تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     16-01-2022

خطرے کے دور میں چناؤ

بھارت کی 5 ریاستوں میں انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔ یہ انتخابی عمل ایک ماہ پہ محیط ہو گا یعنی 10 فروری سے 10 مارچ تک۔ یہ چناؤ اتر پردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور میں ہوں گے۔ ان پانچوں ریاستوں کے انتخابات کی اہمیت قومی انتخاب کی طرح مانی جا رہی ہے کیونکہ ان انتخابات میں جو پارٹی جیتے گی وہ 2024ء کے لوک سبھا انتخابات میں بھی اپنا رنگ جما سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ صوبائی انتخابات قومی انتخابات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان پانچوں ریاستوں میں یوں تو کل ملا کر 690 سیٹیں ہیں جو ودھان سبھاؤں کی کل سیٹوں کا صرف 17 فیصد ہیں لیکن اگر ان سیٹوں پر اپوزیشن پارٹیوں کو اکثریت مل جاتی ہے تو وہ اگلے لوک سبھا انتخابات بھاجپا کے لئے بڑی چنائوتی بن جائیں گے۔ الیکشن کمیشن نے ان انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے بڑی احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے ابھی ایک ہفتے کے لیے ریلیوں، مظاہروں، جتھوں اور جلسوں وغیرہ پر پابندی لگا دی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ پابندی آگے بھی بڑھے گی کیونکہ جس رفتار سے کورونا کی مہا ماری پھیل رہی ہے، انتخابات ملتوی بھی ہو سکتے ہیں۔ کمیشن نے اپنے تمام عملے کو ویکسین کا ٹیکا لگوا لیا ہے لیکن کروڑوں ووٹرز سے مہا ماری‘ پابندیوں پر عمل کرنے کی امید کرنا آسمان میں پھول کھلانے جیسی حسرت ہے۔ ہم نے پہلے بھی بنگال اور بہار کے انتخابات میں بھیڑ کا برتاؤ دیکھا اور پچھلے ایک‘ ڈیڑھ ماہ سے اُن ریاستوں کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں جہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلے ہفتے کی پابندی کھلتے ہی عالمی وبا کا دروازہ بھی کھل جائے۔ گزشتہ سال یعنی 2021ء کے شروع پر بھارت کو کورونا مہا ماری کی دوسری اور تباہ کن لہر کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب ایک مرتبہ پھر اومیکرون کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر وغیرہ امید کر رہے ہیں کہ نئی شکل کا وائرس کم مہلک ہو گا؛ تاہم پھر بھی وہ اسے سنجیدہ لینے کا کہہ رہے ہیں۔ پچھلی لہر نے پورے ہندوستان میں تباہی پھیلا دی تھی اور نظامِ صحت مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ اپریل اور مئی میں کیسز اتنے بڑھ گئے تھے کہ ہر روز کے کیسز کی تعداد چار لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ ادویات، ہسپتالوں کے بستروں اور آکسیجن سلنڈروں کی قلت کے کافی درد ناک مناظر دیکھے گئے تھے۔ اب اومیکرون کے کیسز میں یکدم بڑا پھیلائو دیکھنے کو ملا ہے۔ روزانہ کے کیسز کی تعداد تین گنا بڑھ کر اب ایک لاکھ کا ہندسہ چھو رہی ہے۔ کل نوے ہزار نو سو سے زیادہ نئے کیس سامنے آئے۔ ہو سکتا ہے کہ ان پابندیوں کو آگے بڑھایا جائے اور سیاسی پارٹیوں سے کہا جائے کہ وہ لاکھوں کی بھیڑ جمع کرنے کے بجائے انتخابی مہم ڈیجیٹل طریقے سے چلائیں تاکہ لوگ گھر بیٹھے ہی نیتاؤں کے بھاشن سن سکیں۔ یہ سوچ تو بہت اچھی ہے لیکن ملک کے کروڑوں غریب، گرامین اور اَن پڑھ لوگ کیا اس ڈیجیٹل طریقے کا استعمال کر سکیں گے؟ یہ ٹھیک ہے کہ اس طریقے کا استعمال امیدواروں کا خرچ گھٹا دے گا‘ سب سے زیادہ خرچ تو جلسے، جلوسوں اور لوگوں کو انتخابی لڈو بانٹنے میں ہی ہوتا ہے۔ اس سے فضول خرچی تو ضرور گھٹے گی لیکن جمہوریت کا معیار بھی گھٹے گا۔ ہو سکتا ہے کہ ان انتخابات کے بعد ڈیجیٹل پرچار، ڈیجیٹل ووٹنگ اور ڈیجیٹل نتائج کی کچھ بہتر روایت کا جنم ہو جائے۔ الیکشن کمیشن اگر اس بات پر بھی دھیان دیتا تو بہتر ہوتا کہ پارٹیاں اپنے ووٹروں کو انتخابی رشوت نہیں دیتیں۔ پچھلے ایک ماہ میں تقریباً سبھی پارٹیوں نے بجلی، پانی، اناج اور نقدی وغیرہ کی شکلوں میں ووٹروں کیلئے زبردست تھوک رعایتوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ رشوت نہیں تو کیا ہے؟ جو لوگ ٹیکس دہندگان ہیں ان کی جیبیں کاٹنے میں سیاسی رہنمائوں کوذرا بھی شرم نہیں آتی۔ عام لوگوں کو اس وقت جو چوسنیاں بانٹی گئی ہیں‘ یا جو وعدے کیے گئے ہیں‘ کمیشن کو اس پر بھی کچھ کارروائی کرنی چاہئے تھی۔
ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ
دنیا کی پانچ ایٹمی طاقتوں نے اب ایک سچ کو عوامی سطح پر اور باضابطہ طور پر قبول کر لیا ہے۔ یہ پانچ ممالک ہیں؛ امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس۔ ان پانچوں ممالک کے پاس ہزاروں ایٹمی بم اور میزائل ہیں۔ انہوں نے پہلی بار یہ مشترکہ اعلان کیا ہے کہ اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو اس میں جیت کسی کی نہیں ہو گی‘ سب ہاریں گے‘ لہٰذا ایٹمی جنگ ہونی ہی نہیں چاہئے۔ یہ پانچوں ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں اور دنیا کی سب سے خوشحال ترین اقوام میں ہیں۔ انہوں نے یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے کنٹرول کے لئے وہ دو طرفہ اور اجتماعی کوششیں جاری رکھیں گے۔ اس اعلان کا دنیا میں ہر جگہ خیر مقدم ہو گا لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہیروشیما اور ناگاساکی کے قتل عام کے 77 سال بعد‘ اب ان ممالک کو یہ سچ سمجھ میں آیا ہے؟ کیا ابھی تک یہ اقتدار کے نشے میں ڈوبے ہوئے تھے؟ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اب تک یہ اقتدار میں بدمست ہونے سے بھی زیادہ خوفزدہ تھے۔ تمام سپر پاورز ایک دوسرے سے اتنی ڈری ہوئی تھیں کہ سب نے ایٹمی میزائل اور ہتھیار بنا لیے۔ اپنے حلیف‘ اتحادی دوست ممالک کے پاس ایٹمی بم ہونے کے باوجود انہوں نے کروڑوں‘ اربوں روپے خرچ کر کے اپنے بم بنا لیے‘ لیکن وہ اب محسوس کر رہے ہیں کہ یہ مکمل تباہی کا ذریعہ ہیں۔ سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار روس کے پاس ہیں‘ 6250 سے بھی زائد‘ جو پوری دنیا کے کل ایٹمی ہتھیاروں کا 47 فیصد سے بھی زائد ہیں۔ دوسرے نمبر پر امریکہ ہے جس کے پاس 5550 سے زائد ایٹمی وار ہیڈ ہیں؛ 42 فیصد سے زائد۔ اس کے بعد چین‘ فرانس اور برطانیہ کا نمبر آتا ہے، پھر بھارت‘ اسرائیل اور شمالی کوریا ہیں۔ ایک ایک قوم کے پاس اتنے ایٹمی بم ہیں کہ جن سے ساری دنیا کا کئی بار خاتمہ ہو سکتا ہے، لیکن ان ریاستوں نے ابھی تک صرف اس خطرے کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے‘ اس کا علاج اب بھی انہوں نے شروع نہیں کیا۔ پچھلی چھ‘ سات دہائیوں میں ایٹمی عدم پھیلاؤ اور ایٹمی کنٹرول کے بارے میں کئی معاہدے اور سمجھوتے ہوتے رہے ہیں، لیکن آج تک بھی ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا جس کے تحت تمام ایٹمی ممالک اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرنے یا تیزی سے گھٹانے کی کوشش کرتے‘ یعنی اب بھی وہ ڈرے ہوئے ہیں۔ اب بھی انہیں لگتا ہے کہ اگر انہیں خود مختار اور آزاد رہنا ہے تو ان کے پاس ایٹمی بم ہونے ہی چاہئیں۔ ان قوموں کے رہنمائوں سے کوئی پوچھے کہ کیا جناح صاحب اور گاندھی جی نے کوئی ایٹمی بم چلایا تھا؟ بغیر ہتھیار چلائے ہندوستان آزاد ہوا تھا یا نہیں؟ کوئی بھی ایٹمی ملک کسی بھی دوسرے ملک پر اس لیے قبضہ نہیں کر سکتا کہ اس ملک کے پاس ایٹمی بم نہیں ہے۔ دنیا کے مشکل سے درجن بھر ممالک ایٹمی طاقت رکھتے ہیں لیکن ان میں کیا اتنا دم ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک پر بزور طاقت قبضہ کر لیں؟ میری رائے میں ایٹمی ہتھیار ہاتھی کے دکھاوے کے دانتوں کی طرح ہیں۔ انہیں جتنا جلدی تلف کیا جائے‘ اتنا ہی اچھا ہے۔ یہ اندھا اعتماد بھی بے بنیاد ثابت ہو گیا ہے کہ ایٹمی بم کے ڈر کے مارے اب دنیا میں جنگیں نہیں ہوں گی۔ اس ایٹمی دور میں تقریباً ہر بر اعظم پر درجنوں ممالک آپس میں برسر پیکار ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved