تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     14-01-2022

طالبان حکومت اور پاکستان

کیا طالبان حکومت پاکستان کے گلے کا کانٹا بن چکی ہے؟ ایک ایسی تحریک جسے چین، روس، پاکستان، ترکی، قطر سمیت کئی ممالک نے تعاون فراہم کیا‘ اس امید پر کہ بیس سال کی جنگ کے دوران ان کے رویوں میں میانہ روی آئی ہو گی، مگر چند ہفتوں میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے جو احکامات جاری کئے گئے ہیں‘ ان کے پیچھے جو سوچ نظر آرہی ہے اس نے تمام توقعات پر پانی ہی نہیں پھیرا بلکہ افغان طالبان کے سیاسی سپورٹرز کو بھی بیک فٹ پر ڈال دیا ہے اور ان کو اس پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ ان کی حمایت کرتے ہوئے کہیں سنگین غلطی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ پاک افغان سرحد‘ جس پر باڑ کا 94 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے‘ وہ علاقہ ہے جو بین الاقوامی طور پر پاکستان کی سرحد کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے مگر افغانستان کے کچھ قوم پرست اب بھی اسے ڈیورنڈ لائن قرار دیتے ہیں اور وقتاً فوقتاً یہ مسئلہ اٹھا کر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس سرحد کو نہیں مانتے؛ تاہم ان کے نہ ماننے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی‘ جو 1947 سے پاکستان کی صورت میں موجود ہے۔
سوشل میڈیا پر حال ہی میں پکتیکا سے خبر آئی کہ پاکستان کے سات ایف سی جوانوں کو طالبان نے سرحد پار کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ ایف سی اہلکار غیر قانونی طور پر افغانستان میں داخل ہوئے۔ پتہ نہیں یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی لیکن اس واقعہ پر ایک افغان پروفیسر فیض اللہ جلال نے ٹویٹر کے ذریعے لکھا کہ یہ پاک افغان سرحد بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد ہے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے ڈیورنڈ لائن والے بیانیے سے اصولی طور پر اختلاف کیا۔ 7 جنوری کو طالبان کے ایک حامی نے ٹویٹر پر لکھا کہ اب پروفیسر فیض اللہ جلال کا علاج ہو گا اور اگلے ہی روز پروفیسر صاحب غائب ہو گئے۔ ایک دن بعد ذبیح اللہ مجاہد کے نائب بلال کریمی نے تصدیق کی کہ پروفیسر فیض اللہ جلال کو حکومت کے خلاف الٹی سیدھی باتیں کرنے کی پاداش میں وضاحت کے لئے گرفتار کر لیا گیا ہے‘ یہ پروفیسر صدر غنی کے خلاف بھی ایسے ہی تنقیدی خیالات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان خود بھی حکومت وقت کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے تھے۔
باڑ کے خلاف افغانوں کے اس طرح کے معاملات سے تین مسائل واضح ہوتے ہیں۔ ایک طرف طالبان سے وابستہ افراد‘ جن میں کئی پیراشوٹرز بھی شامل ہیں، سرحد سے باڑ ہٹانے اور ڈیورنڈ لائن کے قصۂ پارینہ کو بار بار اٹھا کر توجہ پاکستان پر مرکوز کریں گے یعنی پراکسی یا سہولت کار کے طور پر انتشار اور اختلافات کو ہوا دیتے رہیں گے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کس کی ایما پر ہو رہا ہے؟ ظاہر ان قوتوں کی ایما پر جو پاکستان کو مسلسل نیزے کی نوک پر رکھنا چاہتی ہیں۔ دوسرا مسئلہ طالبان کی برداشت کا‘ ان کی اقدار کا ہے۔ وہ خود کو تنقید سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ صرف اور صرف اپنے مذہبی نقطہ نظر پر یقین رکھتے ہیں اور ابھی تک اسی زعم میں ہیں کہ انہوں نے دو سپر پاورز یعنی روس اور امریکہ کو شکست دی ہے۔
سرحد سے باڑ اکھاڑنے کا پہلا واقعہ 18 دسمبر کو رونما ہوا جبکہ ایک دن بعد ہی اسلام آباد میں افغانستان کے موضوع پر او آئی سی کا خصوصی اجلاس منعقد ہونا تھا۔ طالبان سوشل میڈیا نے باڑ اکھاڑنے اور کانٹے دار تار کے بنڈل قبضے میں لینے کے مناظر شیئر کئے اور اس پر اپنے آپ کو شاباشی بھی دی۔ 9 جنوری کو ایسی ہی ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا پر عام ہوئی جس میں افغان فوجی خاردار تار کے بنڈل قبضے میں لے رہے ہیں۔ اس کے بعد افغان وزارت دفاع کے حکام نے یہ بیان بھی داغ دیا کہ خاردار باڑ لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ سرحد کے آر پار بسے ہوئے گھرانوں کو تقسیم کر دے گی۔ لیکن تازہ ترین واقعہ ایسے علاقہ میں رونما ہوا جو زیادہ تر صحرا ہے‘ سو کلومیٹر پر پھیلا دشت و بیاباں ہے‘ جہاں ایک طرف افغان صوبہ نمروز دوسری طرف ایران کا سیستان بلوچستان صوبہ اور تیسری طرف پاکستانی بلوچستان کا چاغی ڈسٹرکٹ اور دالبندین کا علاقہ ہے۔ سو کلومیٹر پر پھیلا یہ وہ علاقہ ہے جہاں نمروز کے چاربرجک سرحدی قصبے کے راستے لوگ ایران یا پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ 15 اگست سے پہلے اور بعد میں افغان طالبان اور عام افغانوں نے افغانستان سے فرار کیلئے یہی روٹ استعمال کیا تھا۔ طالبان رہنما ملا اختر منصور بھی ایران سے واپسی پر چاربرجک کے قریب ہی امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
طالبان حکومت بننے کے بعد حکومت پاکستان نے اس علاقے میں باڑ لگانے کا کام شروع کیا تو افغانوں کو یاد آ گیا کہ یہ تو خاندانوں کوتقسیم کرنے کا سبب بنے گی‘ لہٰذا انہوں نے اکھاڑ پچھاڑ شروع کردی۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو کسی کی ایما پر گڑے مردے دوبارہ اکھاڑ کر پاک افغان تعلقات کو آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں اصل طالبان ہیں‘ پیراشوٹی طالبان بھی شامل ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو خود کو حقیقی افغان ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ آج کل افغانستان میں ایک نیا فیشن چل رہا ہے کہ وہی بندہ بغیر کسی ثبوت کے محب وطن جانا جاتا ہے جو پاکستان کے بارے میں منفی رائے رکھتا ہو‘ اور یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ کوئی ان کو غیر ملکی ایجنٹ یا غدار جیسے القابات سے نہ نوازے۔ پاکستان ہمیشہ افغانستان میں امن اور سلامتی کا طلب گار رہا ہے کیونکہ افغانستان میں امن اور سلامتی دراصل پاکستان میں امن اور سلامتی کے ساتھ جڑی ہے‘ لیکن اس بے لوث حمایت کا پاکستان ہمیشہ خمیازہ بھی بھگتتا چلا آرہا ہے‘ چاہے ایف اے ٹی ایف کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں‘ لیکن اب ان حالات کو دیکھ کر اکثر پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا طالبان حکومت ہمارے گلے کا وہ کانٹا تو نہیں بن چکی‘ جسے نہ نگلا جا سکتا ہے نہ اگلا جا سکتا ہے۔ آخر کیوں طالبان کا سب سے بڑا حامی روس یکلخت پیچھے ہٹ گیا ہے؟ کابل میں روسی سفیر اور خصوصی روسی نمائندہ فمیر کابلوف دوسرے سفیروں کے سامنے پہلے ہی آئندہ مہینوں میں سماجی اور سیاسی انتشار کے خدشے کا اظہار کر چکے ہیں۔ چین نے بھی نسبتاً خاموشی اختیار کر رکھی ہے کیونکہ اسے بھی طالبان کے جارحانہ تیور اچھے نہیں لگ رہے۔ طالبان نے خواتین کی نوکریوں اور تعلیم کے حوالے سے جس انداز میں تمام ممالک اور او آئی سی کی اپیلوں کو تاحال نظر انداز کر رکھا ہے اس کے بعد وہ کیونکر بین الاقوامی امداد و تعاون کی توقع کر سکتے ہیں؟ خواتین کیلئے ڈرائیونگ لائسنس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مذہبی امور کی وزارت نے ہر جگہ پوسٹر لگا دئیے ہیں کہ خواتین کیلئے مکمل پردہ لازمی ہے۔ تفریح‘ ڈراموں/ میوزیکل پروگراموں میں شرکت پر پابندی ہے۔ خواتین کیلئے سرکاری یونیورسٹیاں کھلی ہیں مگر وہاں درس و تدریس نہیں ہو رہی، نجی یونیورسٹیوں میں پردے کے ذریعے درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے مگر سرکاری یونیورسٹیوں میں نہ صرف درس و تدریس کا سلسلہ رکا ہوا ہے بلکہ اساتذہ مسلسل تنخواہوں کی راہ بھی دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات بھلے جیسے بھی ہوں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ افغانستان میں حالات کا براہ راست اثر پاکستان پر ہوگا اور اسی وجہ سے پاکستان کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں حالات خراب ہوں‘ اور اسی بات کو ثابت کرنے کیلئے پاکستان میں گزشتہ ماہ او آئی سی کا اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس کا صرف ایک ہی ایجنڈا تھا: افغانستان۔ اب طالبان حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ہر مسئلے کو روایتی طریقے سے حل کرنا چھوڑ دیں اور اپنے رویے میں لچک لے کر آئے ہیں کیونکہ یہ نہ صرف خطے کے بلکہ افغانستان کے عوام کے بھی مفاد میں ہے‘ اور طالبان کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اب افغان عوام کی فلاح و بہبود براہ راست انہی کی شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved