مسلسل کچھ نہ کچھ کہا جا رہا ہے اور کہا جانا بھی چاہئے۔ ایک بڑا حادثہ جو ہے۔ 23 قیمتی جانیں جو ضائع ہو گئیں۔ ہنستے بستے لوگ جو سرد ہوگئے۔ جو لوگ خوشیوں اور قہقہوں کی تلاش میں نکلے تھے، آنسوؤں اور ہچکیوں کے ساتھ لوٹے۔ ایسا دل دہلا دینے والا حادثہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا نہ سوچا گیا تھا، سو جن پر گزری سو گزری، گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی سرد ہوکر رہ گئے۔
تصویریں، ویڈیوز، واقعات، کہانیاں سب دہلا دینے والی ہیں۔ ایسی لرزہ خیز رات ان پہاڑوں نے کبھی دیکھی نہ ہوگی۔ کیا وجوہات تھیں؟ کیا اسباب تھے؟ قدرتی سانحے کا دخل کتنا تھا اور اس میں نااہلی کس درجہ شامل ہوئی؟ ذمے دار دراصل کون ہے؟ اس پر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں اور ہر ایک اپنی جگہ سچا ہے۔ کوئی اسے موجودہ حکومت کی نااہلی تصور کرتا ہے۔ کوئی مری والوں کی بے حسی اور لالچ پر نوحہ کناں ہے۔ کوئی سیاحوں کی غلطی تصور کرتا ہے‘ اور کوئی مقامی انتظامیہ کی کام چوری کا شاکی ہے۔ ان میں بہت سی باتیں درست ہیں۔ ان سیاسی بیانات سے قطع نظر جنہیں اس طرح کا ہر موقع اپنے پوائنٹ بنانے کے لیے اچھا لگتا ہے۔ اس سانحے پر لکھے گئے کالم اور تجزیے، خواہ ان کا مؤقف کچھ بھی، درد دل سے لکھے گئے ہیں۔ بہت سی باتوں میں وزن ہے لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مری کے بارے میں یہ مکمل سچ نہیں ہے۔ یہ جزوی صداقتیں ہیں جو صرف اس سانحے کے ارد گرد گھومتی ہیں۔ ایک بڑی تصویر کے وہ چھوٹے چھوٹے حصے ہیں جنہیں جوڑ کر دیکھنے ہی سے مکمل مری سامنے آئے گا۔ ورنہ ہم ایک انگلی، ایک ٹانگ یا ایک ہاتھ پر ہی بات کرتے رہیں گے۔
مکمل سچ یہ ہے کہ یہ سانحہ ان تمام سانحات کا منطقی نتیجہ ہے جن کی بنیاد عشروں پہلے مری میں رکھ دی گئی تھی۔ اس کا آغاز ان بے ہنگم تعمیرات سے ہوا جو ہر قاعدے‘ ضابطے کو مری کی کھائیوں میں پھینک کر شروع کردی گئیں۔ انگریز دور سے قاعدہ تھا اور دنیا کے ہر پہاڑی اور سیاحتی مقام کے حسن کو محفوظ کرنے کے لیے طے تھا کہ سڑک کے صرف ایک طرف تعمیر ہوسکتی ہے‘ دوسری طرف نہیں تاکہ دوسری طرف دریا، کھائی یا کھلے منظر کی خوبصورتی خراب نہ ہو اور دھوپ، ہوا کا راستہ بھی نہ رکے۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور پھر قاف لیگ کے ادوار حکومت میں ہر جگہ اس قاعدے کو ایک طرف رکھ کر قدرتی خوبصورتی کو روند ڈالا گیا۔ صرف مری ہی میں نہیں، ہر ممکنہ سیاحتی مقام پر‘ جگہ پر۔ مقامی اور غیرمقامی مالداروں نے صرف مالی فائدوں کے لیے دونوں طرف ہوٹل، دکانیں، ریسٹورنٹس بنا کر سڑک کو گلی بنا کر رکھ دیا۔ اب جی پی او سے لنٹوٹ ریسٹورنٹ کی طرف جاتے ہوئے ایک گلی سے گزرنا پڑتا ہے‘ جہاں مال روڈ یا مری کی خوبصورتی نام کو بھی نہیں۔ پھر دکاندار دکانوں کے سامنے جو سامان رکھ دیتے ہیں اور پیدل چلنے والے جتنی جگہ گھیرتے ہیں، ان کے بعد سڑک بچتی ہی کتنی ہے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان مالکان اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی ہوتی جنہوں نے نہ صرف اس سڑک کو تنگ کرکے رکھ دیا بلکہ خود مری کے حسن کو سخت نقصان پہنچایا۔ لیکن آپ دیکھیے کہ اوپر سے نیچے تک ہر اہلکار نہ صرف چپ رہا بلکہ اسے جواز دینے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کا اپنا اپنا حصہ مال میں بھی موجود تھا۔ مری کے ان باشندوں نے جو مری سے محبت کرتے ہیں، نسل در نسل وہیں رہتے آئے ہیں، اور جن کو تجارتی فائدے سے زیادہ اس جگہ کا حسن عزیز ہے، آوازیں بلند کیں، تحریریں لکھیں۔ ہمارے شاعر، ادیب دوست جناب آصف مرزا دستک کے نام سے ایک جریدہ مری سے نکالتے ہیں۔ اس رسالے میں کتنی ہی بار ان چیزوں اور بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔ مری کے مسائل کا بار بار ذکر ہوا‘ لیکن یہ سب ایک صحرا میں اذان کی طرح تھیں جس پر کوئی بندۂ خدا نہیں آتا۔ بے ضابطی کا ایک بار در کھلا تو یہی چلن ہر جگہ عام ہوگیا۔ میں چھ ماہ قبل مدتوں بعد کالام گیا۔ کالام کا وہی منظر میری آنکھوں میں بسا ہوا تھا جو بہت سال پہلے دیکھا ہوا تھا‘ لیکن اب کالام کے نام پر ایک گلی ہے جس میں سڑک کے دونوں طرف تعمیرات موجود ہیں۔ دریا کہیں دکھائی نہیں دیتا جواس جگہ کا اصل حسن تھا۔ بڑے بڑے ہوٹل وہاں اگ چکے ہیں جہاں ہر ممکنہ لوٹ کھسوٹ سیاحوں کا مقدر ہوتی ہے۔ مری کے مقامی باشندے بھی بہت سے سیاحوں کے رویوں سے نالاں رہتے ہیں۔ گویا تکلیف ہوٹل مافیا کے گنے چنے افراد کو چھوڑ کر سیاحوں کے حصے میں بھی آتی ہے اور مری کے مقامی باشندوں کے حصے میں بھی۔
یہ افسوس کی بات ہے‘ مری اور گلیات کو محض تفریحی مقام سمجھ کر انہیں سیاح کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور بس۔ یعنی سیاحوں کے لیے سہولیات لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ یاد رہے کہ بطور سیاح ہمارا واسطہ مری میں صرف مال روڈ اور قریبی جگہوں سے پڑتا ہے۔ شاید ہی کوئی سیاح لوئر مال اور دیگر رہائشی علاقوں کی طرف جاتا ہوگا جو اصل مری ہے‘ بلکہ مجھے یقین ہے کہ اکثر کو ان جگہوں کا علم بھی نہیں ہوگا۔ نتیجہ یہ کہ مال روڈ یا گلیات کی بڑی سڑکوں کے ہوٹلوں، ریسٹورنٹس اور دکانوں میں جو کچھ لوٹ کھسوٹ اور بدنما رویے نظر آتے ہیں ،ہم ان سب کو اصل مری کے باشندوں کے سر تھوپ کر فارغ ہوجاتے ہیں۔حالانکہ بیشتر صورتوں میں نہ صرف یہ کہ مری کے اصل رہائشی لوگوں کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا بلکہ وہ خود اس سے بیزار ہیں۔ میں لاہور اور دیگر شہروں کے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جن کے مری، گلیات، سوات، کاغان وغیرہ میں ہوٹل، پلازے یا دکانیں ہیں۔ وہ یا انہیں سالانہ ٹھیکے پر دیتے ہیں یا خود انہیں چلاتے ہیں۔ انہیں محض اپنے مالی مفاد سے غرض ہے۔ نہ معیار سے اور نہ جائز اورمناسب منافع سے۔ وہ ہرقیمت پرگرمیوں اور برفباری کے سیزن میں زیادہ سے زیادہ منافع وصول کرنا چاہتے ہیں اور بس۔ دیکھا جائے تو مری کے اپنے باشندوں کے ہوٹل مری اور گلیات کے علاقوں میں کم کم ملیں گے۔ زیادہ تر مالکان غیرمقامی نکلتے ہیں۔ مری کے اپنے باشندوں کے اندازے کے مطابق غیر مقامی ہوٹل والے 65 فیصد جبکہ مقامی ہوٹل والے 35 فیصد ہیں۔ اس لیے پہلی اہم ضرورت یہ ہے کہ مری کے اصل اور مقامی باشندوں کے مسائل کو سمجھا جائے۔ انہیں اس ہوٹل اور لوٹ کھسوٹ مافیا کا حصہ سمجھنے کے بجائے ایک اہم بستی کے مکین تصور کیا جائے اور ان میں اچھے برے کا فرق کیا جائے۔
یہ سانحہ خون رلا دینے والا اور خون جما دینے والا ہے لیکن جذباتی باتوں سے ہٹ کر اگر خالص ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا جائے تو مسائل کا حل ممکن ہوسکتا ہے ورنہ صرف ایک دوسرے پر الزام تراشی ہی رہ جائے گی۔ اس سانحے بلکہ خدا نکردہ آئندہ کسی اور سانحے کے چارکونے ہیں۔ اس چوکور میں مری کے اصل باشندے، ہوٹل مافیا اور دکاندار، سیاح اور مقامی انتظامیہ چار فریق ہیں جن میں ہر کوئی ایک دوسرے پر الزام دھر کر خود فارغ ہوجاتا ہے یا اسے قدرتی سانحے کا نام دے کر خود سبکدوش ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اور مکمل سچ یہ ہے کہ ان میں ہر ایک اس سانحے کا ذمے دار ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ مقامی باشندوں کو ہوٹل مافیا سے الگ رکھ کر ان کے مسائل کو بھی سمجھا جائے اور سیاحوں کی تکالیف کو بھی۔ آئیے ان سب کے معاملات کو باری باری سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (جاری)