عجیب سا سردی کا موسم ہے۔ حلقۂ احباب میں سب بیمار ہیں۔ جس سے فون پر بات ہو‘ جس سے چیٹ ہو‘ وہ بیمار ہے۔ زمانہ وہ ہے کہ وہ بیمار ہیں‘ ہم بیمار ہیں‘ سب بیمار ہیں۔ خیر اپنی طبیعت کی ناسازی کی وجہ میں خود ہوں‘ اس کے پیچھے میری اپنی غلطی ہے۔ میں نے رات کے وقت ٹھنڈ میں واک کی اور واپسی پر ٹھنڈا لیموں پانی پی لیا۔ سو یہ تو ہونا تھا۔ نزلہ‘ زکام ہوگیا اورآواز بیٹھ گئی۔ ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ یہ کورونا تو نہیں؟ انہوں نے کہا: یہ ٹھنڈی سکنجبین پینے کی وجہ سے ہوا ہے‘ بار بار کووِڈ کا ٹیسٹ مت کرائو۔ ویسے بھی جب ناک سے ٹیسٹ سیمپل لیا جائے تو دن میں تارے نظر آ جاتے ہیں۔ دوائی سے مجھے افاقہ ہوا ہے‘ گرم کپڑے زیادہ کر دیے ہیں اور سوپ نے گلے کو پُرسکون کر دیا ہے۔ جب دوستوں کے وٹس ایپ گروپ میں بات چیت شروع کی تو وہاں بھی سب بیمار ہی نظرآئے۔ کسی کو نزلہ‘ کسی کو فلو‘ کسی کو کھانسی تو کسی کو بخار‘ غرض سب ہی تکلیف میں ہیں۔ کبھی سوچتی ہوں کہ ہم سب کو کیا ہوگیا ہے، قوتِ مدافعت کم ہوگئی ہے یا یہ وائرسز بہت طاقتور ہیں۔ باہر کے ممالک میں سردیوں میں فلو سے بچائو کی ویکسین لگائی جاتی ہے؛ تاہم پاکستان میں اس کا رواج بہت کم ہے‘ شاید اسی لیے سردی شروع ہوتے ہی عوام نزلہ‘ زکام اور کھانسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس وقت زیادہ تر لوگ گلے میں درد‘ کھانسی‘ نزلہ اور زکام کی شکایت کررہے ہیں۔ کچھ ناک بند ہونے یا گلے اور سر میں درد اور کچھائو کا شکار ہیں۔ موسمی بیماریوں کے حوالے سے حکومت کو بار بارآگاہی دینا چاہیے اور اس حوالے سے بھی ویکسین لگانی چاہیے تاکہ ہم سب سردی کے اثرات سے محفوظ رہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کورونا اور اومیکرون بھی اپنے پر پھیلا رہا ہے۔ لوگ بیمار ہورہے ہیں اور ہسپتال ایک بار پھر مریضوں سے بھررہے ہیں۔ پاکستان میں صحت کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے، بہت سے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیک سٹاف کورونا کی وبا میں اپنی جان کی بازی ہار گیا۔ اب بھی ان پر کام کا بہت بوجھ ہے۔ اس وقت سب سے برا حال کراچی کا ہے جہاں مثبت کیسز کی شرح 40 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے لیے حکام کو فوری طورپر اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے تو اس چیز کا جائزہ لیا جائے کہ کتنے لوگ ویکسین لگواچکے ہیں اور کتنوں کی دوسری ڈوز باقی ہے۔ ڈور ٹو ڈور کمپین کریں‘ مساجد میں اعلان کریں‘ علماء کرام کی مدد لیں اور عوام کو بتائیں کہ کورونا کی ویکسین مکمل طور پر محفوظ ہے‘ لہٰذا اپنی جان کو محفوظ بنائیں اور انسدادِ کورونا ویکسین ضرور لگوائیں۔ بستیوں میں محکمہ صحت کی ٹیمیں جائیں‘ لوگوں کو ویکسین لگائیں اور انہیں نیشنل ڈیٹا میں انٹر کیا جائے کہ انہوں نے ویکسین لگوالی ہے۔ اس کے ساتھ جو پہلے ویکسین لگواچکے ہیں‘ ان کو بوسٹر شاٹ لگوانا بہت ضروری ہے۔ اب حکومت نے بوسٹر لگوانے کے لیے عمر کی حد کم کردی ہے اور اب 18 سال تک عمر کے افراد بوسٹر ویکسین لگواسکتے ہیں؛ البتہ یہ ویکسی نیشن کے چھ ماہ بعد لگوائی جاسکتی ہے۔ اس کی کوئی فیس نہیں ہے۔ کراچی میں اس وقت صورتحال تشویشاک ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 2622 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ مثبت کیسز کی شرح 39.39 فیصد رہی۔سندھ حکومت کو فوری طور پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ عوامی تقریبات کینسل کی جائیں، کنسرٹس‘ میلے اور دیگر تقریبات کو روکا جائے۔ اس کے ساتھ تعلیمی اداروں کو کچھ دن بند رکھا جائے‘ جیسے ہی مثبت کیسز کا گراف نیچے آئے‘ تعلیمی ادارے کھول دیے جائیں۔ علاوہ ازیں نجی اور سرکاری دفاتر میں کام کے اوقاتِ کارکم کیے جائیں‘ عوام کو سماجی کنارہ کشی کا کہا جائے اور جلسوں‘ دھرنوں اور سیاسی تقریبات وغیرہ پر بھی پابندی عائد کی جائے۔ کراچی کی آبادی بہت زیادہ ہے‘ حکومت کو یقینی بنانا چاہیے کہ تمام آبادی کو ویکسین لگے۔ ماسک پہننے کی پابندی دوبارہ عائد کی جائے تاکہ اس بیماری کا پھیلائو روکا جا سکے۔
اس وقت کراچی میں دو‘ تین بڑے فیسٹیول ہورہے ہیں۔ ان کا انعقاد بعد میں بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اس وقت کراچی کو پھر سے لاک ڈائون کی ضرورت ہے۔ اگر یہ وبا پھیل گئی تو محکمہ صحت اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ پہلے ہی اس کے کندھوں پر بہت بوجھ ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ کراچی کو کورونا کے پھیلائو سے بچایا جائے۔ جس وقت میں آرٹیکل لکھ رہی ہوں‘ کراچی سے خبرآئی ہے کہ کورونا کیسز کے مثبت ہونے کی شرح مزید بلند ہو گئی ہے، یہ بہت گمبھیر صورتحال ہے؛ تاہم حکومت نے اس دوران بھی سکول کھلے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جو عجیب بات ہے۔ یہ ایک ہنگامی صورتحال ہے اور اس کو ہنگامی بنیادوں پر ڈیل کیا جانا چاہئے۔ مارکیٹ‘ عوامی مقامات اور تقریبات میں ماسک لازمی ہو اور ساتھ ویکسین کارڈ بھی ہونا لازم قرار دیا جائے‘ ویکسی نیشن کا عمل تیز کیا جائے اور ہنگامی بنیادوں پر لوگوں کو ویکسین لگائی جائے‘ پبلک پارکس کچھ دن کے لیے بند کردیے جائیں تو اس وبا کو کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ کراچی کی آبادی اس قدر زیادہ ہے کہ مثبت کیسز کی اس قدر بلند شرح محکمہ صحت سہہ نہیں پائے گا۔ اگر ملک کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کورونا کی پانچویں لہر پورے ملک میں اپنے پر پھیلا رہی ہے۔ تمام صوبے اس کی زد میں ہیں۔ این سی او سی کے مطابق اس وقت مریضوں کی تعداد 13 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہیں۔ پانچویں لہر کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ موسمی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ حکومت عوام کوآگاہی دے تاکہ ان بیماریوں سے بچا جا سکے۔ یہاں عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ حفظانِ صحت کے اصولوں کو اپنائیں اور کورونا کے حوالے سے ایس او پیز پر بھی عمل کریں۔ سماجی کنارہ کشی کریں، ہاتھ دھوئیں، ہاتھ منہ اور آنکھوں وغیرہ پر مت لگائیں، ویکسین لازمی لگوائیں۔ اس وقت کورونا کے ساتھ ساتھ اومیکرون کا بھی سامنا ہے جو ڈیلٹا ویری اینٹ سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو سامنے آنا چاہیے اور اسی طرح اقدامات کرنا چاہئیں جیسے انہوں نے کورونا کی وبا کے آغاز میں کیے تھے۔ اسی طرح صوبائی وزیر مرتضیٰ وہاب پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سندھ حکومت میدان میں آئے اور کراچی والوں کی خدمت کرے۔
کووڈ 19 چین کے شہر ووہان سے پھیلا تھا؛ اگر ہم چین کی طرف دیکھیں تو انہوں نے بہت اچھے طریقے سے اپنے ملک میں اس وبا پر قابو پایا لیکن یہ وبا دنیا بھر میں پھیل گئی۔ ترقی پذیر ممالک اس سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ بعض لوگ ویکسین سے ڈرتے ہیں اور جھوٹے سرٹیفکیٹ بنوالیتے ہیں جبکہ ایس او پیز پر بھی عمل نہیں کرتے۔ کووِڈ کھانسی‘ سانس اور چھینکنے سے پھیلتا ہے‘ اسی لیے ماہرینِ طب منہ پر ماسک پہننے کا کہتے ہیں۔ ہم سب کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ باقاعدگی سے ہاتھ دھوئیں‘ منہ پر ماسک پہنیں‘ کم از کم چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ اگر نزلہ‘ زکام ہو تو خود کو الگ کر لیں۔ بخار‘ کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف کی صورت میں ہسپتال جائیں اور کووڈ کا ٹیسٹ کرائیں۔ کورونا کی نئی اقسام نے بچوں اور خواتین کو بڑی تعداد میں ٹارگٹ کیا ہے‘ اس لیے سب کے لیے احتیاط لازم ہے۔ جن لوگوں نے ویکسین لگوائی‘ بعد میں اگر ان کو کووِڈ ہوا بھی تو دیکھا گیا کہ وہ بہت جلدی ٹھیک ہوگئے اور ان کی صحت بہت کم متاثر ہوئی؛ تاہم جو لوگ ویکسین نہیں لگوارہے‘ وہ کورونا کے حملے میں یا تو شدید بیمار ہوجاتے ہیں‘ یا کئی جانبر بھی نہیں ہو پاتے۔ اس لیے ویکسی نیشن بہت ضروری ہے۔ عوام کو چاہیے کہ بلاوجہ رش والی جگہوں پر مت جائیں اور ایک دوسرے کو اس بیماری کے خطرات سے آگاہ کریں۔ کوئی بھی شخص اگر اس بیماری کا شکار ہوجائے تو اس کو منحوس نہ کہیں‘ یا اس پر لعن طعن نہ کریں۔ یہ ایک وبا ہے جو کسی کو بھی ہوسکتی ہے۔ لوگوں کے ساتھ برا سلوک مت کریں‘ یہ کسی نحوست کی وجہ سے نہیں ہوتا‘ بس ہو جاتا ہے۔ اس لیے ایک دوسرے کا احساس کریں‘ خیال رکھیں اور احتیاط کریں۔ اسی طریقے سے ہم اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگیاں محفوظ بنا سکتے اور انہیں بچا سکتے ہیں۔ اب جب یہ وبا ملک بھر میں ایک بار پھر پھیل رہی ہے تو انتظامیہ کو ایک بار پھر وہ اقدامات کرنا ہوں گے جو پہلی لہر میں کیے گئے تھے۔ سمارٹ لاک ڈائون لگائیں یا عوامی سرگرمیاں معطل کریں، جو کرنا ہے جلدی کریں کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔ زندہ رہے تو زندگی کے امور پھر سر انجام دے لیں گے۔