مسیحائی کا ماتم کریں یا سفاکی اور ڈھٹائی کا‘طرزِ حکمرانی کا نوحہ لکھوں یا ہٹ دھرمی اور من مانی کا۔یہ دلخراش واقعہ کسی دور دراز پسماندہ علاقے کا نہیں‘یہ قیامت کسی بیاباں یا جنگل میں نہیں ٹوٹی‘یہ درندگی اور بربریت ملک کے سب سے بڑے صوبے کے صوبائی دارالحکومت میں برپا کی گئی ہے۔ 14جنوری بروز جمعہ شام 5بج کر 52منٹ پر تیس سالہ حامد اپنے پیروں پر چل کر سینے میں تکلیف کے ساتھ شہر لاہورکے ایک معروف سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی میں آیا۔ہسپتال میں اپنے پیروں پر چل کر داخل ہونے سے لے کرمیڈیکل ٹراما سنٹر میں موجودگی کے سبھی مناظر کی گواہی سی سی ٹی وی کیمرے اپنے اندر محفوظ کیے ہوئے ہیں۔خدا جانے حامد پر کون سی قیامت ٹوٹی‘صحت کی طلب میں ہسپتال آنے والا ڈاکٹروں کی بھینٹ چڑھ گیا۔5بج کر 52 منٹ پر ایمرجنسی میں انٹری کی سلپ ریکارڈ پر موجود ہونے کے باوجود ڈاکٹروں نے6بج کر43منٹ پر ایک نئی سلپ بنانے کے بعد لواحقین کے ہاتھ میں ڈیتھ سرٹیفکیٹ تھما دیا۔ لواحقین نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ دیکھا تو اس پر لکھا ہوا تھا کہ مریض6بج کر 43 منٹ پر مردہ حالت میں ایمرجنسی لایا گیا۔کوئی تو بتائے کہ مردہ علاج کے لیے چل کر کیسے آگیا؟مسیحائوں کا یہ روپ دیکھ کر لواحقین نے احتجاج کیا تو ہتھ چھٹ ڈاکٹروں نے انہیں کمرے میں بند کرکے نہ صرف مار پیٹ کی بلکہ ایمرجنسی میڈیکل سروسز بھی بند کرڈالیں۔
ایم ایس کی مداخلت کے باوجود نوجوان ڈاکٹر اپنے روایتی ہتھکنڈوں پر اتر آئے جس پر ایم ایس نے ایمرجنسی سروسز بند کرنے اور مریض کے لواحقین پر بے جا تشدد اور ہنگامہ آرائی کے ذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے فوری طور پر اعلیٰ حکام کوایک تحریری رپورٹ بھجوا دی۔ جیتے جاگتے مریض کوعلاج کے لیے ہسپتال لانے والے زخموں سے چور لواحقین نے جیسے تیسے میت حاصل کی اور طرزِحکمرانی کو کوستے ہوئے گھر روانہ ہوگئے۔ وزیرصحت سے لے کر سیکرٹری صحت تک سبھی اس واقعہ کو معمول کا واقعہ سمجھ کر روایتی بے نیازی کا مظاہرہ کرتے رہے لیکن سی سی ٹی وی فوٹیج لیک ہونے اور دوسری بار بنائی جانے والی جعلی انٹری سلپ نے سفاکی اور درندگی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔وزیراعلیٰ پنجاب کو خبر پہنچی تو انہوں نے اس گھنائونے کھیل کے ذمہ داران کے خلاف فوری انکوائری کا حکم تو جاری کرڈالالیکن تین روز گزرنے کے باوجود وزیراعلیٰ کے احکامات تاحال وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ہی بھٹک رہے ہیں۔نہ کوئی انکوائری شروع ہوئی نہ کوئی ابتدائی رپورٹ منظر عام پر آئی۔سی ایم ہائوس سے اُس سرکاری ہسپتال کا فاصلہ لگ بھگ ایک کلو میٹر ہوگالیکن تحقیقات کے احکامات یہ مختصر فاصلہ تاحال طے نہیں کرپائے۔وسیع وعریض سی ایم سیکرٹریٹ کے در ودیواربھی ان احکامات پر ہنستے ہوں گے کہ ایسے نجانے کتنے احکامات روزہی نکلتے ہیں اور پھر بھٹکتے بھٹکتے نجانے کہاں منہ چھپائے پڑے رہتے ہیں۔
عوام کے احساس کا ڈھونگ ہو یا صحت کارڈ کا‘جب نیت اور ارادے ہی کھوٹ کا شکار ہوں تو کیسا احساس اور کون سے صحت کارڈ؟ناحق مرنے والے جواں سال شخص کے لواحقین کوچاہیے تھا کہ اسے ہسپتال لے جانے کے بجائے احساس پروگرام کا ورد کرکے اسے چند پھونکیں مارتے یا صحت کارڈ سے اس کی آرتی اتارتے۔ناحق ہسپتال لے کر گئے۔ہسپتالوں میں توآئے روز یہی کچھ ہوتا ہے۔ نہ آج تک کسی ذمہ دار کو سزا ملی ہے اور نہ ہی متاثرہ خاندان کو انصاف۔جس معاشرے میں جزا اور سزا کا تصور ہی ختم ہوجائے وہاں ایسی سفاکی اور درندگی معمول کے واقعات بن جاتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ایسے المناک واقعات کا ریکارڈ اکٹھا کیا جائے توطرزِ حکمرانی اور مسیحائی بے نقاب اور بے لباس دکھائی دیتی ہے۔بالخصوص نوجوان ڈاکٹروں نے توحکومتی رٹ سے لے کرمسیحائی کے حلف نامے تک سبھی کو وہ دھول چٹائی ہے کہ رٹ قائم رہی اور نہ ہی مسیحائی۔انسانیت سوز سلوک سے لے کر بے حسی اور سفاکی کی کیسی کیسی داستانیں حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کی اہلیت اور قابلیت پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔مریضوں کے ساتھ دھتکار پھٹکار کے علاوہ لواحقین کے ساتھ بدسلوکی اور مارپیٹ تو ایک طرف‘انہیں توکبھی کسی کے ناحق مرنے سے بھی فرق نہیں پڑا۔ہر دور میں حکمرانوں سے لے کر سرکاری بابوئوں اور ہسپتال انتظامیہ تک سبھی ان کے آگے گھٹنے ٹیکتے اور بلیک میل ہوتے نظر آئے۔جس ملک میں ہسپتال کے دروازے مریضوں کے لیے محض اس لیے بند کردیے جائیں کہ ڈاکٹروں کے مطالبات پورے نہیں ہوئے اور حکومت ترلوں اور منت سماجت پر مجبور ہو وہاں کیسی حکمرانی اور کہاں کی مسیحائی؟ علاج سے انکار کا تصور کسی مہذب معاشرے میں ممکن ہی نہیں لیکن ان چارہ گروں کی ہڑتالوں اور بے حسی کی وجہ سے کسی کا اپینڈیکس پھٹ گیاتو کسی کی آنکھیں پتے میں پتھری کی وجہ سے پتھرا گئیں‘کسی کا دل کا دورہ جان لیوا ہوا تو کوئی گردے کی جان لیوا تکلیف سے چیخیں مارتا رہا‘ کوئی جگر اور دیگر مہلک امراض کے ہاتھوں مجبور ہسپتالوں میں مارا مارا پھر رہا ہے‘کوئی کسی حادثے میں ہڈی تڑوا بیٹھا ہے تو کوئی بری طرح گھائل ہوکر بھی گھائل ہی رہا‘کوئی ایمبولینس میں ہی اللہ کو پیارا ہوگیا اور کسی نے گھر پر جان دے دی‘اس لیے کہ ڈاکٹر ہڑتال پر اور علاج سے انکاری ہیں۔
صورتِ حال اس قدر بھیانک اور درد ناک ہے کہ اس نے کیا حکام‘کیا عوام سبھی کے حواس گم کرڈالے ہیں۔عوام کے حواس گم ہونا تو سمجھ میں آتا ہے مگر حکمرانوں کو بھی کچھ دکھائی اورسجھائی نہیں دے رہا اور ان کی حالت خود اس مریض کی سی ہے جو لگانے والی دوائی کھا رہا ہو اور کھانے والی دوائی لگائے چلے جارہاہو۔ان کے دعوے اور اقدامات سن سن کر عوام کے کان پک چکے ہیں لیکن ان کی گورننس کا پھل ہے کہ پکنے میں ہی نہیں آرہا۔سرکاری ہسپتالوں میں ہونے والا یہ افسوسناک واقعہ بھی ماضی کے واقعات اور حادثات کی طرح وقت کی گرد میں دب ہی جائے گا۔ویسے بھی ہمارے ہاں ایسے سبھی واقعات کی قبروں سے بھرے کئی شہرِ خموشاں پہلے ہی آباد ہیں‘گویا جتنی خبریں اتنی ہی قبریں۔
حکومتی دعووں اور بیانیوں کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ حکمران عوام کے احساس سے اس قدر سرشار ہیں کہ عوام کا درد اور پریشانیاں انہیں سونے بھی نہیں دیتی ہوں گی۔عوام کے درد میں شہر شہر‘ ملک ملک مارے مارے پھرنے والے سبھی حکمرانوں کو اپنے عوام سے کس قدر پیار ہے‘ان کی زندگیاں آسان کرنے کے لیے طرز ِحکمرانی کے کیسے کیسے سنہری خواب اپنے بھاشن اور بیانات میں دکھاتے ہیں‘مگران خوابوں کی تعبیراس قدر بھیانک اور دردناک بنتی چلی آرہی ہے کہ ہسپتالوں میں علاج نہیں‘ تھانوں میں دادرسی اور امان نہیں‘عام آدمی کی شنوائی نہیں‘گویا ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار کے سبھی مناظر جوں کے توں آج بھی جاری و ساری ہیں۔ عوام کے احساس پروگرام کے سبھی نمونے دیکھ کر ایک لطیفہ یاد آگیا کہ باپ گھر میں داخل ہوا توبیٹا لپک کر اس کے پاس آیا اور بولا:پاپا میرے پاس آپ کیلئے دو بڑی خبریں ہیں‘ایک اچھی اور ایک بُری خبر۔باپ نے بڑے تجسس سے کہا کہ پہلے اچھی خبر سنائو۔بیٹے نے کہا کہ میں اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا ہوں۔ باپ نے خوش ہوکر سر پہ ہاتھ پھیرا اور بولا: اب بُری خبر سنائو‘جس پر بیٹے نے انتہائی سادگی سے کہا کہ پہلی خبر جھوٹی ہے!
چلتے چلتے ہسپتالوں کی صورت حال پر حکومتی چیمپئنز کو ایک مفت مشورہ دیتا چلوں کہ جس طرح انہوں نے تحصیل مری میں ٹوٹنے والی قیامت کے بعد اسے ضلع بنانے کا فیصلہ کیا ہے‘ اس تناظر میں سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کی المناک موت کے بعد سیالکوٹ کو ڈویژن کا درجہ دے دینا چاہیے اوراسی فارمولا کے تحت سرکاری ہسپتالوں میں غیر انسانی اور افسوسناک واقعات پر لاہور کو صوبہ بنایا جاسکتا ہے؛ تاہم یہ سبھی فیصلے ہونے تک وزیراعلیٰ کے احکامات متعلقہ ہسپتال پہنچنے کا انتظار ضرور کرلینا چاہیے۔