1939ء میں جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو ہٹلر‘جو یہودی قوم کا سخت مخالف تھا‘ نے یہودیوں کوچن چن کر قتل کرایا۔ 1945ء میں جب جنگ کا اختتام ہوا تو یورپ اور دیگر ممالک میں بکھرے ہوئے صہیونیوں کو اپنے لیے ایک علیحدہ ریاست بنانے کا خیال آیا،اور برطانیہ کی اشیرباد سے دنیا بھر میں پھیلے یہودی بیت المقدس یعنی یروشلم اور اردگرد کے علاقوں میں آباد ہونا شروع ہو گئے۔ یہ بات ذہن نشین رکھی جائے کہ اسرائیل دنیا کی واحد ریاست ہے جس کا قیام ایک منظم سازش کے تحت وجود میں لایا گیا تھا۔ صہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے ہی 16 یہودی بستیوں کو 1948ء میں زیر تسلط آنے والے علاقوں کے ساتھ ملا دیا گیاتھا۔ اب بھی اسرائیلی حکومت فلسطینیوں پر عرصۂ حیات تنگ کرتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے سرگرداں ہے۔ غزہ کی پٹی پر قبضے کے بعد سے علاقے میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر کے متعدد منصوبے تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ میں قائم ایک ہزار تنظیمیں بھی فلسطین میں یہودی آباد کاری کیلئے مالی معاونت کر رہی ہیں۔ امریکہ کی سب سے بڑی ارب پتی تنظیم ''سی اینڈ ایم ‘‘یہودیوں کو فنڈز فراہم کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ یہ یہودیوں کو بھاری قیمتوں کے عوض زمینیں خریدنے کیلئے رقوم فراہم کرتی ہے۔
بہارِ عرب کے تقریباً ایک دہائی بعد بھی تیونس، عراق، الجیریا، لبنان، لیبیا، شام اور یمن خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہیں۔ صہیونی ریاست کو کبھی بھی تسلیم نہ کرنے کے دعوے کرنے والے چند خلیجی ممالک سے اسرائیل کے سفارتی تعلقات استوارہونے کے بعد ایک چیز اب واضح ہو چکی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں تبدیلیاں بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہیں کیونکہ بعض ممالک نے یہاں تک اشارہ دے دیا ہے کہ فلسطین کو الگ ملک بنانے کا مطالبہ اب ان کی ترجیحات میں شامل نہیں‘ اور وہ مستقبل میں بھی ایسا ہونے کا کوئی امکان بھی نہیں دیکھ رہے حالانکہ دو ریاستی حل کا نظریہ اسرائیل کے قیام سے ایک سال قبل‘ 1947ء میں ہی سامنے آ گیاتھا جب اقوام متحدہ نے برطانیہ کے زیر انتظام فلسطینی علاقے میں یہودی ریاست کے قیام کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ فلسطین کے علاقے میں ایک یہودی اور ایک عرب ریاست قائم ہو گی لیکن 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے بہت سے علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کر لیا۔ مغرب کی ہمہ گیر حمایت اور عالمی اداروں کی کی سستی وکاہلی نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کو اپنی توسیع پسندانہ پالیسیاں جاری رکھنے کے سلسلے میں مزید جارحانہ بنا رکھاہے جو اس وقت بھی ایٹمی ٹیکنالوجی اور خطرناک جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں سبقت حاصل کرنے کیلئے تگ ودو میں مصروف ہے۔ جدیدایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے آسٹریلیا، بھارت اور اسرائیل سمیت دیگر اتحادی ممالک کی سرپرستی کرنا اور مسلم ممالک کو دھمکیاں دینا امریکہ کی دہری پالیسیوں کا ہی غماز نہیں بلکہ یہ امر مسلم دنیا کے بارے میں اس کے متعصبانہ عزائم کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔
اس میں بھی کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ جدید اسلحے کی وسیع پیمانے پر تجارت تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ تاریخ میں اگر انسانوں پر مظالم کا شمار کیا جائے تو امریکہ اس میں سرفہرست نظر آتا ہے جس کا اعتراف وکی لیکس کی منظرعام پر لائی گئی رپورٹس میں بھی کیا گیا ہے کہ واشنگٹن عالمی امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ تایخ گواہ ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مغربی ممالک نے امریکی ہدایات پر صہیونی حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے مشرقِ وسطیٰ میں متعدد شرانگیز منصوبے بنائے۔ ان ناپاک منصوبوں میں سے ایک منصوبہ انتشار پھیلا کر پورے خطے کو کمزور اور غیر محفوظ بنانا، سرحدی تنازعات پیدا کرنا، مسلمانوں میں باہمی فساد کروانا،، قومی و لسانی تعصبات کو فروغ دینا، حکومتوں اور اقوام کے درمیان منافرت پیدا کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ کردوں، فارسیوں اور عربوں میں اپنی اجارہ داری کاقیام کاعزم اجاگر کرنا تھا۔ انہی شیطانی اہداف کی تکمیل کیلئے داعش کی بنیا رکھی گئی تاکہ اسلامی ممالک کو چھوٹی چھوٹی کمزور ریاستوں میں بانٹتے ہوئے جغرافیائی سرحدوں کا نقشہ بدل کر رکھ دیا جائے اور پھر ان ملکوں کی خود مختاری سلب کر لی جائے۔
مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق عراق اور شام کو مختلف چھوٹے کمزور علاقوں میں تقسیم کرنے سے اسرائیل محفوظ ہو جائے گا۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی مغربی استکبار کی پالیسیوں اور ناپاک منصوبوں کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار تھے جنہوں نے میدانِ عمل میں ایک ایسا نظریہ دیا جس سے خطے کے تمام ممالک اختلافات کے بجائے مشترکہ نصب العین کیلئے یکجا ہو گئے۔ ان کا مشن اسی وقت پورا ہو گا جب خطے سے مکمل طور پر امریکی افواج کا انخلا ہو جائے گا۔ شہید جنرل سلیمانی کا اصل مقصد امریکہ کو خطے سے نکال باہر کرنا تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی امریکی و دیگر استعماری قوتوں کے سامنے ناقابلِ تسخیر قوت بن کر ابھرے۔ نیو یارک ٹائمز نے بغداد میں ڈرون حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کو امریکہ کیلئے تاریخی شکست قرار دیا تھا۔ تہران میں فلسطین پر منعقدہ ایک کانفرنس میں میری ملاقات جنرل قاسم سلیمانی سے ہوئی تھی جہاں میں اپنے والد محترم جنرل (ر) حمید گل مرحوم کے ہمراہ شریک تھا۔ میں نے جنرل صاحب کو دور اندیش، سمجھ دار،مدبر اور حب الوطنی کی خوبیوں سے سرشار پایا۔ اس ایک ملاقات نے اَنمٹ نقوش چھوڑے۔ بے شک شہید جنرل قاسم پورے عالم اسلام کے ہیروہیں۔انہوں نے ایک مکتب کی حیثیت سے مسلم اقوام کو بیدار کرتے ہوئے استعماری طاقتوں کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دیا۔ ایرانی قوم ایک بہادر و عظیم قوم ہے اور اس قوم کے بہادر‘ جری اور نڈر سپوت نے ثابت کیا کہ ایران دنیا کے تمام خطوں میں امن و آشتی کا داعی ہے ۔ ایران کے پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں۔ ایران نے ہی سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے نہ صرف اپنے فضائی اڈے دیے جہاں ہمارے جنگی جہاز ایندھن بھرتے تھے بلکہ ہنگامی طور پر تیل کی سہولت بھی فراہم کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ہمارا اپنے ہمسایہ برادر ملک سے تجارتی حجم وسیع تھا۔ اس دور میں ایران‘ پاکستان اور سعودی عرب ایک پیج پر تھے۔ امام خمینی کے انقلاب نے جب امریکہ کے ورلڈ آرڈر کو چیلنج کیا تو راستے جدا جدا ہو گئے۔
در حقیقت 2 جنوری 2020ء کو جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد سے خطے میں ایک نئی تاریخ کا آغاز ہو چکا ہے۔ مسلم امہ کے جذبات میں ایک نیا ولولہ اور نئے جوش کی لہر بھری ہوئی ہے لہٰذا امریکہ سمیت اب کسی بھی استعماری قوت کا خطے میں رہنا محال ہو چکا ہے۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب صہیونی ریاست اور امریکہ کا ہر محاذ پر ایسا مقابلہ کر رہے ہیں کہ وہ عنقریب اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ جنرل سلیمانی نے خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے توسیع پسندنہ اقدامات کو روکنے میں کلیدی کردار دا کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر دنیاکے سامنے اجاگر کر کے امت مسلمہ کو بیدار کیا۔ عراق اور شام میں داعش کی کمر توڑ کر رکھ دی وگرنہ آج یہ جنگ ایران سمیت پورے خطے میں پھیل چکی ہوتی۔ عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے ملک سے تکفیری دہشت گردوں کو شکست دینے پر انٹر نیشنل اکنامک فورم سے خطاب کے دوران خصوصی طور پر جنرل قاسم سلیمانی کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔ جنرل قاسم کی کاوشوں کی بدولت آج مزاحمتی تحریکوں کی عسکری صلاحیتوں میں ناقابل تسخیر اضافہ ہو چکا ہے جس کے سبب استعماری اور طاغوتی قوتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ فلسطینی و لبنانی کسی بھی محاذ آرائی کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت سے سرشار ہیں۔ استعماری طاقتوں نے 90ء کی دہائی میں مزاحمتی تحریکوں خاص طور پر فلسطینیوں کو الگ الگ دھڑوں میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے مخالف بنانے کی بھر پور کوشش کی تھی، آج فلسطینی جنگجوئوں کی ایک نئی نسل میدان میں اتر چکی ہے جو جنرل قاسم کی طرز پر جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ اسرائیل ماضی کی طرح مظلوم ہونے کا بہانہ بنا کر خطے میں تنہا ہونے کا دعویٰ نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی حکومت کو دنیا بھر میں سفارتی طور پر بھی ناکامی کا سامنا ہے۔