تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     15-01-2022

اسلام آباد کے حلقوں میں بے چینی

وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ رسیدیں دے چکے‘ الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے تحریک انصاف کو فارن فنڈنگ کیس سے کلیئر کر دیا ہے‘ اب باقی سیاسی جماعتیں بھی اپنی فنڈنگ کی رسیدیں الیکشن کمیشن کو فراہم کریں‘ لیکن صورتحال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ ایسی کلیئرنس الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے پی ٹی آئی کو ابھی تک نہیں دی اور معاملات بظاہر سنگینی کی طرف جا رہے ہیں۔ میری شروع ہی سے یہ سوچ تھی کہ وزیراعظم کو حقائق سے آگاہ رکھا جانا چاہیے مگر جن وزرا نے فارن فنڈنگ کیس پر وزیر اعظم کو بریف کیا‘ غالباً وہ ان کے ساتھ مخلص نہیں اور اپنے باس کو اندھیرے میں رکھنے کی مہارت رکھتے ہیں لیکن ان کے پرانے باسز میں یہ خوبی تھی کہ وہ غیر جانب دار حلقوں سے کاؤنٹر چیک کرواتے تھے جبکہ وزیر اعظم عمران خان اپنی مصروفیات کی وجہ سے معتبر ذرائع سے رائے نہیں لیتے جس کی وجہ سے معاملات ان کے ہاتھوں سے اکثر نکل جاتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان 18 جنوری سے فارن فنڈنگ کیس کی باقاعدہ سماعت شروع کر رہا ہے اور دونوں اطراف کے وکلا کمیشن میں اپنے کیس کا دفاع کریں گے۔ الیکشن کمیشن کی سکر وٹنی کمیٹی نے فارن فنڈنگ کیس کی آٹھ اہم جلدوں اور بینکوں کے گوشواروں کو انتہائی رازداری کا درجہ دیتے ہوئے پوشیدہ رکھا ہے۔ انہی دستاویزات کی بنیاد پر فارن فنڈنگ کیس نے آگے چلنا ہے۔ سکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ کے صفحہ 83 میں اپنی رائے دی ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے آنے والی دستاویزات کو منظرعام پر نہ لایا جائے‘ تاہم عدالتی نظیر یہ ہے کہ considered opinion ذاتی حیثیت کی حامل ہوتی ہے اور یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ سکروٹنی کمیٹی کی اس رائے کو کیا اہمیت دیتی ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز چیف جسٹس‘ جسٹس رانا بھگوان داس نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ جب کوئی معاملہ سنگین نوعیت کا ہو تو پھر considered opinion لکھ دیا کریں‘ یہ عدالت کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ اسے کس رخ پہ لے جائے۔ اب الیکشن کمیشن کے معزز ارکان اور چیف الیکشن کمشنر کے صوابدیدی اختیارات ہیں کہ سکروٹنی کمیٹی کی رائے پر وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی پس منظر میں دیکھنا ہو گا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویزات کی آٹھ جلدوں کو‘ جن میں تمام خفیہ حقائق موجود ہیں‘ مدعی کے حوالے کیا جاتا ہے یا اسے سٹیٹ سیکرٹ کے تحت خفیہ رکھا جائے گا۔ میرے خیال میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے معزز اراکین کو ان دستاویزات تک مکمل رسائی حاصل ہے اور وہ ان دستاویزات کے متن کو پڑھ کر اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ سکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ریکارڈ کے خفیہ مندرجات کو اوپن نہیں کیا جائے گا حالانکہ مئی 2018ء میں سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا اور اُس وقت کے معزز ارکانِ الیکشن کمیشن نے سکروٹنی کمیٹی کو ہدایت دی تھی کہ فارن فنڈنگ کیس کا ریکارڈ چونکہ پبلک دستاویزات کے زمرے میں آتا ہے لہٰذا اس کو فریقین کے ساتھ شیئر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ سکروٹنی کمیٹی سابق چیف الیکشن کمشنر سردار رضا اور کمیشن کے ارکان کے فیصلے کو نظر انداز نہیں کر سکتی اور موجودہ الیکشن کمیشن کے ارکان نے بھی ان کے فیصلے کو مدنظر رکھنا ہے کیونکہ 14 اپریل 2021ء کو کمیشن فیصلہ دے چکا ہے کہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کو فریقین سے شیئر کیا جائے گا۔ اسی طرح پاناما کیس میں ایف آئی اے کے اُس وقت کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا‘ جو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ تھے‘ نے دس جلدیں جو انتہائی خفیہ نوعیت کی تھیں چیف جسٹس آف پاکستان کو ان کے چیمبرز میں پیش کی تھیں اور معزز ارکانِ بنچ نے ان کا اِن کیمرا مطالعہ کیا تھا‘ اب بھی یہی صورتِ حال پیش آ رہی ہے‘ لیکن میری رائے میں سکروٹنی کمیٹی شاید رولز آف بزنس سے مکمل طور پر آگاہ نہیں۔
اب جبکہ تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہو چکا ہے وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے ان کو کلین چٹ دے دی ہے‘ سمجھ سے بالاتر ہے۔ شاید ان کو حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں۔ بادی النظر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 204‘ 209‘ 210‘ 211‘ 212‘ 213‘ 214 اور 215 کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے۔ سکروٹنی کمیٹی نے جو حقائق خفیہ رازداری کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کی ہے‘ الیکشن کمیشن کے معزز ارکان نے ان کا بھی قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے فارن فنڈنگ اور اندرونی و بیرونی فنڈز کے حسابات‘ گوشوارے اور ذرائع کی مکمل تفصیل الیکشن کمیشن کو پیش کرنا قانونی ذمہ داری ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اس قانون کی پاس داری میں کوتاہی برتی یا نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کی تو یہ جماعتیں انتخابی نشانات سے محروم بھی ہو سکتی ہیں۔ اپوزیشن تحریک انصاف کے معاملے سے اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے لیکن اس جماعت کے فیصلے کے بعد اپوزیشن جماعتیں بھی اسی قانون کی زد میں آ سکتی ہیں۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں ان اداروں کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق فیصلے دے رہی ہیں جنہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے قانون کو مدِنظر نہیں رکھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی چاہیے کہ ان شخصیات اور جماعتوں کے خلاف فیصلے کرے جو بے قاعدگی کی مرتکب ہوتی ہیں۔
پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021ء کے تحت بلدیاتی الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق الیکشن کمیشن نے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ انتخابات کرانے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے بشرطیکہ وفاقی یا صوبائی حکومت ان مشینوں کو خود تیار کرائے۔ صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے دوران اڑھائی لاکھ مشینیں درکار ہوں گی۔ صوبائی حکومت نے تحصیل کونسلر‘ میونسپل کارپوریشن‘ میونسپل کمیٹیوں اور ٹاؤن کمیٹیوں کا نظام ختم کر دیا ہے جبکہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور ضلع کونسل کا نظام نافذ کر دیا گیا ہے۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن لاہور کے سربراہ لارڈ میئر جبکہ راولپنڈی کے سربراہ سٹی میئر کہلائیں گے۔ بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہوں گے‘ کوئی امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کروانے کے لیے بہت بڑا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ان کی جماعت پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں ناکام ہو تی ہے تو اس کے اثرات 2023ء کے عام انتخابات پر بھی پڑیں گے۔
ملک میں آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط اور وزیر خزانہ کے متنازع بیانات سے ملکی معیشت سخت دباؤ میں ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں حساس نوعیت کے اہم مقدمات زیر سماعت ہیں‘ اپوزیشن نے مہنگائی کے مسئلے پر مضبوط موقف اختیار کر کے عوامی سطح پر حکومت کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔ اسلام آباد کے حلقوں میں اضطراب پایا جاتا ہے کہ اگلے پندرہ دنوں میں بہت اہم خبر بریک ہونے والی ہے‘ ان حلقوں نے تین نومبر 2007ء کے حالات کے مطابق جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ عوام کے شدید اضطراب کے ازالے کے لیے ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل تین‘ پانچ‘ 234 اور دیگر متعلقہ شقوں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved