلے میں امریکی کمپنیوں نے کافی کے کاروبار پر اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ چائے اور کافی پیداوار تو غریب ممالک کی ہیں مگر ان کی تجارت پر قبضہ مغربی کمپنیوں کا ہے۔ آپ روزانہ چائے اور دیگر مشروبات کے اشتہار اپنی سکرینوں پر دیکھتے ہوں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ پاکستان میں کوئی اور چیز نہ پیدا ہوتی ہے‘ اور نہ استعمال کی جاتی ہے۔ اسے کہتے ہیں کاروباری حکمت‘ مہارت اور غلبہ۔
ہمارے جیسے مغلوب معاشرے اور ریاستیں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ صارفین کی منڈیاں ہیں۔ ہمارے بچپن میں ایسا نہ تھا۔ ہمارے دیہات میں چائے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ کسی کو بخار ہوتا یا سر درد تو کوئی حکیم یا نیم حکیم چائے کا نسخہ بھی تجویز کر دیتا۔ سر درد سے جان چھڑاتے چھڑاتے چائے خود دردِ سر بن گئی۔ اس سے عوامی کیفے بنائے جانے کا کلچر رواج پایا۔ ہر گائوں اور تمام شہروں کے بازاروں میں 'چائے چاہئے‘ کا شور ہے۔ کھوکھے‘ سڑکوں کے کنارے چھپر ہوٹل‘ کہیں بھی چلے جائیں‘ آپ کو نظر آئیں گے۔ آج تک میں نے کوئی جگہ گاہکوں سے خالی نہیں دیکھی۔ اردگرد کے لوگ اکٹھے بیٹھ کر چائے نوشی‘ اخبار بینی اور سیاسی گفتگو کے ساتھ غیبت کمیٹیوں کا روپ بھی دھار لیتے ہیں۔ فلمی گانے‘ فلمیں‘ دونوں ماحول میں رنگ بھر دیتے ہیں۔ چائے اور تفریح ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
کافی ابھی تک ہماری حکمران اشرافیہ‘ نودولتیوں اور صاحب لوگوں کی ترجیح ہے۔ جب سے ان کی جیبیں طرزِ حکمرانی اور کمزور احتساب نے بھاری کی ہیں‘ امریکی کافی فرنچائزز نے پوش بازاروں میں اپنی دکانیں سجا لی ہیں۔ ہمارے جیسے حقیر لوگ باہر لگائی گئی میزوں پہ بیٹھنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھار رکھ رکھائو میں پھنس بھی جاتے ہیں‘ مگر جی کبھی ان کی کافی پر زرِ خطیر خرچ کرنے کو نہیں چاہتا۔ ہم چونکہ اصلی کافی کے عادی ہیں‘ ان کا ذائقہ ہمیں تو جعلی سا لگتا ہے۔ مگر اشرافیہ اور صاحب لوگ ہیں کہ ٹوٹے پڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایک ہی قطار میں کئی کافی بار آپ کو کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کے بازاروں میں نظر آئیں گے۔ میرے محلے میں بھی دس کے قریب جڑے ہوئے ہیں مگر کبھی وہاں بیٹھنے کو جی نہیں چاہا۔ وہ ماحول ہی نہیں۔ قریب گندگی کے ڈھیر‘ رش‘ تنگ جگہیں اور جعلی پن نے ہمیں ان کافی بازاروں سے دور رکھا ہے۔ ہم کہیں دور جنگل کے کنارے یا اپنے گھر کے اندر قلم کاغذ سنبھالنے سے پہلے کافی اور چائے سے روزہ توڑتے ہیں۔ ڈنڈا نہ اٹھا لینا بریک فاسٹ کا مطلب ناشتہ ہی ہے۔ میں ایاز امیر صاحب کے ساتھ بالکل اتفاق کرتا ہوں کہ کوئی ڈھنگ کی جگہ اب اپنی ہے نہیں‘ جہاں ہم محفل جمائیں‘ کافی پیئں اور ایسے لوگ ہوں جن سے کوئی بات ہو سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved