تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     02-08-2013

گم شدہ عیدیں

مجھے وہ صبح اب تک یاد ہے جب گاؤں کے بچوں نے تکیہ لاہوری شاہ کے میدان میں عید کی نماز پڑھنے کے بعد سبز جھنڈیاں لہرا لہرا کر ماسٹر مہتاب دین کی قیادت میں دس بارہ آدمیوں کا ایک قافلہ حج بیت اللہ کے لئے پیدل سعودی عرب روانہ کیا تھا ۔مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ ان میں سے کتنے لوگ اور کب سلامت گھر لوٹے تھے مگر یہ احساس ہے کہ ستر سال پہلے کی عیدیں آج کی عیدوں سے بہت مختلف تھیں۔ کرسمس کی طرح عیدوں پر بھی تجارت کا غلبہ ہو چکاہے ۔ چند سال بعد سکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو میں نے اپنے پھوپھی زاد بھائیوں سے ملنے کے لئے مشرق سے مغرب کا رخ کیا۔ جلد ہی انسانوں نے بھیڑیوں کا روپ دھارا اور ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگے ۔میں نے زیر تعمیر بجلی گھر کے سٹور سے لوہے کی چادریں چُرا کر ان کی تلواریں بناتے خر کاروں کو دیکھا ۔ روزوں کا مہینہ تھا۔ عید کے بعد گھر واپس جانے کا ارادہ دم توڑنے لگا تھا ۔ یہ جمعرات کا دن تھا اور رمضان المبارک 1366ء کی چھبیس تاریخ ۔ شب قدر سے ایک دن پہلے پاکستان کاظہور ہوا ۔میں نے عید کی نماز عجب بوکھلاہٹ اور پریشانی میں ادا کی ۔جب میرا کنبہ مشرقی پنجاب کے ایک گاؤں سے ہرج مرج کھینچتا لاہور پہنچ گیا تو میں نے بھی رخت سفر باندھا اور ا س سے جا ملا ۔اب میں لکڑی کی رائفل اٹھا کر سویرے سویرے نو زائیدہ مملکت کے دفاع کا عزم تازہ کرتا تھا ۔ملی جذبہ ہر نقصان پر غالب آ چکا تھا ۔عید اب بھی ایک سادہ سا دینی تہوار تھا جو سب لوگ مل جل کر مناتے تھے ۔اقبال کے اس شعر کا مفہوم کھل کر سامنے آ رہا تھا۔ عیدِ محکوماں ہجوم مومنیں عیدِ آزاداں شکوہِ ملک و دیں رفتہ رفتہ ہم آزادوں کی طرح عید منانے لگے اور ملک و دیں کا شکوہ نما یاں ہوا ۔ایک مولوی نے کہا ۔ عید کا چاند ہو گیا ہے۔ دوسرے نے کہا ۔معتبر شہادتیں نہیں آئیں ۔شہر کے آدھے لوگ عید پڑھنے جا رہے تھے اور با قی روزے سے تھے۔ مذہب کا کا روبار شروع ہو گیا تھا ۔حکومت نے رو یت ہلال کمیٹی بنائی ۔جو مولوی کمیٹی سے باہر تھے وہ اس کا فیصلہ نہیں ما نتے تھے ۔شہر میں ایک سے زیا دہ عیدیں ہونے لگیں ۔ عید کی تین چھٹیاں ہوئیں اور لوگوں نے تینوں دن عید منائی۔ہر روز روز عید تھا اور ہر شب شب برات۔ پہلے عید منانے کا مقابلہ شروع ہو چکا تھا۔ میں اہل وطن کو لڑتے جھگڑتے چھوڑ کر امریکہ آ گیا ۔ ماہ و سال گزرے تو امریکہ میں بھی مسلمانوں کی آبادی بڑھی۔ صدی کے شروع میں ایک مستند ادارے نے تخمینہ لگایا کہ ہر چھٹا مسلمان جو اس سر زمیں پر چلتا ہے پا کستانی ہے ۔ایک سال پہلے میں ایک دوست کے ہمراہ کھانا کھانے کے لئے ایک پاکستانی ریستوران میں گیا تو مالک نے معذرت کرتے ہوئے بتا یا کہ اس کا ہال ایک افطار ڈنر کے لئے بُک ہو چکا ہے۔ تقریباً سبھی پاکستانی ریستوران رمضان المبارک کے اس مہینے میں سال بھر کی روٹیوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ افطار مفت پیش کرتے ہیں اور اس میں کھجور کے علاوہ تیل میں تلے ہوئے پکوڑے اور سموسے شامل کرتے ہیں۔ افطار پارٹی میں شرکت کے لئے روزہ رکھنا لازم نہیں ۔ جو پاکستانی امریکی ٹیلی وژن یا انٹر نیٹ پر بین الاقوامی چینل دیکھتے ہیں ان کو اندازہ ہو گا کہ آبائی وطن میں مذہب اپنے عروج پر ہے مگر یہ دین نہیں مذہبی بخار ہے ۔ بہت سے سرکاری ملازمین نے کرپشن کے الزام سے بچنے کے لئے داڑھیاں رکھ لی ہیں۔ ہر ٹیلی وژن چینل نے علمائے دین کو کانٹریکٹ دیے ہیں جو رمضان کے فیوض اور عید کی برکتیں بیان کر تے ہیں‘ بن سنور کر اور پیشانی کی محراب کو نمایاں کرکے آتے ہیں اور ٹیلی وژن پر اپنی تصویر دیکھ کر پھولے نہیں سماتے ۔وہ انعامات کا اعلان کرتے اور اساطیری کرداروں کے بارے میں معمے پیش کرتے ہیں۔ ایک مولوی صاحب تماشائیوں سے پوچھ رہے تھے ملکہ صبا کے شوہر کا کیا نام تھا ؟ سحر اور افطار کے ٹرانس مشن دیدنی ہیں اور ہر نیٹ ورک نے ان کے لئے بڑے بڑے دیدہ زیب سیٹ بنوائے ہیں۔ پروگرام کے دوران وہ کھانے بھی پکواتے اور جمع شدہ تماشائیوں کو کھلاتے ہیں۔ گویا جو فریضہ برداشت اور کم خوری کی تربیت دیتا تھا وہ بسیار خوری کا بہانہ بن گیا۔ عام لوگوں کو عید کے دن بھی یہ پکوان میسر نہیں آئیں گے اور وہ معصوم بچوں کی فرمائشوں سے تنگ آکر خود کُشی تک کرلیں گے ۔ معاف کیجیے ٹی وی چینلز دیکھ کر مجھے بھی خود کشی کرنی چاہیے تھی اور اس کے بعد بھی ان سے ’’جُڑے‘‘ رہنا چاہیے تھا۔ تاہم میں کسی ’’حوالے‘‘ سے بات نہیں کروں گا کیونکہ مجھے challenge اور judge کے اردو مترادفات کا علم نہیں اور میں دونوں الفاظ کی جمع بنانے اور انہیں اردو میں لکھنے پر اصرار کرنے جا رہا ہوں۔ ایک ٹاک شو کے دوران میں نے چینل پر اس مضمون کی پٹی چلتے دیکھی۔ ’’ہم دہشت گردی کے خلاف کوئی واضع پالیسی کیوں نہیں بنا سکے‘‘۔ زبان بے زبانی سے میرا جواب تھا: اس لئے کہ ہم پالیسی کے اسم صفت کے ہجے نہیں جانتے ۔ہم ع اور ح میں امتیاز کرنا بھول گئے ہیں ۔ ٹیلی وژن والوں کو دنیا بھر سے دولت سمیٹنے کی عجلت میں ظ اور ذ کا فرق بھی یاد نہیں رہا ۔ ایک صاحب نے سکھر کی ایک خبر پر سرخی لگائی۔ ’’لاکھوں روپے کی کتا بیں نا قدری کی نظر ہو گئیں‘‘۔ لندن کی ایک کا رگو کمپنی اپنے اشتہار میں کہتی ہے۔ ’’اگر آپ اپنا سامان آذاد کشمیر بھجوانا چاہتے ہیں تو ہم پر بھروسہ کریں‘‘۔ میں نے اسے ای میل روانہ کی۔ ’’آپ تو آزاد کشمیر کے ہجے نہیں جانتے آپ پر بھروسہ کیونکر کیا جا سکتا ہے؟‘‘ عید کی خوشیاں قریب پا کرپیر فقیر اور جوتشی بھی ٹیلی وژن پر اشتہار دے رہے ہیں اور چشم زدن میں ہمارے تمام مسائل کے حل کی پیشکش کررہے ہیں جن میں گھریلو ناچاقی‘ اولاد کی نا فرمانی‘ محبوب کی بے وفائی‘ لاٹو کا لکی نمبر اور امریکی گرین کارڈ شامل ہیں۔زبانیں ترقی کرتی ہیں مگر اس طرح نہیں کہ لوگ سڑک کو روڈ کہنے لگیں اور سڑکوں کی جگہ روڈیں استعمال کریں ۔ چاند رات کا ظہور بھی روزہ داروں اور روزہ خوروں کی مشترکہ مساعی کا ثمر لگتا ہے ۔رمضان کے استقبال کے لئے دکاندار ہر سال اپنے مال کی قیمتوں میں جو اضافہ کرتے ہیں یہ اسے جائز شکل عطا کرتی ہے ۔ بیشتر ریستوران اور پیشہ وروں کی تنظیمیں چاند رات کی تقریبات کا اہتمام کرتی ہیں ۔شبینہ خریداری میں زیورات‘ کپڑے‘ جوتے‘ چوڑیاں اور مہندی شامل کیے گئے ہیں ۔بچپن میں ماؤں بہنوں کو ہاتھوں کے دونوں جانب حنا کے گُل بوٹے بنواتے نہیں دیکھا تھا ۔اس پروگرام میں میوزک لازمی ہے جو جدید انڈین اور پاکستانی ڈانس کے ساتھ ویڈیو پر پیش کیا جاتا ہے ۔اگر آپ چاند رات کو رقصِ درویش دیکھنے کی امید کرتے ہیں تو آپ کو مایوسی ہو گی البتہ بھنگڑا ناچ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ بین الاقوامی اردو ٹیلی وژن پر میں نے مفتی صاحب کو دُور بین سے رمضان کے چاند کا مشاہدہ کرتے دیکھا۔ گزشتہ سال وہ ایک ہوائی جہاز میں سوار ہو کر عید کے چاند کی تلاش میں نکلے تھے ۔ان کو معلوم ہے کہ وہ حکومت کو زیر بار کررہے ہیں ۔ایک ایسے وقت جب حکمران‘ ٹُوٹا پھوٹا کشکول لے کر آئی ایم ایف کے چکر لگا رہے ہیں رویت ہلال کمیٹی کے درجن بھر ارکان کو کراچی میں جمع کرنا‘ ان کے قیام و طعام کا بندو بست کرنا اور انہیں دور بین اور طیارے جیسے جدید ’’شیطانی‘‘ آلات مہیا کرنا کسی بھی صاحبِ علم کو زیب نہیں دیتا۔ خالد شوکت نے وب سائٹmoonsighting.com قائم کر دی ہے جس پر چاند کی نقل و حرکت کا ’’حساب‘‘ مفت کیا جا سکتا ہے اور امریکی مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت ISNA اسے تسلیم کرتی ہے ۔یہ تو ماننا پڑے گا کہ شوکت صا حب اس قوم کے فرد ہیں جس نے انسان کو چاند پر اتا را اور ’’حساب‘‘ میں ذرا سی غلطی بھی خلا باز کو ہدف سے کوسوں دور لے جا سکتی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved