تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     15-01-2022

اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے

استاد ابراہیم ذوقؔ کا شمار اردو کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔ اسی نسبت سے دونوں میں بے تکلفی بھی تھی۔ بہادر شاہ ظفر ان سے دکھ سکھ کی باتیں بھی کر لیا کرتے تھے۔ ایک دن ابراہیم ذوق نے بہادر شاہ ظفر سے پوچھا: حضور! آپ تیمور، بابر، اکبر اور اورنگ زیب جیسے بڑے حکمرانوں کا خون ہیں۔ آپ میں ذہانت، دیانت اور تجربے کی کوئی کمی نہیں۔ کیا وجہ ہے اورنگزیب عالمگیر کے بعد کوئی بھی مغل بادشاہ حکمرانی کے وہ جوہر نہیں دکھا سکا جو مغلوں کا شیوہ رہا ہے؟ بہادر شاہ ظفر نے سر جھکا دیا اور قدرے توقف کے بعد تاریخی فقرے ادا کیے۔ آخری مغل فرمانروا نے کہا: ہماری قسمت میں بادشاہ ہونا لکھا تھا، سو ہم بادشاہ بن گئے مگر اچھی حکمرانی اعمال سے ہوتی ہے‘ ہمارے اعمال نے ایک غیور اور بہادر قوم کو غلام بنا دیا۔ اگر ہمارے اندر حکمرانوں والی صلاحیتیں ہوتیں تو آج ہندوستان آزاد ہوتا‘ غلام نہیں۔ ہمیں انگریزوں نے نہیں بلکہ ہمارے غلط فیصلوں نے پاتال میں دھکیلا ہے‘‘۔ بہادر شاہ ظفر کے یہ الفاظ تاریخ کا وہ سچ ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
اورنگزیب عالمگیر کے بعد صلاحیتوں سے عاری لوگ حکمران بنے اور دیکھتے ہی دیکھتے اتنی عظیم سلطنت غلامی کی دلد ل میں دھنس گئی۔ میں جب بھی بہادر شاہ ظفر اور ابراہیم ذوق کے درمیان ہونے والا یہ مکالمہ پڑھتا ہوں تو مجھے اپنے حکمرانوں کے کار ہائے نمایاں اور منیر نیازی کا یہ شعر ضرور یاد آتے ہیں ؎
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
کبھی کبھی جی کرتا ہے کہ گزرے چند سالوں کا نوحہ لکھا جائے۔ الفاظ کی آہ و زاری کی جائے اور عوام کے آنسوؤں کو زبان دی جائے۔ معلوم نہیں کیوں‘ مگر اب مستقبل سے خوف آنے لگا ہے۔ ہر آنے والا دن عوام کے لیے بد سے بدتر ہو رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پوری قوم پر آسیب کا سایہ ہے اور ہر گلی‘ ہر کوچہ اس کی زد میں ہے۔ ہفتے اور مہینے تو کجا‘ ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا کہ جب کوئی دل دہلا دینے والی خبر سامنے نہیں آتی۔ کبھی کوئی قدرتی آفت روح کو چھلنی کر دیتی ہے تو کبھی حکمرانوں کی لاپروائی سے جانوں کا ضیاع دیکھنے میں آتا ہے۔ کبھی کوئی حادثہ دل دہلا دیتا ہے تو کبھی حکومتی فیصلے رلا دیتے ہیں۔ جو خواب ہمارے بڑوں نے دیکھے تھے‘ ستر سالوں میں بھی وہ پورے نہ ہوئے‘ نہ ہی ہماری نسل کے خواب ساڑھے تین سالوں میں شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔ سانحۂ مری کی بے حسی کی داستان ہو یا سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کی خون آلود کہانی‘ موٹر وے پر ایک ماں کا ریپ ہو یا مہنگائی کی تباہی‘ ہر واردات‘ ہر سانحے‘ ہر واقعے کے پیچھے حکومت کی نااہلی اور انتظامیہ کی غفلت نظر آتی ہے۔ کیوں؟ کیا کبھی حکمرانوں نے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا انہیں کبھی خیال آیا ہے کہ ان کے غلط فیصلے اور بدانتظامی نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں؟
انسان کو مسندِ اقتدار پر قسمت بٹھا سکتی ہے مگر اہلیت ثابت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ شیخ سعدی کا قول ہے ''حکمرانو ں کی اہلیت عوام کی آنکھوں کی چمک اور زبان کی چاشنی میں پنہاں ہوتی ہے‘‘۔ حکمران اہل ہوں تو عوام ہشاش بشاش دکھائی دیتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو عوام کی چیخیں ہمالیہ سے بھی بلند ہو جاتی ہیں۔ گزرے ساڑھے تین سالوں میں ہر وہ انہونی ہوئی جو پہلے کبھی نہ ہوئی تھی مگر مجال ہے کہ حکمرانوں کو اس کا ادراک بھی ہو۔ مری میں برفباری پہلی بار تو نہیں ہوئی تھی جو بائیس زندگیاں کھا گئی۔ ملکۂ کوہسار دیکھنے اتنی بڑی تعداد میں سیاح پہلی بار تو نہیں آئے تھے کہ انتظامیہ کو سمجھ ہی نہ آئی ہو اور ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور ایک سانحہ رونما ہو گیا۔ معصوم بچے‘ خواتین اور مرد اپنی یادوں کو حسین بنانے گئے تھے مگر اپنے لواحقین کو زندگی بھر کا روگ دے گئے۔ اس انسانی المیے کی ذمہ داری قدرتی آفت سے زیادہ انتظامیہ کی غفلت پر عائد ہوتی ہے مگر حکومت اپنے حصے کا بوجھ اٹھائے تب نا! حکومت تو ہر دم حالتِ انکار میں رہتی ہے۔ بڑے سے بڑا حادثہ ہو جائے یا برے سے برا فیصلہ‘ حکومت 'میں نہ مانوں‘ کی گردان لے کر بیٹھ جاتی ہے اور پھر کوئی دلیل مانتی ہے نہ کوئی گواہی۔
رسولِ کریمﷺ کا ارشادِ مبارک ہے ''(قبولیتِ) اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘ (صحیح بخاری)۔ نیت ٹھیک ہو تو ہر بگڑا کام بن جاتا ہے اور اگر نیت میں فتور ہو تو سیدھی راہ پر چل کر بھی منزل نہیں ملتی۔ بار بار ٹھوکر لگتی ہے اور بار بار انسان بھٹک جاتا ہے۔ یہی نہیں‘ قول و فعل کا تضاد بھی انسان کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے اور بدقسمتی سے یہ تضاد حکمرانوں میں آ جائے تو پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے؛ پھر مہنگائی بھی ہوتی ہے اور مافیاز بھی سرگرم رہتے ہیں‘ بے روزگاری بھی بڑھتی ہے اور کرپشن بھی‘ قدرتی آفات بھی آتی ہیں اور انسانی غلطیوں کے باعث حادثات بھی رونما ہوتے ہیں‘ وبائیں بھی پھوٹتی ہیں اور بیماریاں بھی عام ہو جاتی ہیں‘ عوام کے جان و مال محفوظ ہوتے ہیں نہ عزت و آبرو۔ پھر لوگ دہائیاں بھی دیتے ہیں اور پچھتاوے کے آتش دان میں جلتے بھی ہیں۔ غور کیا جائے تو عہدِ رواں میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ عوام کو ہر طرح کا شعور اور آگاہی ملی۔ انہیں پتا چلا کہ بری معیشت کس بلا کا نام ہے۔ حکمران تجربہ کار نہ ہوں تو روزگار کے لالے کیسے پڑتے ہیں۔ مہنگائی اور بدانتظامی کے باعث اٹھنے والا شور کہاں تک سنائی دیتا ہے۔ چینی، آٹا، گندم، کھاد، یوریا، پٹرول اور بجلی کے لیے ترسنا کسے کہتے ہیں۔ عوام کو اس بات کی بھی جانکاری ملی کہ مافیاز حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ وہ جو چاہتے ہیں‘ کر گزرتے ہیں‘ کوئی چاہ کر بھی انہیں نہیں روک سکتا۔ ہجوم زندہ انسان کو جلانے سے بھی خوف نہیں کھاتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اصل طاقت پروپیگنڈا میں ہوتی ہے۔ آپ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کر سکتے ہیں۔ عوام کو یہ بھی احساس ہوا کہ آئی ایم ایف کتنا طاقتور ادارہ ہے‘ وہ ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ نجانے حکومت نے کتنی بار اعلان کیا کہ منی بجٹ نہیں لائیں گے مگر منی بجٹ آیا اور قومی اسمبلی سے پاس بھی ہوا۔ اپوزیشن راستہ روک سکی نہ اتحادی اپنی بات پر قائم رہ سکے۔ ایم کیو ایم نے حکومت کا ساتھ دیا اور قاف لیگ نے بھی۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب پانچ کروڑ ڈالر کی قسط وصول کرنے کے لیے حکومت نے عام آدمی کی خواہشوں کو کچل ڈالا۔ یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ مہنگائی کی چکی میں پستے عوام یہ جھٹکا برداشت کر بھی سکیں گے یا نہیں۔ حکومت اتنا ہی بتا دے کہ 360 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی نوبت کیوں آئی؟ اگر یہ چھوٹ غیر ضروری تھی تو پہلے دے کیوں گئی تھی؟ حکمرانوں نے منی بجٹ پاس تو کروا لیا مگر اب اس کے نتائج انہیں ہی بھگتنا پڑیں گے۔ بلدیاتی الیکشن کی آمد آمد ہے۔ ایسا نہ ہو حکومت اپنی رہی سہی مقبولیت بھی کھو بیٹھے۔
عوام کو دھیرے دھیرے یقین ہو رہا ہے کہ دورِ حاضر کے حکمرانوں کی موجودگی ان کے لیے نیک شگون نہیں۔ جب سے یہ آئے ہیں عوام پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں۔ خدارا! اپنا چلن بدلیں ورنہ عوام حکمران بدلتے دیر نہیں لگاتے۔ یقین نہ آئے تو پیپلز پارٹی، قاف لیگ اور مسلم لیگ نون کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved