دور اندیشی ایسا وصف ہے جو برسوں کی محنت کے نتیجے میں پروان چڑھتا ہے۔ ہم کتنی ہی کوشش کرلیں‘ بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ انسان کی عقل کی حدود متعین ہیں۔ انسان ایک خاص حد تک ہی سوچ سکتا ہے۔ بینائی کی بھی حدیں مقرر ہیں۔ انسان کہاں تک دیکھ سکتا ہے؟ جہاں تک آنکھیں دکھائیں بس وہیں تک۔ یہ سادہ سی حقیقت بھی بہت سوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اپنے ہی وجود کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہے کہ انسان جو کچھ دیکھ نہیں سکتا وہ سب کچھ دیکھنے کے لیے بے تاب رہتا ہے اور جو کچھ دیکھ سکتا ہے وہ دیکھتا ہی نہیں!
ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ بہت سے چیلنج لے کر آیا ہے۔ ایک بڑا چیلنج نئی نسل کو بھرپور دور اندیشی کے ساتھ آنے والے دور کے لیے تیار کرنا ہے۔ ہر دور میں یہ رونا رویا جاتا رہا ہے کہ نئی نسل ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہے۔ ہر دور کے بڑوں کو چھوٹوں میں اور چھوٹوں کی طرف سے الجھنوں کا سامنا رہا ہے۔ نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا والدین یا خاندان کے بڑوں ہی کا کام رہا ہے۔ اساتذہ بھی اس حوالے سے تھوڑی بہت ذمہ داری کے حامل ہیں مگر اُن پر زیادہ مدار اس لیے ممکن نہیں کہ اُن کے ساتھ نئی نسل خاصا کم وقت گزارتی ہے۔ والدین، خاندان کے بزرگ اور علاقے کے معززین سے اُن کا دن رات اور زندگی بھر کا تعلق بنا رہتا ہے۔ ہر دور میں دیکھا گیا ہے کہ نئی نسل اپنے دور کے تقاضوں کو سمجھنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ اُنہیں اس حوالے سے بڑوں سے رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ فی زمانہ لاکھ روپے کا سوال یہ ہے کہ کیا بڑوں میں اِتنے گن ہیں کہ وہ چھوٹوں کو کچھ دے سکیں، کچھ سکھا سکیں، اُنہیں بہتر زندگی کے لیے تیار کرسکیں۔ افسوس کہ اس سوال کا جواب بہت حد تک نفی میں ہے۔ اکیسویں صدی کے انسان کو جن چند بڑے مسائل کا سامنا ہے اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ دورِ حاضر کے تمام تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ جب سمجھے گا تب اُن تقاضوں کو نبھانے کا سوچے گا بھی۔ اب قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب بڑوں کی سمجھ میں معاملات نہیں آرہے تو وہ چھوٹوں کو کس طور بہتر زندگی بسر کرنے کے بارے میں کچھ بتاسکیں گے یا سکھا پائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ آج کی نئی نسل بہت زیادہ الجھی ہوئی ہے۔ جب نسلِ نو کی ذہنی الجھن بڑھتی ہے تو وہ نظم و ضبط سے عاری ہوتی جاتی ہے۔ یہ ہے آج کا سب سے بڑا مسئلہ۔
تیس چالیس سال پہلے کے زمانے کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ شادی کے بعد لڑکیاں بدل جایا کرتی تھیں۔ شوہر کے گھر کو اپنا گھر سمجھنے کا رجحان عام تھا۔ سسرالی عزیزوں میں گھل مل کر رہنے کو ترجیح دی جاتی تھی۔ آج معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ آج اکثر و بیشتر لڑکیاں رخصتی کے بعد بھی اپنے میکے ہی میں رہتی ہیں یعنی اُن کا دل وہیں بسا رہتا ہے۔ شوہر کے گھر میں اُن کا دل زیادہ اس لیے بھی نہیں لگتا کہ فون کالز کے ذریعے میکے والے جان نہیں چھوڑتے۔ لڑکیاں خود بھی اُن کی جان نہیں چھوڑتیں۔ روزانہ دو‘ دو گھنٹے میکے والوں سے بتیانے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب اپنے لیے وقت نہیں بچتا۔ اپنی زندگی‘ اپنے گھر اور اپنی اولاد کو چھوڑ کر آج کی اکثر لڑکیاں میکے کے بکھیڑوں میں ہی الجھی رہتی ہیں۔ ایسے میں نئی نسل بہتر تعلیم و تربیت کے لیے ترستی ہی رہ جاتی ہے تو حیرت کیسی؟ دوسری طرف مردوں کا معاملہ یہ ہے کہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کی کوشش ہی میں اُن کا پورا وجود کھپ جاتا ہے۔ بڑے شہروں میں زندہ رہنے کی لاگت اتنی زیادہ ہے کہ گھر کی تمام ضرورتیں پوری کرنے کے لیے دن رات کام کرنا پڑتا ہے۔ کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں لوگ بالعموم دو‘دو نوکریاں کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر پندرہ سولہ گھنٹے کی یومیہ محنت مردوں کو گھر کے معاملات میں‘ بالخصوص بچوں کی تعلیم و تربیت میں زیادہ دلچسپی لینے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ گھر کی ذمہ داریاں نبھانے والے مردوں کے لیے حقیقی سماجی زندگی بھی اب برائے نام رہ گئی ہے۔ ایک طرف نئی نسل ہے جو اپنا وقت ضائع کر رہی ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو گھر چلا رہے ہیں اور لاکھ کوشش کرنے پر بھی اپنے لیے ہفتے میں چند گھنٹے بھی نکال نہیں پا رہے۔ اِس کے نتیجے میں اُن کی زندگی میں جو خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں‘ اُن کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ جب باپ صرف کمانے میں لگا ہو تو بچوں کی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ نہیں دے سکتا۔ ایسے میں نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کی اصل ذمہ داری ماؤں کے کاندھوں پر آ پڑتی ہے۔
نئی نسل کو آنے والے دور کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے تیار کرنے کا پہاڑ جیسا کام سامنے ہے‘ اور آج کی جواں سال ماؤں کا معاملہ کیا ہے؟ ایک دور تھا کہ گھر کو ہر اعتبار سے بسانے کو اولین ترجیح دی جاتی تھی۔ مائیں خود بچوں کے ساتھ بیٹھ کر اُن کا ہوم ورک مکمل کرانے کو ترجیح دیتی تھیں۔ یومیہ بنیاد پر اُن کی کارکردگی جانچی جاتی تھی۔ تب ٹیوشن کا رواج نہ تھا۔ مائیں خود پڑھانے کو ترجیح دیتی تھیں۔ بچوں کو پڑھانے کے قابل ہونے کے لیے والدین اور بالخصوص ماؤں کا خود پڑھنا ناگزیر ہے۔ فی زمانہ (تمام نہیں‘ اکثر) نوجوان مائیں سوشل میڈیا کی غیر متعلق پوسٹوں میں الجھی رہتی ہیں تو بچوں کو کس طور پڑھائیں گی؟ ایک بنیادی الجھن یہ بھی ہے کہ فی زمانہ لڑکیاں شادی کے بعد بھی اُسی انداز سے رہنا چاہتی ہیں جس انداز سے وہ ماں باپ کے گھر میں رہتی آئی ہوں۔ شادی کے بعد نئے گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنا ہوتی ہیں۔ یہ کام پوری دیانت اور تندہی سے اُسی وقت کیا جاسکتا ہے جب مزاج میں سنجیدگی پائی جاتی ہو۔ آج کی اکثر لڑکیاں شادی کے بعد اپنے مزاج میں وہ سنجیدگی پیدا نہیں کر پاتیں جو ناگزیر ہے۔
ہر دور میں نئی نسل کی بہتر تعلیم و تربیت میں وہی والدین کامیاب رہے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو بدلا، نئی نسل کو آنے والے زمانے کے لیے تیار کرنے کے معاملات میں بھرپور دلچسپی لی۔ فی زمانہ یہ جذبہ والدین میں کم کم دکھائی دے رہا ہے۔ والدین کے اپنے مشاغل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ وہ گھر کو زیادہ سے زیادہ پُرسکون اور مثالی بنانے کے معاملے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ ایک طرف شہری زندگی کی ہماہمی اور دوسری طرف سنجیدگی کا فقدان۔ نئی نسل کو راہِ راست پر گامزن رکھنے کے لیے جو بھرپور لگن درکار ہے اُسے اپنے اندر پیدا کرنے کے معاملے میں والدین اب تک خاصے لاپروا ہیں۔ گھر کی کفالت یعنی کھانے پینے کی ذمہ داری نبھانا ایک الگ معاملہ ہے اور نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کا معاملہ بالکل الگ چیز ہے۔
وقت کی پکار ہے کہ اولاد کو آنے والے دور کے لیے تیار کرنے کے معاملے میں والدین اپنی ذمہ داری پہچانیں اور اُسے نبھانے کی بھرپور کوشش بھی کریں۔ تمام معاملات سکول یا ٹیوٹر پر نہیں چھوڑے جاسکتے۔ اِسی طور بچوں کو ماحول کے رحم و کرم پر چھوڑنا بھی مناسب نہیں۔ لازم ہے کہ والدین میں سنجیدگی ہو اور وہ اپنے اپنے مشاغل کی قربانی دے کر بچوں کے لیے کچھ کرنے پر آمادہ ہوں۔ یہ کام خاطر خواہ سنجیدگی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ بچے والدین سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اس لیے والدین کو بھی کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ سکول بچوں کو بہت کچھ دیتا ہے مگر پھر جو کچھ والدین دے سکتے ہیں‘ وہ سکول کبھی نہیں دے سکتا۔ والدین کی محنت ہی سے بچے ماحول سے مطابقت پیدا کر پاتے ہیں اور اُن میں حقیقی اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ معیاری زندگی ممکن بنانے میں وہ اعتماد کلیدی کردار ادا کرتا ہے جو والدین کی محنت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ نکتہ نئی نسل کو بھی سمجھنا ہے اور والدین کو بھی، اور وقت کہہ رہا ہے کہ اس معاملے میں تاخیر کی برائے نام بھی گنجائش نہیں۔