غربت حکومت کی کرپشن کا نتیجہ ہے: شہباز شریف
قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف، نواز لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''غربت حکومت کی کرپشن کا نتیجہ ہے‘‘ اور ہم سے زیادہ کرپشن کی جانکاری کسے ہوسکتی ہے کیونکہ ہمیں بھی اپنے خلاف مقدمات کی کارروائی کے د وران ہی پتا چلا کہ کرپشن کیا ہوتی ہے‘ جس نے ہمیں حیران کر کے رکھ دیا جبکہ ہم نے اپنے دور میں جو کچھ کیا‘ پوری ایمانداری سے کیا تھا‘ جسے ہرگز کرپشن نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ہم اسے کرپشن سمجھتے ہی نہیں تھے، بلکہ کرپٹ تو وہ لوگ تھے جو ہمارے علم میں لائے بغیر ہمارے اکائونٹس میں کروڑوں روپے جمع کرا جاتے تھے اور اصل میں سرکوبی بھی انہی کی ہونی چاہئے کہ ایسی دیدہ دلیری کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ آپ اگلے روز لاہور میں بلال یٰسین کی عیادت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نئی سلامتی پالیسی پاکستان کو ہر لحاظ سے
آگے لے کر جائے گی: ہمایوں اختر
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی اور سینئر رہنما ہمایوں اخترخان نے کہا ہے کہ ''نئی سلامتی پالیسی پاکستان کو ہر لحاظ سے آگے لے کر جائے گی‘‘ جبکہ میں اپنی بساط کے مطابق یہی کام کر رہا ہوں اور اپنے روزانہ کے بیانات کے ذریعے پاکستان کو آگے لے جانے کی کوشش کر رہا ہوں، اور سب سے آگے جانے والی چیز مہنگائی ہے جبکہ روز افزوں مہنگائی کا غریب آدمی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ عوام کی صحت ہی ایسی ہے کہ اسے صحت کہا ہی نہیں جاسکتا؛ چنانچہ جو اثر بھی پڑا ہے خواص کی صحت پر پڑا ہے کیونکہ ڈیزل اور پٹرول وغیرہ وہی خریدتے ہیں‘ نیز گوشت وغیرہ خریدنے کی عیاشی بھی اب وہی کرتے ہیں جن سے عوام سراسر بے نیاز ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے اپنا معمول کا بیان جاری کر رہے تھے۔
کراچی پر ظلم ایم کیو ایم‘ پی پی پی اور
پی ٹی آئی نے مل کر کیا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''کراچی پر ظلم ایم کیو ایم ، پی پی پی اور پی ٹی آئی نے مل کر کیا‘‘ جس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے کہ جو کام مل کر کیا جائے وہی نتیجہ خیز بھی ہوتا ہے کیونکہ اتفاق میں بڑی برکت ہے جبکہ میں بھی ہمیشہ اتفاق ہی کی تلقین کیا کرتا ہوں جس کا خاطر خواہ اثر بھی ہوتا ہے، اور اہلِ کراچی کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے اور ان کی محنت کی داد دینی چاہئے، نیز امید ہے کہ آئندہ بھی یہ لوگ ہر کام مل کر ہی کریں گے؛ اگرچہ پیپلزپارٹی والے جو کچھ کرتے ہیں اس میں اور کوئی شریک نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اس کے لیے خود ہی کافی ہیں۔ آپ اگلے روز سندھ اسمبلی کے باہر دھرنے کے شرکا اور میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مہنگائی سے جلد ریلیف ملنے والا ہے: پرویز خٹک
وزیردفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ''مہنگائی سے جلد ریلیف ملنے والا ہے‘‘ کیونکہ جب سے میری کابینہ کے اجلاس میں گرمی سردی ہوئی ہے حکومت میری باتوں پر کافی توجہ دینے لگ گئی ہے اور مہنگائی کم کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے اور جملہ وزرا کی طرف سے مہنگائی کے کم ہونے کی اطلاعات دی جانے لگی ہیں کیونکہ جس چیز کے بارے میں بیان نہ دیا جائے‘ لوگوں کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا؛ چنانچہ عوام کے علم میں خاطر خواہ اضافے کا کام حکومتی سطح پر برابر جاری و ساری ہے اور اگر آئندہ بھی کبھی ضرورت پڑی تو حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کا حوصلہ کرنا ہوگا کیونکہ میرا انٹ کافی کھل گیا ہے اور آئندہ بھی کھلا ہی رہے گا۔ آپ اگلے روز نوشہرہ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
23 مارچ کو لانگ مارچ کے بعد
دھرنا ہوگا: عبدالغفور حیدری
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ''23 مارچ کے لانگ مارچ کے بعددھرنا ہوگا‘‘ کیونکہ لانگ مارچ کا کوئی نتیجہ تو نکلنا نہیں‘ اس لیے دھرنا ہی دینا پڑے گا؛ اگرچہ یہ بھی بے سود ہی ثابت ہوگا جیسا کہ اب تک ہمارا ہر اقدام ہوتا چلا آیا ہے لیکن ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہم ہر کام نتیجے کی پروا کیے بغیر ہی کرتے ہیں اوراسی میں برکت پڑ جاتی ہے اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ آج تک ہمارے کسی بھی کام کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اور نہ ہی آئندہ ایسی کوئی امید ہے کیونکہ دوسروں کی دنیا اگر امید پر قائم ہے تو ہماری دنیابھی امیدہی پر قائم ہے ۔ ماشاء اللہ چشم بددور، آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
جیسے نویدؔ چور کوئی تھانے میں رہے
جن پر حرام تھی وہی میخانے میں رہے
سربستۂ قدیم تھے زینہ بزینہ باب
ابجدکی بات بنتے ہی کھل جانے میں رہے
ہوتا رہا قریب کنارہ بھی وصل کا
کھونے کے ساتھ ساتھ ہی ہم پانے میں رہے
چمپا کی چاندنی میں رہا لمس دیر تک
مہندی کی رات ہاتھ وہ مہکانے میں رہے
آزاد ہونے کو گئے جنگل کی قید میں
آباد ہونے کو کسی ویرانے میں رہے
محسوس اس قدر کہ نہ محسوس کچھ کیا
جتنا بھی جان سکتے تھے اَن جانے میں رہے
کس کس جگہ زمین کا جھگڑا نہ آ پڑا
کیا کیا نہ زلزلے یہاں دہلانے میں رہے
کب تک بچھڑ کر تجھ سے میں کس کس نگر رہا
افسانے تہ بہ تہ مرے افسانے میں رہے
آگے تھے اور طرح کے حالات اور ہم
پچھلا کوئی وظیفہ ہی دہرانے میں رہے
تازہ سے تازہ آگ لپکتی رکھی نویدؔ
جتنا الائو خوں میں تھا دہکانے میں رہے
آج کا مطلع
پریوں ایسا روپ ہے جس کا لڑکوں ایسا نائوں
سارے دھندے چھوڑ چھاڑ کے چلیے اس کے گائوں