تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-01-2022

ٹائم بینک

سُنا تو آپ نے بھی ہوگا کہ آج بچائیے‘ کل کام آئے گا۔ اشتہار کا یہ خوبصورت جملہ پیسوں کے حوالے سے تھا، لوگوں کو بچت کی تحریک دی گئی تھی۔ انسان جو کچھ بچاتا ہے‘ وہ بعد میں اُس کے کام آتا ہے۔ بات پیسے کی تھی مگر اب وقت تک آگئی ہے۔ سوئٹزر لینڈ میں ایک منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس کا مقصد لوگوں کو بڑھاپے میں معیاری مدد فراہم کرنا ہے۔ اس منصوبے کو ''ٹائم بینک‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت لوگ دوسروں کو بالعموم اور معمر افراد کو بالخصوص اپنا وقت دے رہے ہیں۔ کرسٹینا سکول سے ریٹائرمنٹ کے بعد اکیلی زندگی بسر کر رہی تھی۔ زندگی مزے سے گزر رہی تھی۔ اس کی پنشن اچھی خاصی ہے۔ 67 سال کی عمر میں اسے بیزاری کا احساس ہونے لگا‘ تب اس نے سوچا کہ کسی کی خدمت کی جائے اور ٹائم بینک میں اپنا اکاؤنٹ مضبوط بنایا جائے۔ یوں اُس نے ایک 87 سالہ مرد کی نگہداشت شروع کر دی۔ کرسٹینا جو وقت اِس بزرگ کو رضا کارانہ طور پر دیتی ہے وہ اُس کے ٹائم بینک میں جمع ہوتا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ خود کار نظام کے تحت ہوتا ہے۔ جب کرسٹینا بہت بوڑھی ہو جائے گی اور اُسے کسی خدمت گار کی ضرورت پڑے گی تب وہ ٹائم بینک میں جمع کیا ہوا اپنا وقت بروئے کار لاسکے گی۔
سوئٹزر لینڈ میں نوجوان ٹائم بینک میں اپنا بیلنس بڑھانے پر متوجہ دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ بزرگوں کی خدمت کے ذریعے اپنا وقت ٹائم بینک میں جمع کر رہے ہیں تاکہ بعد میں جب وہ ہلنے جلنے یا زیادہ کام کرنے کے قابل نہ رہیں تب کوئی اُن کی خدمت کرسکے۔ سوئس وزارتِ صحت نے یہ منصوبہ بالخصوص معمر ترین افراد کی مجبوریوں اور پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے شروع کیا ہے۔ ٹائم بینک کا بنیادی تصور محض یہ نہیں ہے کہ کوئی نوجوان یا ڈھلتی ہوئی عمر کا کوئی فرد کسی معمر فرد کے پاس بیٹھا رہے مگر یہ معاملہ بیشتر معاملات میں اُن کی معاونت کا ہے۔ معمر افراد کو اپنے تمام ہی کاموں میں کسی نہ کسی سے مدد کی ضرورت رہتی ہے۔ جو نوجوان ٹائم بینک میں اپنا بیلنس بڑھانے کے لیے معمر افراد کے ساتھ وقت گزارتے ہیں‘ وہ ان کے گھر کی صفائی کرتے ہیں‘ پودوں کی نگہداشت کرتے ہیں‘ کھانا پکاتے ہیں، صاحبِ خانہ کو کھانا کھلاتے ہیں‘ اُنہیں باتھ روم لے جاتے ہیں، اُن کے لیے بستر تیار کرتے ہیں۔ ان تمام کاموں کے لیے معمر ترین افراد کو کسی نہ کسی کی طرف سے مدد درکار ہوتی ہے۔ ٹائم بینک کے ذریعے انہیں اچھے، مخلص مددگار مل جاتے ہیں۔ معمر افراد کو نئی نسل جو وقت دیتی ہے وہ ٹائم یونٹ کی شکل میں اُن کے ٹائم بینک اکاؤنٹ میں جڑتا جاتا ہے۔ مغربی معاشروں میں تمام معاملات خالص عقلی انداز سے نمٹانے کا رجحان عام ہے۔ ٹائم بینک بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ یہ پورا معاملہ لین دین کے اصول کی بنیاد پر ہے یعنی آج اپنا وقت دوسروں کو دیجیے، کل یہ آپ کے کام آئے گا۔
پاکستان جیسے معاشروں میں معمر افراد کے شب و روز زیادہ قابلِ رشک انداز سے نہیں گزرتے۔ خاندانی نظام برقرار ہے اور گھر کے بزرگ گھر ہی میں رہتے ہیں مگر اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اُن کی وہ حیثیت نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔ اکثر معاملات میں اُنہیں بوجھ ہی سمجھنے کا رجحان پایا گیا ہے۔ اولاد جب بڑی ہوتی ہے اور شادی کے بعد اپنا گھر بار شروع کرتی ہے تب والدین کو دوسری یا تیسری ترجیح کا درجہ ملتا ہے۔ اگر والدین میں سے کوئی سرکاری ملازم ہو تو پنشن کی صورت میں ہر ماہ معقول رقم ملتی ہے اور اچھی گزر بسر ہوتی ہے۔ اگر والدین میں سے کوئی بھی سرکاری ملازم نہ ہو تو بڑھاپے میں اُنہیں اپنے ذاتی اخراجات کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر مرد پہلے انتقال کر جائے تو بیوہ کو زیادہ پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔ شہروں میں چونکہ زندگی بسر کرنے کی لاگت بہت زیادہ ہے اس لیے لوگ عام طور پر اپنے اخراجات کی ترجیحات میں والدین کو بہت پیچھے رکھتے ہیں۔ کسی بھی علاقے میں چند ہی گھرانے ایسے ملیں گے جہاں والدین کو ہر معاملے میں اولیت دی جاتی ہو، اُنہیں ضرورت کے مطابق رقم باقاعدگی سے دی جاتی ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ مائیں پان چھالیہ کے لیے ماہانہ چار‘ پانچ سو روپے کو بھی ترستی رہتی ہیں۔ ہمارے ایسے سبھی معاشروں کا یہی حال ہے۔ سوشل سکیورٹی کا معقول نظام نہ ہونے کے باعث بے روزگار، کم آمدن والے اور معمر افراد کے لیے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ حکومتیں اس بنیادی ضرورت کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتیں۔ انسان کو بڑھاپے میں زیادہ سے زیادہ آرام اور سکون سے جینے کی گنجائش ملنی چاہیے۔ جن غریبوں نے زندگی بھر محنت کی ہو‘ وہ آخری عمر میں کچھ راحت چاہتے ہیں۔ یہ اُن کا بنیادی حق ہے جو کسی بھی حال میں چھینا نہیں جانا چاہیے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ہر عمر کے افراد کی ترجیحات الگ الگ ہوتی ہیں۔ نئی نسل زندگی سے بھرپور لطف کشید کرنا چاہتی ہے۔ وہاں سبھی اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انفرادی یا شخصی آزادی بلند ترین سطح پر دکھائی دے رہی ہے۔ نئی نسل اپنے معاملات میں کسی کی مداخلت زیادہ پسند نہیں کرتی۔ جب ترجیحات کا یہ حال ہو تو بڑی عمر کے یا انتہائی معمر افراد کی طرف کون توجہ دے؟ خاندانی نظام پہلے ہی دم توڑ چکا ہے۔ معمر افراد کو گھر کی حدود میں رکھنے کے بجائے اولڈ ہومز میں رکھنے کا رواج عام ہے۔ اس چلن نے زندگی میں اچھا خاصا خلا پیدا کیا ہے۔ اب اس خلا کو دور کرنے کی سنجیدہ کوششیں شروع کی جارہی ہیں۔ مغربی معاشروں میں خاندان کے بزرگوں کو گھر کے اندر رکھنے کو تو خیر اب بھی ترجیح نہیں دی جاتی مگر اتنا ضرور ہوا ہے کہ نئی نسل کو معمر افراد پر متوجہ ہونے کی تحریک دی جارہی ہے۔ ٹائم بینک جیسے لین دین کے معاملے کی صورت ہی میں سہی‘ بزرگوں کی خیر خبر لینے کا سلسلہ شروع تو ہوا ہے۔ بزرگوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تنہائی کا ہوتا ہے۔ جب اُنہیں کوئی نہ کوئی اپنے سرہانے درکار ہوتا ہے تب وہ اکیلے پڑے رہتے ہیں۔ تنہائی اُن کے لیے بڑھاپے سے زیادہ زہر ناک ہوتی ہے۔ ایسے میں کوئی کچھ دیر ساتھ رہے، خوب باتیں کرے اور دل بہلانے کی بھرپور کوشش کرے تو اور کیا چاہیے۔
پاکستان میں ایسے حالات اور ایسا نظام نہیں کہ ٹائم بینک جیسا کوئی منصوبہ شروع کیا جائے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں اب بھی بزرگوں کا احساس کرنے، اُن کی مدد کرنے اور اُن کے ساتھ کچھ دیر بیٹھ کر گپ شپ لگانے والے موجود ہیں۔ نئی نسل کو اس حوالے سے تھوڑی بہت تربیت ضرور دی جانی چاہیے تاکہ وہ یومیہ بنیاد پر کچھ وقت معمر ترین افراد کے ساتھ گزارنے کی عادت پروان چڑھائے۔ ہمارے ہاں اولڈ ہومز کی روایت بھی اب تک زیادہ پروان نہیں چڑھی۔ ہاں! مالی مشکلات سے دوچار خاندانوں کے بزرگوں کو ''اون‘‘کرنے کی روایت ضرور شروع کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے والدین کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور بیوی بچوں کا بھی بمشکل خیال رکھ پارہا ہو تو تھوڑی بہت مالی آسودگی رکھنے والے افراد آگے بڑھ کر اُن والدین کو اپناسکتے ہیں۔ یہ سب کچھ خوش اسلوبی سے ہوسکتا ہے۔ جس طور کہیں کہیں کسی یتیم کو رکھا جاتا ہے بالکل اُسی طور کسی بڑے گھر میں بے سہارا بزرگوں کو بھی رکھا جاسکتا ہے۔ یہ ممکن نہ ہو تو باقاعدگی سے کچھ اعانت کی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی معاشی الجھنیں بڑھتی جارہی ہیں۔ مالی مشکلات انسان کو بہت سے معاملات پر بیک وقت متوجہ ہونے کی گنجائش سے محروم کردیتی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں ایسے گھرانے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہیں جن میں بزرگ پریشانی سے دوچار ہیں۔ جنہیں اللہ نے دیا ہے اُنہی کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ افلاس کی چَکّی میں پسنے والے گھرانوں میں معمر افراد کی مشکلات بڑھتی ہی رہتی ہیں‘ کم نہیں ہو پاتیں۔ اِن سفید پوش افراد کو مدد بھی اِس طور درکار ہوتی ہے کہ بھرم رہ جائے۔ معاشرے کی تربیت لازم ہے۔ ہمارے ہاں ٹائم بینک تو نہیں مگر ہاں ''ہیئر آفٹر بینک‘‘ (آخرت) ضرور ہے۔ کام کا اکاؤنٹ تو اِسی بینک کا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved