تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     17-01-2022

کتاب دیوانگی چاہتی ہے

بدلتے ہوئے وقت نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے مگر بہت کچھ چھین بھی لیا ہے۔ آج کے انسان کو بہت سے معاملات میں ایسی سہولتیں میسر ہیں جن کا گزری ہوئی نسلوں نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ ان سہولتوں سے زندگی آسان ہوئی ہے، بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت و سکت پیدا ہوئی ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر بہت کچھ کھو بھی گیا ہے۔ جاوید اختر نے خوب کہا ؎
کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی!
اب یہی دیکھیے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے مزین سمارٹ فونز نے ہمارے لیے رابطے کتنے آسان بنادیے ہیں۔ ان کی مدد سے دسیوں کام کیے جا سکتے ہیں۔ ڈیوائس کی شکل میں ایک دنیا ہے جو سمٹ کر ہمارے ہاتھ میں آگئی ہے مگر ابلاغیات کی اس ترقی اور جدید ترین سمارٹ فونز کی بھرمار نے کتاب کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ دنیا بھر میں کتب بینی کا رجحان کمزور پڑچکا ہے۔ ہمارا حال تو خیر بہت برا ہے۔ یہاں پہلے ہی پڑھنے والے بہت کم تھے۔ اب تو یہ حال ہے کہ کتاب کا ایک ایڈیشن چار پانچ سو کاپیوں تک محدود رہتا ہے۔ ایسے مصنفین معدودے چند ہیں جن کی کتب کے چار پانچ ایڈیشن شائع ہوں۔ کتب بینی کا رجحان اس لیے بھی کمزور ہے کہ کتب خریدنے کا رجحان بھی بہت کمزور ہو چکا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی کے بہت سے علاقوں میں کتب اور جرائد کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ ہفتہ وار اور ماہانہ جرائد کے ساتھ ساتھ ناول، شعری مجموعے، افسانے اور علمی و تاریخی نوعیت کی نان فنکشنل کتب کرائے پر مل جایا کرتی تھیں۔ کراچی کے بہت سے علاقوں میں کتب بینی کا رجحان توانا تھا۔ لوگ کتب کرائے پر لاکر مطالعے کا شوق پورا کیا کرتے تھے۔
ابراہیم جمالی ہمارے دوست ہیں۔ نیو کراچی میں وہ آج بھی کتب اور رسائل و جرائد کی دکان چلا رہے ہیں۔ اُن کی دکان سے ڈائجسٹ وغیرہ خریدے جاسکتے ہیں اور کرائے پر بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ کراچی میں ایسے لوگ اب کم ہیں جو لوگوں میں کتب بینی کا ذوق و شوق زندہ رکھنے پر کمر بستہ ہوں۔ زمانہ بہت بدل چکا ہے۔ اب اور بہت سے دھندے ہیں جن میں کتب فروشی سے کہیں زیادہ فائدہ ہے۔ ایسے میں کتب فروشی وہی کر سکتا ہے جو اس حوالے سے غیر معمولی جنون کا حامل اور قدرے دیوانگی کے ساتھ کام کرنے کا عادی ہو۔ ابراہیم جمالی جیسے سرپھرے اور دیوانے اب چند ہی ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں اب صرف نیو کراچی، اورنگی ٹاؤن اور کورنگی وغیرہ میں کتب کی چند ایسی دکانیں رہ گئی ہیں جو کتب کرائے پر بھی دیتی ہیں۔ چند پُرانے علاقوں میں مطالعے کا رجحان کسی حد تک برقرار ہے۔ ایسے میں کتب کرائے پر دینے والی دکانیں دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔
کل ایک خبر پڑھی تو حیرت ہوئی کہ کتب فروشی اور کتب بینی کی دنیا کو اب بھی اچھے خاصے دیوانے میسر ہیں۔ بھارتی ریاست مہا راشٹر کے تعلقہ کھٹاؤ میں 67 سالہ جیون اِنگڑے نے کتب بینی کے رجحان کو فروغ دینے کو اپنی زندگی کا بنیادی مشن بنالیا ہے۔ جب تک ہاتھ پیر توانا تھے تب تک جیون کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ جب کھیتوں میں کام کرتے کرتے وہ اُوب گئے تب کتب بینی کو فروغ دینے کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ وہ پندرہ سال سے گشتی کتب خانہ چلا رہے ہیں۔ جی ہاں! یہ کتب خانہ اُن کی سائیکل پر قائم ہے۔ جیون کے پاس ڈھائی ہزار سے زائد کتب ہیں۔ اِن میں ناول بھی ہیں اور سفر نامے بھی، شاعری کے مجموعے بھی ہیں اور کہانیوں کے بھی، بچوں کی کتب بھی ہیں اور علمی و تاریخی کتب بھی۔ وہ اپنے قصبے اور آس پاس کے دیہات میں سائیکل پر گھومتے رہتے ہیں اور جسے کوئی کتاب درکار ہو‘ اُسے فراہم کرتے ہیں۔ اس گشتی کتب خانے کی تاحیات رکنیت صرف ایک روپیہ دے کر حاصل کی جاسکتی ہے۔ جیون ہر موسم میں گھر سے نکلتے ہیں اور کتب بینی کا شوق رکھنے والوں کی تسلی و تشفی کا بھرپور اہتمام کرتے ہیں۔ لوگ اُنہیں بے حد احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ جہاں سے بھی گزرتے ہیں لوگ اُنہیں روک کر کتاب حاصل کرکے پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔
پاکستان میں کتب بینی کا رجحان انتہائی نچلی سطح کو پہنچ چکا ہے۔ ملک کی آبادی کے تناسب سے کتب کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہے۔ عام آدمی کا تو خیر پوچھنا ہی کیا‘ حال یہ ہے کہ کئی اساتذہ بھی پڑھنے کے عادی نہیں رہے۔ عام طور پر طلبہ و طالبات میں کتب بینی کا رجحان خاصا قوی ہوتا ہے کیونکہ اُنہیں امتحانات کی تیاری بھی کرنا ہوتی ہے۔ اچھے مارکس لانے کے لیے وسیع المطالعہ ہونا بہت سُود مند ثابت ہوتا ہے۔ افسوس کہ اب ہماری نئی نسل بھی مطالعے سے بہت دور ہوچکی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں کتب بینی کا رجحان پروان چڑھانے میں اساتذہ اور والدین کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب اساتذہ خود ہی نہیں پڑھیں گے اور والدین بھی اس طرف جھکاؤ نہیں رکھیں گے تو نئی نسل کیوں یا کیونکر کتب بینی پر مائل ہوگی؟ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ مطالعہ کیے بغیر کوئی بھی قوم ترقی کرسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ساری ترقی اُسی وقت ممکن ہوسکی جب لوگ پڑھنے کی طرف مائل ہوئے۔ جب معاشرے میں پڑھنے کا رجحان زور پکڑتا ہے تو لوگ سوچنے کی پر مائل ہوتے ہیں۔ مطالعے ہی سے ذہانت کی سطح بلند ہوتی ہے اور انسان کچھ کرنے کا سوچتا ہے۔ آج ہم جتنے بھی ترقی یافتہ معاشرے دیکھ رہے ہیں اُن کی ترقی کم و بیش چار صدیوں کی محنت شاقّہ کا نتیجہ ہے۔ اِس دوران علم و ادب سے غیر معمولی شغف بھی پروان چڑھتا گیا۔ علمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جاتا رہا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں نے پڑھنے، سوچنے اور بولنے کی تحریک دی تو بات بنی۔
تین چار عشروں پہلے تک انسان کو علم و ادب سے رُو شناس کرانے والا سب سے ذریعہ کتاب تھی۔ کتب بینی ہی کے ذریعے لوگ وہ سب کچھ جان پاتے تھے جو اُن کے ذہن کو وسعت دینے کے لیے درکار ہوا کرتا تھا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی غیر معمولی ترقی نے کتب بینی کے رجحان کو کمزور کردیا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لوگ چند جملوں والی پوسٹیں پڑھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ چار پانچ سو صفحات کی ضخامت والی کتب پڑھنا تو بہت دور کی بات رہی، اب لوگ سو صفحات کی کتاب کے پڑھنے کو بھی ''کارنامہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ معیاری کتب کا مطالعہ بھی اب زیادہ مقبول نہیں۔ لوگ زیادہ سے زیادہ آسان پڑھنے کے نام پر انتہائی سطحی نوعیت کی چیزیں پڑھنے کی طرف چلے گئے ہیں۔ سطحی قسم کے ناول اور شعری مجموعوں کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ لوگ تحقیق پر مبنی کتب کے مطالعے سے راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ درسی یا نصابی نوعیت کی کتب کے پڑھنے کا رجحان کچھ قوی اس لیے ہے کہ یہ کتب امتحانی تیاری میں خاصی معاون ثابت ہوتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ذہنی سطح بلند کرنے میں ان کا کردار کچھ خاص نہیں ہوتا۔
قوم کو مطالعے کی طرف واپس لانا ہے۔ کتب بینی کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے مین سٹریم اور سوشل‘ دونوں ہی طرح کا میڈیا کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ بڑوں کا بھی فرض ہے کہ نئی نسل کو مطالعے کی طرف مائل کریں۔ اساتذہ کلاس رُومز میں بچوں کو کتب بینی کی تحریک دیں۔ سکول کی سطح پر فعال کتب خانوں کو پروان چڑھایا جائے۔ پنجاب میں یہ معاملہ اب تک اطمینان بخش ہے۔ دیگر صوبوں کو بھی نئی نسل میں مطالعے کا رجحان پیدا کرنے اور پروان چڑھانے پر توجہ دینا ہو گی۔ عام مشاہدہ ہے کہ جن گھروں میں بڑے پڑھتے ہیں وہاں چھوٹے بھی پڑھنے لگتے ہیں۔ والدین کو اس معاملے میں حساس ہونا پڑے گا۔ اگر وہ کتب بینی سے شغف ظاہر کریں گے تو بچوں میں بھی یہ چیز آئے گی۔ اگر والدین ہی لایعنی سرگرمیوں میں وقت ضائع کریں گے تو نئی نسل کیونکر اپنے اندر مطالعے کا ذوق و شوق پیدا کر پائے گی۔ قصہ مختصر‘ کتب بینی کے کلچر کا فروغ دیوانے اور دیوانگی چاہتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved