تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     18-01-2022

کھاد کی تلاش میں

معلوم نہیں کہ ہماری آزمائشیں کیونکر اتنی طویل ہوئی جاتی ہیں‘ کہیں سے کوئی خیر کی خبر آہی نہیں رہی۔ ہرطرف ایک ہڑبونگ سی مچی دکھائی دے رہی ہے۔ اس ہڑبونگ میں کسانوں کی طرف بھلا کس کی توجہ جائے گی جو کھاد کی تلاش میں مارے مارے پھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ جنہوں نے پوری قوم کے لیے اناج پیدا کرناہے‘ اِن دنوں اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے دکھائی دے رہے ہیں۔ گندم کی فصل کاشت ہوچکی ہے لیکن اب اِسے مضبوطی فراہم کرنے کے لیے کھاد کی دستیابی بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ اب کسانوں کے پاس کم و بیش ایک ہفتے کا مزید وقت باقی بچا ہے کہ وہ اپنی گندم کی فصل میں دوسری مرتبہ کھاد ڈال سکیں۔ اگر یہ وقت بھی ہاتھ سے نکل گیا تو پھر اِس سال گندم کی خود کفالت کا خواب دیکھنا چھوڑ دینا چاہیے۔ بڑے شہروں کے رہائشی تو شاید اِس بابت ٹھیک سے جانتے بھی نہ ہوں کہ کسان‘خصوصاً پنجاب کا کسان اِس وقت کن حالات کا سامناکررہاہے۔ سارا سارا دن قطاروں میں کھڑے ہوکر ایک آدھ بوری کھاد مل جائے تو گویا عید ہوجاتی ہے۔ کئی مقامات پرکسانوں کے قطاروں میں لگنے کے مظاہر خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تو یقین آیا کہ ہمارا کسان کس مصیبت سے نبردآزما ہے۔ یہ صورتِ حال ایسے میں مزید سوالات کھڑے کر رہی ہے کہ اندازاً ہمارے ملک میں سالانہ چھ اعشاریہ پانچ ملین ٹن کھاد تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ اِس کی سالانہ طلب چھ ملین ٹن کے قریب ہے۔ اگر ضرورت سے زیادہ کھاد بنانے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود کھاد دستیاب نہیں تو پھر اِس کا الزام کس کے سر جاتا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر گندم کی بوائی کے وقت کھاد کے دستیابی کے یہ حالات ہیں توآگے خریف کی فصل کا کیا بنے گا؟کسانوں کو خدشہ اِس بات کا ہے کہ خریف کی فصل کاشت کرتے ہوئے بھی اُنہیں ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ایک طرف جہاں کھاد کی کمی کے باعث گندم کی بھرپورفصل ہونے کا امکان دم توڑتا جارہا ہے‘ وہیں آگے چل کر خریف کی فصل کے حوالے سے بھی یہی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔
دیکھا جائے تو یہ صرف کسانوں کا ہی نقصان نہیں‘ اِس کا بوجھ چند ماہ بعد ہم سب کو اُٹھانا پڑے گا۔ گندم کی کمی کے بعد‘ گندم کی درآمد کا کھیل شروع کر دیا جائے گا۔ اِس دوران آٹے کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ماضی میں بھی یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکاہے اور اس بہتی گنگا سے سب نے ہاتھ دھوئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومتی سطح پر اب بھی کھاد کی کمی دور کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو صورتِ حال انتہائی خراب ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ بحران ایک‘ دوروز میں پیدا نہیں ہوا۔ کھاد کی کمی کے اشارے تبھی ملنا شروع ہوگئے تھے جب اِس کی قیمتوں میں بے محابا اضافہ ہونے لگا تھا۔ تب اندازہ لگایا گیا تھا کہ ذخیرہ اندوزوں نے بڑی مقدار میں کھاد ذخیرہ کر لی ہے جسے وہ مہنگے داموں فروخت کریں گے۔ پھر یہی ہوا کہ ڈی اے پی اور نائٹروفاس کی قیمتوں میں ڈیڑھ سو فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا۔ ایک تو پہلے ہی سرکارنے کھاد کے نرخوں میں اضافہ کردیا تھا‘ رہی سہی کسر ذخیرہ اندوزوں نے پوری کر دی۔ اِس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا جو اب نکل رہاہے کہ کسان کھاد کی تلاش میں مارا مارا پھر رہاہے۔ حیرت کی بات ہے کہ کوئی بھی اِس صورت حال کی ذمہ داری لینے کو تیارنہیں۔ کھاد بنانے والی کمپنیاں کہتی ہیں کہ ہم نے تو کھاد مطلوبہ مقدار میں ہی تیار کی ہے‘ آگے ڈیلروں کے پاس سے یہ کہاں چلی گئی‘ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ اُسے یہ اندازہ تو ہے کہ کھاد کو بڑی مقدار میں ذخیرہ کیا گیا ہے لیکن اِسے برآمد کرنا آسان کام نہیں۔ چلیں! یہ بات تو تسلیم کی جا سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب کھاد کے بحران نے سر اُٹھانا شروع کیا تھا تو تب حکومت نے فوری طور پر اِس طرف توجہ کیوں نہیں دی تھی؟ حکومت کو بخوبی علم تھا کہ کھاد بنانے والے کارخانوں کو گیس نہ ملنے کی وجہ سے پیداوار متاثر ہورہی ہے‘ پھر کیوں یہ مسئلہ حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی؟ اب جب سر پر پڑی ہے‘ تب بھی کوئی سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آ رہیں‘ کوئی ایسے اقدامات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے جن سے حکومت کی سنجیدگی کا علم ہو سکے۔
کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر ہم حالات کا بروقت ادراک کرنے میں ناکام کیوں رہتے ہیں؟کسانوں کاشاید سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حکومتی ایوانوں سے دور‘ یہات میں رہتے ہیں۔ وہاں وہ لاکھ احتجاج کرتے رہیں‘ اُن کی آواز حکومتی بالاخانوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ وہ وہیں رودھو کر خاموش ہورہتے ہیں یا جب کبھی بہت تنگ آجائیں تو شہروں کا رخ کر لیتے ہیں۔ ماضی میں متعدد مواقع پر پنجاب کے کسان لاہور میں اپنی احتجاجی طاقت دکھا چکے ہیں۔ جب یہ لاہور آکر دھرنا دیتے ہیں تو پھر کئی کئی روز تک پورا شہر بند ہو کررہ جاتا ہے۔ چند دنوں بعد حکومت کی آنکھ کھلتی ہے اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کے بعد کسانوں کو نئے سرے سے کچھ یقین دہانیاں کرا کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ بعد میں سب کچھ پہلے کی طرح ہوجاتا ہے۔ کسان یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت اُنہیں لالی پاپ دے رہی ہے اور حکومت کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذاکرات اور یقین دہانیوں کا ڈول وقتی طور پر ڈال رہی ہے۔ یوں معاملہ رفع دفع کر لیا جاتا ہے۔ یہ پریکٹس طویل عرصے سے دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن مجال ہے کہ کسانوں کی حالت میں کوئی بہتری نظر آ رہی ہو۔
موجودہ حکومت کی طرف سے اِس بات کی کافی تشہیر کی گئی ہے کہ حکومتی اقدامات کے باعث زرعی شعبے کو اربوں روپے کا فائدہ ہوا ہے مگر حکومت یہ بتانے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی کہ ساڑھے تین سالوں کے دوران کھاد کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا‘ پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں نے کس طرح کسانوں پر معاشی بوجھ بڑھایا‘ زرعی ادویات کے نرخ کتنے بلند ہوئے۔ اِس کا اندازہ کھاد کی قیمتوں کو دیکھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ سال ڈی اے پی کی سرکاری قیمت 35 سو روپے تھی جو رواں سال کے لیے 8 ہزار 165 روپے تک پہنچ چکی ہے‘ یعنی صرف ایک سال میں چارہزار چھ سو پینسٹھ روپے کا ہوشربا اضافہ ہوا۔ گزشتہ سال نائٹروفاس کی بوری کا ریٹ 25 سو روپے تھا جو رواں سال 43 سو روپے مقرر کیا گیا۔ یہ واضح رہے کہ یہ سرکاری نرخ ہیں‘ جن نرخوں پر یہ اشیا بلیک میں فروخت ہو رہی ہیں، وہ ایک الگ داستان ہے۔
یہ ہیں وہ حالات جن کی موجودگی میں ہم ملک کو زرعی اجناس کے حوالے سے خود کفیل بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اُڑتی اُڑتی ایک خبر سنی تھی کہ حکومت نے چین سے 50ہزار میٹرک ٹن یوریا کھاد درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ یہ تمام عمل مکمل ہونے میں کافی وقت درکار ہو گا‘ پھر اِس کھاد کے کسان تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا‘ یہ معاملہ بھی غور طلب ہے۔ ان حالات میں کسانوں کو کس طرح فائدہ ہو سکے گا؟ ایک طرف یہ حالات ہیں اور دوسری طرف حکومت کا دعویٰ کہ حکومتی پالیسیوں کے باعث گزشتہ سال پانچ فصلوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہولیکن سچی بات ہے کہ ایسی باتوں کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دے رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کسانوں کے مسائل پر زیادہ توجہ دینے کا کبھی بھی مضبوط رجحان نہیں رہا۔ یہ اِسی طرزِ عمل کا شاخسانہ ہے کہ ہمارا کسان ہمیشہ مشکلات کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ دیکھا جائے توموجودہ دورِ حکومت میں اِن کے مسائل میں مزیداضافہ ہوا ہے جس کی تازہ کڑی کھاد کی عدم دستیابی کی صورت میں دکھائی دے رہی ہے۔ بلاشبہ یہ صورتِ حال بہت تکلیف دہ ہے۔ اگر کسانوں کے بڑے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے تو کم ازکم اِنہیں کھاد تو دلائی ہی جاسکتی ہے۔ اِن حالات میں یہ صورتحال مزید افسوسناک ہوجاتی ہے کہ ہم مطلوبہ طلب کے مطابق کھاد تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ عجیب تماشا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم ہمیشہ مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ شاید اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہمیشہ نیتوں کو بھاگ ہوتے ہیں‘ لہٰذا جیسی نیت ویسے نتائج!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved