تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     15-01-2022

بھارتی پنجاب میں اضطراب

انڈین پنجاب میں 2020ء کے وسط سے بے چینی کا دور شروع ہوا جو پچھلے سال اکتوبر تک چلا۔ اس کی وجہ وہ تین کسانوں سے متعلق قوانین تھے جو انڈین پارلیمنٹ نے پاس کئے تھے۔ ان قوانین کی رو سے انڈیا کا کارپوریٹ سیکٹر کسانوں سے براہ راست اجناس خرید سکتا تھا۔ گویا بیچ میں سے مڈل مین یعنی آڑھتی کا رول ختم کرنے کی کوشش تھی۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے فوراً ان قوانین کے خلاف اپنے تحفظات کا اعلان کیا ان کا مطالبہ تھا کہ اگر یہ قوانین لاگو کرنے ہیں تو اجناس کی کم از کم قیمت کا بھی نفاذ کیا جائے ورنہ بڑے بڑے سرمایہ دار کسانوں کا استحصال کریں گے۔
اس نئی قانون سازی کے خلاف کسان ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر آ گئے۔ دلّی چلو کی مہم شروع ہوئی۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کے ساتھ ان کے یوپی، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے ہم پیشہ لوگ بھی شامل ہو گئے یعنی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قافلے بڑھتے گئے۔ یہ تحریک تقریباً ایک سال چلی۔ کسان مہینوں کا راشن ساتھ لے کر گئے تھے۔ راتوں کو اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں میں سوتے تھے۔ سخت گرمی اور شدید سردی ان کے آہنی عزم کو کمزور نہ کر سکی۔ 26 جنوری 2021ء کا انڈین ری پبلک ڈے اس لحاظ سے یادگار رہے کہ دہلی کا چاروں طرف سے محاصرہ تھا اور لال قلعہ پر ترنگا کے بجائے نشان صاحب کا کیسری جھنڈا لہرا دیا گیا۔
لیکن اس تحریک کا جائزہ لینے سے پہلے اس واقعہ کا ذکر ضروری ہے جو چند روز پہلے انڈین پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیش آیا ہے۔ پانچ جنوری کو وزیراعظم نریندر مودی بائی روڈ بٹھنڈا کے راستے سے فیروز پور ضلع میں داخل ہوئے۔ یہاں مودی نے کئی ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنا تھا۔ ان میں میرے آبائی ضلع ہوشیار پور کا میڈیکل کالج بھی شامل تھا اور امرتسر دہلی ایکسپریس وے کا پراجیکٹ بھی۔ اگرچہ مودی سرکارکسان تحریک کے نتیجے میں نئے قوانین واپس لے چکی تھی لیکن پنجاب کے فارمرز ان سینکڑوں ساتھیوں کو نہیں بھولے تھے جو گزشتہ سال سڑکوں پر سخت موسم کی وجہ سے لقمہ اجل بنے تھے۔ ان کے جذبات ابھی ٹھنڈے نہیں ہوئے تھے۔ مودی سرکار کے خلاف سخت نفرت ابھی موجود تھی۔ حسینی والا کے قصبے میں وزیراعظم مودی نے جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ ستر ہزار کرسیاں جلسہ گاہ میں لگائی گئی تھیں لیکن پنجاب کے عوام اس جلسہ کا بائیکاٹ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
ضلع فیروز پور میں داخل ہونے کے بعد نریندر مودی کا قافلہ ایک فلائی اوور سے گزر رہا تھا کہ لوکل لوگ بڑی تعداد میں آ گے کھڑے ہو گئے اور مودی مخالف نعرے لگانے شروع کردیئے۔ فلائی اوور پر ٹریفک مکمل رک گئی۔ بیس منٹ تک مودی جی اس ہجوم میں پھنسے رہے۔ پولیس کی کوشش کے باوجود ہجوم اپنی جگہ کھڑا رہا۔ اسے سکیورٹی کی بہت بڑی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایس پی فیروز پور انکوائری کا سامنا کر رہے ہیں۔ سیاسی قتل انڈیا کی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ گاندھی جی سے لے کر اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی مختلف سیاسی وجوہات کی بنا پر قتل ہوئے۔ پنجاب کے دو وزرائے اعلیٰ پرتاپ سنگھ کیروں اور بے انت سنگھ بھی سیاسی وجوہات کے کارن جان سے گئے۔ لہٰذا بی جے پی والے کہہ رہے ہیں کہ اصل منصوبہ نریندر مودی کو ختم کرنا تھا۔ البتہ دہلی سرکار نے یہ بات نہیں کی۔
نوجوت سنگھ سدھو انڈین پنجاب کی سیاست کا بڑا نام ہے۔ پہلے کرکٹ کے میدان میں شہرت کمائی‘ بڑے سٹائلش بیٹسمین تھے۔ وزیراعظم عمران خان کے دوست ہیں۔ اس وقت پنجاب کی کانگریس حکومت کا حصہ ہیں۔ سدھو کا کہنا ہے کہ جلسہ گاہ میں صرف پانچ سو لوگ آئے تھے۔ باقی تمام کرسیاں خالی تھیں۔ نریندر مودی کو پتہ چلا کہ جلسہ مکمل فلاپ ہوگا تو واپس جانے کا فیصلہ ہوا۔ کانگریس حکومت نے نریندر مودی کو مکمل سکیورٹی فراہمی کی۔ بپھرے ہوئے ہجوم سے نکالا اور بحفاظت واپس روانہ کیا۔
اور اب ذکر ہو جائے ایک اور سدھو کا جو ان مظاہروں میں نمایاں رہے۔ یہ ہیں دیپ سدھو جو بالی وڈ میں اداکاری بھی کر چکے ہیں۔ دیپ سدھو پنجاب کی سیاست کا بڑا نام نہیں ہے وہ کسی بڑی سیاسی پارٹی کے ممبر بھی نہیں ہیں۔ 26جنوری کو دلی کے لال قلعہ پر نشان صاحب لہرانے والا یہ شخص یکا یک سیاسی طور پر مشہور ہو گیا۔دیپ سدھو کے بارے میں دو تین باتیں ہو رہی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ علیحدگی پسند خالصتانی ہے۔ نظریۂ سازش پر یقین رکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ دیپ سنگھ آر ایس ایس کا ایجنٹ ہے اور اسے کسان تحریک کو ختم کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ کسان تحریک علیحدگی کی موومنٹ نہیں تھی۔ اس تحریک میں کسان نمائندہ یونین نمایاں رہیں۔کسانوں کی نمائندہ تنظیمیں بائیں بازو کی سیاست کرتی رہی ہیں اور لیفٹ کی سیاست کرنے والی تنظیموں نے انڈین پنجاب میں کبھی خالصتان کی حمایت نہیں کی۔
اس کسان تحریک کا ایک فوری نتیجہ تو یہ نکلا کہ شرومنی اکالی دل اور بی جے پی کا اتحاد ختم ہو گیا۔کانگریس کے بعد اکالی دل انڈین پنجاب کی بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اکالی دل کی اصل قوت سکھ جاٹ ہیں لیکن سکھ جاٹ خاصی تعداد میں کانگریس میں بھی ہیں۔ عمومی طور پر کانگریس سے ہی تعلق رکھنے والے سکھ جاٹ انڈین پنجاب کے وزرائے اعلیٰ رہے ہیں۔ کانگریس انڈین ایکتا کی حامی تھی اور آج بھی ہے۔ پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی کا تعلق بھی کانگریس سے ہے۔ البتہ ان کا تعلق شیڈول کاسٹ سے بھی ہے۔ پچھلے تین چار ماہ میں برطانیہ میں سکھ فار جسٹس (Sikhs for Justice) نامی تنظیم نے خالصتان کے لئے متعدد ریفرنڈم کرائے ہیں۔ سکھ بڑی تعداد میں ریفرنڈم میں شرکت کیلئے نکلے اور یہ بات انڈین گورنمنٹ کیلئے خاصی پریشان کن تھی۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ برطانوی حکومت نے سکھ تنظیم کو ریفرنڈم کرانے کی اجازت دی لیکن اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ برطانوی حکومت خالصتان کی حامی ہے۔
پچھلے سال جنوری میں انڈین سپریم کورٹ نے زرعی قوانین کے بارے میں سٹے آرڈر دے دیا تھا لیکن کسان مظاہرے پھر بھی جاری رہے اور مودی سرکار کیلئے درد سر بن گئے۔ بالآخر اکتوبر میں انڈین گورنمنٹ تینوں قوانین واپس لینے پر مجبور ہوئی۔ یہ انڈین کسانوں کی عمومی اور پنجاب کے کسانوں کی خصوصی فتح تھی۔ یہ بھی عجیب بات ہے جنوری 2021ء میں واشنگٹن ڈی سی ٹرمپ کے حامیوں کے نرغے میں تھا تو اسی مہینے میں لال قلعہ پر نشان صاحب لہرایا گیا۔ مودی سرکار کے پچھلے دو سال یقیناً پریشانی کے گزرے ہیں۔ امریکہ کی طرح بھارت کو بھی اپنی قوت پر بڑا مان تھا مگر کورونا اور مندرجہ بالا واقعات نے دونوں کی طاقت کا بھرم کھول دیا۔ انڈین پنجاب بھارت کیلئے سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ اس صوبے کی سرحد یں پاکستان سے ملتی ہیں۔امرتسر، فیروز پور اور جالندھر بڑی چھائونیاں ہیں۔ جام نگر، امرتسر، پٹھان کوٹ ہلواڑہ میں ایئر بیس ہیں۔ کشمیر کا راستہ پنجاب سے جاتا ہے۔ پنجاب وافر مقدار میں غلہ پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا اسے انڈیا کی بریڈ باسکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ انڈین افواج میں پندرہ فیصد سکھ ہیں۔ انڈین پنجاب میں وافر پانی ہے اور یہاں سے راجستھان کیلئے بھی دو نہریں نکالی گئی ہیں۔
پچھلے ڈیڑھ سال کے واقعات نے دلی اور چندی گڑھ کے درمیان ذہنی فاصلے بڑھا دیئے ہیں لیکن انڈین پنجاب کی اکثریت اب بھی خالصتان کی حامی نہیں پھر بھی وہ دلی سرکار کی اُلٹی سیدھی ڈکٹیشن کبھی نہیں لے گی۔ میرا خیال ہے کہ معاملہ اٹانومی تک جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved