تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     15-01-2022

انسان کا اگلا سہارا

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں نت نئے امور اورمسائل سامنے آ رہے ہیں۔ بات زیادہ پیچیدہ نہیں بنائیں گے مگر آج ایک اہم بات کریں گے۔ ایک ایسا موضوع جو شاید ابھی تک آپ کی نظروں اور سماعتوں سے نہیں ٹکرایا۔ قصہ کسی ملک کا ہے نہ ہی سیاست کا‘ معیشت یا کسی قدرتی وباکا بھی کوئی تذکرہ نہیں مگر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ذکر اس کرۂ ارض پر پائی جانے والی سب سے بڑی زندہ مخلوق کا ہے۔ اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ جانوروں کی بات ہو رہی ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ زمین پر سب سے زیادہ تعداد میں جانور پائے جاتے ہیں، حتیٰ کہ ان کی تعداد درختوں سے بھی زیادہ ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ ان دونوں کا آپس میں موازنہ کرنا ہی غلط ہے کیونکہ دنیا میں پائے جانے والے درختوں کی کل تعداد‘ ایک تخمینے کے مطابق‘ تین ٹریلین ہے جبکہ جانوروں کا ذکر کریں تو آپ کو ایک ایسا ہندسہ استعمال کرنا پڑے گا جو آپ نے شاید کبھی سنا بھی نہ ہو۔ اور یہ نمبر ہے 20 Quintillion۔ اس ہندسے کو سمجھنے کے لیے آپ 20 لکھ کر اس کے آگے اٹھارہ صفر لگا لیں۔
جانوروں کا ذکر کریں تو اپنی وفا اور انسانوں کا ساتھ دینے کے حوالے سے پہلے نمبر پر براجمان حیثیت سے کتے کا ذکر لازم ہے، جانوروں کے ذکر میں اس کا گوشہ اس لیے بھی ہوتا ہے کہ کتا نہ صرف وہ پہلا جانور ہے جو انسان کے ساتھ مانوس ہوا تھا بلکہ اس وقت دنیا میں پالتو جانور کی حیثیت سے اس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ اس کا زیادہ رجحان مغربی ممالک میں ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں پر خاندانی نظام کا تقریباً خاتمہ ہے مگر ہمارے ہاں بھی اس کا رجحان فروغ پذیر ہے۔ اب انسانوں کی عدم دستیابی کی صورت میں (تنہائی کا شکار ہونا ایک تکلیف دہ امر ہے)کتا ہی وہ جاندار ہے جو انسانوں کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے ۔
میں نے ایک خاتون رپورٹر‘ جو رپورٹنگ بِیٹ میں چڑیا گھر بھی کور کرتی ہیں‘سے درخواست کی کہ مجھے ایک کتا ہی لے دیں۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ اس کی وفا اور ساتھ انمول ہے۔ اس پر اُن محترمہ نے کہا کہ آپ یہ انسانوں بلکہ انسانی رشتوں میں کیوں نہیں ڈھونڈتے؟ میں نے کہا کہ اول تو اب انسانوں کا ساتھ ہی میسر نہیں‘ وفا تو بعد کی بات ہے۔ ان کے اگلے متوقع سوال کا جواب پھر میں نے خود ہی دینا شروع کر دیا۔ اگرچہ ہم ہمہ وقت لوگوں میں گھرے ہوئے ہیں‘ باقی چھوڑیں‘ سوشل میڈیا پر آپ کے ہزاروں دوست ہوں گے مگر یہ سب ''دوست‘‘ نہیں بلکہ آج کل کا ایک دھندا ہے۔ لوگ آپ سے بات کرنے‘ آپ کو ملنے‘ خوشی یا غم میں شرکت کرنے سے پہلے آپ کا منصب‘ مقام‘ مالی حیثیت‘ علاقہ‘ عقیدہ اور پتا نہیں کیا کچھ مد نظر رکھتے ہیں جبکہ جانور (یہاں اس سے مراد کتا ہے) اپنی وفا اور رویہ ایک ہی رکھتا ہے، مطلب وہ اپنے مالک کا رنگ، نسل، مذہب اور سب سے بڑھ کر اس کی مالی حیثیت کو مد نظر نہیں رکھتا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ایک طرف وہ اپنے مالک سے بے لوث محبت کرتا ہے تو دوسری جانب اس کی وفا اور اس کا خلوص مشکل وقت میں بھی انسان کو میسر رہتے ہیں۔ وہ اپنے مالک کے ساتھ امن ہی نہیں‘ جنگ میں بھی کھڑا رہتا ہے‘ پھر چاہے اس میں اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ اگلی بات میں نے انہیں یہ کہی کہ اب لوگوں کا حسنِ سلوک لفظوں یا لبوں کی حد تک ہی ہوتا ہے۔ مطلب کہنے کو بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں مگر عمل کے وقت حقیقت کھلتی ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ تو ہو ہی سکتے ہیں جو واقعی خالص ہوں گے۔ میں نے اس بات سے قدرے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بات ٹھیک ہے مگر پھر بھی کتے کی وفا کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ اب بات بلکہ بحث قدرے گرم ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آپ انسانوں کی تذلیل کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: نہیں! میں تو صرف تصدیق کر رہا ہوں۔ پوچھا: کس بات کی تصدیق؟ جواب دیا: انسان کی خصلت کی تصدیق! سماجی رویوں کی سائنس یہ ثابت کر چکی ہے کہ انسان کا اعتبار مستقل طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسانی رویے سخت گیر ہوتے جا رہے ہیں۔ ذہنی اضطراب اور سب سے بڑھ کر جانے‘ انجانے خوف کی وجہ (بالخصوص وائرس کی وبا کے بعد)سے لوگوں کی سماجی و نفسیاتی سکت ختم ہو چکی ہے۔
اب اُس بات کا ذکر‘ جس سے آج کی تحریر کا آغاز ہوا تھا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب بھی کوئی فلم شروع ہوتی ہے تو اس کے آغاز میں ایک تحریر سکرین پر ظاہر ہوتی ہے‘ جس میں بتایا گیا ہوتا ہے کہ اس فلم کو بناتے ہوئے کسی جانور کو نقصان نہیں پہنچایا گیا؛ تاہم آج کل ایک عجیب ظلم شروع ہو کر عروج پا رہا ہے، وہ یہ کہ کتوں کی وفا کا انتہائی غلط طریقے سے امتحان لیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک جیسی موبائل ایپس پراپنی وڈیوز کے لائکس اور ویوز بڑھانے کیلئے جان بوجھ کر کتوں کو مشکل میں ڈالا جاتا ہے تاکہ ان کی وفا کو آزمایا جا سکے۔ اکثر آپ نے بھی دیکھا ہو گا کہ کچھ وڈیوز میں جان بوجھ کر‘ مصنوعی طریقے سے کتے کے مالک کو کسی مشکل میں مبتلا دکھایا جاتا ہے مثلاً کوئی شخص اس کی کوئی چیز چھین کر فرار ہوتا ہے یا اس کو اغوا کرنے کا ڈرامہ کیا جاتا ہے‘ یا اسے زخمی کرنے کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے‘ ایسے مواقع پر اس کا پالتو کتا حرکت میں آتا ہے اور مخالف فریق پر حملہ کر دیتا ہے۔ ان مناظر کو فلما کر عوام کے سامنے یہ کہہ کر ''بیچا‘‘ جاتا ہے کہ یہ واقعہ بالکل اصل اور حقیقت پر مبنی ہے۔ متعدد وڈیوز میں مالک جان بوجھ کر کسی تالاب میں چھلانگ لگا کر یہ ڈرامہ کرتا ہے کہ وہ ڈوب رہا ہے اور اس کا کتا پانی میں چھلانگ لگا کر اپنے مالک کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح کی وڈیوز کو سوشل میڈیا پر بھرپور پذیرائی ملتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پرانی فلموں میں کئی جانوروں بالخصوص کتے کا کردار فلموں میں مرکزی کردار ادا کرتا نظر آتا تھا۔ کئی فلموں میں کتا اپنے مالک یعنی ہیرو کا ہر طرح سے ساتھ نبھاتا دکھائی دیتا تھا‘ وہ اپنے مالک کے لیے مخبری، اس کی رکھوالی، پیغام رسانی حتیٰ کہ دشمن پر حملہ کرنے کے کام بھی کرتا تھا۔ ظاہری بات ہے کہ اس کام کے لیے نہایت تربیت یافتہ کتے کا انتخاب کیا جاتا تھا مگر اب سوشل میڈیا نے تو حد ہی پار کر دی ہے۔ اب یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا فورمز کے مالکان تک اپنی بات کیسے پہنچائی جائے کہ اس طرح کی وڈیوز پر پابندی عائد کی جائے۔ میری قارئین سے استدعا ہے کہ اس طرح کی وڈیوز پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے سے قبل بغور دیکھ لیا کریں کہ یہ وڈیو جان بوجھ کرپیدا کی گئی صورتِ حال پر مبنی تو نہیں۔ اگر وڈیو کسی نقلی اور فیک صورتِ حال پر مبنی ہو تو اس صورت میں اس کو رپورٹ کریں۔ ممکن ہے کہ اس طرح بتدریج ایک بڑی مہم چل نکلے اور پوری دنیا تک اس کا اثر جائے۔ پاکستان سے مہم شروع ہونے پر ملک کا ایک سافٹ امیج بھی ابھرے گا۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے بھی ایک پالتو کتا رکھا ہوا ہے جبکہ سابق صدر پرویز مشرف نے مارشل لا کے بعد اپنا ''سافٹ امیج‘‘ ظاہر کرنے کے لیے اپنی پہلی تصویر کتوں کے ساتھ ہی جاری کی تھی۔
اب ذکر وفا اور ہمدردی کا‘ تو عرض یہ ہے کہ وفا میں کتے کا کسی دوسرے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔جیسا کہ شروع میں کہا گیا تھا کہ آج ایک انتہائی اہم بات کا ذکر ہو گا تو وہ بات یہ ہے کہ سائنسی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ کتا ایسا جانور ہے جس کے رویے میں‘ جس کی وفا اور ہمدردی میں کمی بیشی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ مطلب وہ کسی بھی حالت میں دغا نہیں کرتا اور مشکلات سے گھبرا کر اپنے مالک کا در نہیں چھوڑتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں پالتو جانور کے طور پر کتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں پالتو کتوں کی تعداد پچاس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور غالب امکان ہے کہ تیزی سے تنہائی کا شکار ہوتی ہوئی دنیا میں یہی انسان کا اگلا سہارا بنے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved