تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     19-01-2022

زندگی کی جلتی بجھتی روشنیاں… (2)

آئی سی یو کی دنیا الگ ہوتی ہے جہاں زندگی سمٹ کر ایک کمرے تک آ جاتی ہے۔ مجھے ویل چیئر سے سہارا دے کراٹھا یا گیا اور بستر پر لٹا دیا گیا۔میرے بائیں ہاتھ پر آکسی میٹر لگا دیا گیا جس کا ایک سرا اس مانیٹر کے ساتھ جڑا تھا جس کی سکرین پر لمحہ بہ لمحہ بدلتا آکسیجن لیول نظر آرہا تھا۔ میرے دوسرے ہاتھ پر کینولا لگا دیا گیاجہاں سے مختلف انجیکشنز ڈرپ کی صورت میں قطرہ قطرہ میرے جسم میں اتر رہے تھے۔ میرے منہ پر آکسیجن ماسک تھا جس کا دوسرا سرا دیوار پر لگے آکسیجن سلنڈر سے جڑا ہو ا تھا۔ میں پانی پینے کیلئے بستر سے ذرا سا اٹھتا تو آکسیجن کا لیول تیزی سے نیچے گر جاتا اور میں دوبارہ بستر پر الٹا لیٹ جاتا۔ آکسیجن ماسک کے ساتھ الٹا لیٹنا آسان نہ تھا۔ کچھ دیر ایک رخ پر لیٹنے سے گردن میں درد شروع ہو جاتا تو میں بمشکل جسم کو اوپر اٹھا تا اور کروٹ بدل کر منہ دوسری سمت کر لیتا۔ میں نے اسما سے کہا تھا کہ پاکستان سے باہر اپنے بچوں صہیب‘ شعیب اور انعم کو میری بیماری کی اطلاع نہ دی جائے۔ اُدھر ہاجرہ بیٹی اسلام آباد سے لاہور پہنچ گئی تھی۔
آئی سی یو کے سامنے شیشے کی دیوار تھی جہاں سے باہر کا منظر نظر آرہا تھا۔ اتفاق سے میرے کمرے کی شیشے کی دیوار کے بالکل سامنے ایک سٹیشن تھا جہاں پر ڈاکٹرز رپورٹس دیکھتے تھے۔ کچھ دیر بعد بعد ڈاکٹر راشد صدیقی آئے جو سینے کے امراض کے ماہر ہیں انہوں نے کمرے میں آ کر میرا حال پوچھا اور بتایا کہ انہوں نے دوائیوں میں کچھ ردوبدل کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رپورٹس میں بہتری آئی ہے۔ آئی سی یو کے معمولات میں وقت جیسے ٹھہر سا گیا تھا۔ کمرے میں نرسز کی ڈیوٹی کے اوقات تھے‘ صبح آٹھ سے دوپھر دوبجے سے رات آٹھ بجے تک ا ور پھر رات کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ ان نرسز میں سب مقامی میڈیکل کالجز کی تعلیم یافتہ تھیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا دوائیوں کے زیر اثر میرے ذہن میں منظر اور صورتیں گڈمڈ ہو رہی تھیں۔ چند نام جو میرے حافظے میں باقی رہ گئے تھے اور جنہوں نے انتہائی دلجمعی سے اپنی خدمات انجام دیں ان میں عارفہ‘ اقصیٰ‘ زویہ‘ اور رافعہ شامل تھیں یہ سب میری بیٹی انعم کی ہم عمر تھیں۔ ICU کی اس چھوٹی سی دنیا میں مس روبینہ سپر وائزر کے فرائض سر انجام دے رہی تھیں۔ وہ ایک اچھے لیڈر کی طرح اپنی ٹیم کی ہمہ وقت حوصلہ افزائی کرکے انہیں مستعد رکھتی تھیں۔
آئی سی یو میں بستر پر لیٹے لیٹے مجھے شدت سے احساس ہوا کہ انسان اصل میں کس قدر کمزور اور بے بس ہے اور زندگی کے سارے ہنگامے کس قدر بے معنی ہیں۔ اس تمام عرصے میں میرے پاس موبائل فون نہیں تھا۔ اسما نے بتایا کہ فون پر بہت سے لوگ کال اور ٹیکسٹ میسج کر رہے تھے۔ یہ میسج پاکستان اور بیرونِ ممالک سے آ رہے تھے اس سب دوستوں کا بہت شکریہ جنہوں نے اس مشکل وقت میں اپنی دعائوں میں مجھے یاد رکھا۔ انسانی رشتے کتنے اہم اور ضروری ہوتے ہیں اس کا احساس مجھے ان دنوں میں ہوا۔ انہیں مشکل مرحلوں میں دوستوں کا وجود جذباتی سہارا بنتا ہے۔
آئی سی یو میں پہلی رات آئی اور گزر گئی۔ اگلے روز معمول کے مطابق بلڈ ٹیسٹ کیلئے خون لیا گیااور پھر ایکسرے کیا گیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر راشد آئے انہوں نے تازہ رپورٹس اور ایکسرے کا معائنہ کیا۔ کمرے میں آکر میر ا حال پوچھا اور مجھے بتایا کہ رپورٹس پہلے سے بہتر ہیں۔ ایکسرے رپورٹس میں ابھی تک زیادہ بہتری نہیں آئی تھی۔ ابھی تک میری سانسوں کا دارومدار دیوار پر لگے سلنڈر پر تھا۔ چوتھے دن آکسیجن لیول کی صورت حال میں ذرا بہتری آنے لگی تو دن کے بارہ بجے کے قریب نرس نے آکسیجن لیول کو 2mlپر کر دیا۔دو بجے کے قریب یہ فیصلہ کیا گیا کہ تجرباتی طور پر آکسیجن ہٹا کر دیکھا جائے۔ یہ ایک اہم مرحلہ تھا۔ میرے منہ سے ماسک ہٹا دیا گیا اب میری انگلی پر آکسی میٹر کی تار لگی تھی اور میری آنکھیں سکرین پر تھیں۔ جہاں آکسیجن لیول بارڈرڈ لائن پرتھا۔ اس روز مجھے شدت سے احساس ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی دی گئی کئی کتنی ہی نعمتوں کو ہم taken for granted لیتے ہیں۔ اس روز حنبل بڑے شوق سے ایک دکان سے مچھلی بنوا کر لایا لیکن میرے ذائقے کی حِس شاید ختم ہو چکی تھی۔منہ میں جیسے کڑواہٹ گھل گئی تھی اس روز اسما ہسپتال آئی تو یہ دیکھ کر خوش ہوئی کہ میرا آکسیجن ماسک اترا ہوا ہے‘ لیکن ہمارے دل میں یہ دھڑکا ضرور تھا کہ کسی وقت بھی آکسیجن کا لیول نیچے گر سکتا ہے۔ اس روز کئی راتوں بعدمیں آکسیجن ماسک کے بغیر سویا۔ رات کے دو بجے ہوں گے کہ کمرے میں آوازوں سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ مانیٹر پر آکسیجن کا لیول کم ہو رہا ہے۔ نائٹ ڈیوٹی پر نرس کی نظر مسلسل سکرین پر تھی۔ اس نے فوراً میرے چہرے پر آکسیجن ماسک پہنایا اور آکسیجن سلنڈر کا لیول2mlپر کر دیا۔یوں آکسیجن کا لیول اوپر آگیا۔ پندرہ منٹ اس کیفیت کا مشاہدہ کیا گیا‘ اس دوران آکسیجن کا لیول بحال رہا تو نرس نے آکسیجن کا لیول 0.5 پر کر دیا اور اگلے پندرہ منٹ تک اس کا مشاہدہ کیا۔ اڑھائی بجے صورتحال نارمل دیکھ کر میرا آکسیجن ماسک ہٹا دیا گیا۔ ماسک ہٹانے کے بعد بھی آکسیجن کا لیول نارمل رہا۔اب نیند میری آنکھوں میں اُترنے لگی تھی اور پھر نہ جانے کب میں سو گیا۔ اگلے روز صبح تک آکسیجن کا لیول نارمل تھا لیکن دل میں خدشہ تھا کہ کسی وقت بھی آکسیجن کا لیول کم ہو سکتا ہے۔ دوائیوں اور انجیکشنز کا سلسلہ جاری تھا۔ شام تک میری سانسوں کا سلسلہ آکسیجن سلنڈر کے بغیر باقاعدگی سے جاری تھا۔ اس روز کی رپورٹس آئیں تو وہ پہلے سے بہتر تھیں۔ اس رات ماسک کے بغیر مجھے نیند میں مشکل پیش نہیں آئی۔
اگلی صبح حسبِ معمول سارے ٹیسٹ ہوئے ڈاکٹر راشد آئے اور انہوں نے کہا کہ اب آپ کی آکسیجن کا لیول بہتر ہو گیا ہے‘ آج رات آپ کو ICUسے ڈسچارج کر دیا جائے گا۔ آپ یا تو کووِڈ وارڈ کے کمرے میں منتقل ہو سکتے ہیں یا اگر آکسیجن کو مانیٹر کر سکتے ہیں تو گھر بھی جا سکتے ہیں۔ گھر جانے کا تصور ہی خوش کن تھا۔ رات کے تقریباً ساڑھے سات بجے جب میں ICUسے جا رہا تھا تو یہاں کے عملے کے مہربان برتائو کا تاثر اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا۔ علی رضا اور حنبل نے مجھے ویل چیئر میں بٹھایا۔ ویل چیئر سے جب میں ہسپتال کی راہداریوں سے باہر آیا تو ایک عجیب سی آزادی کا احساس ہوا۔ سڑکوں پہ آتی جاتی گاڑیوں کی روشنیاں خوش نما لگ رہی تھیں۔ اس روز سڑکوں پر رش معمول سے زیادہ تھا اور گھر کا راستہ لمبا ہو گیا تھا یا شاید مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا۔میں نے سیٹ سے ٹیک لگا کرآنکھیں بند کی ہوئی تھیں‘ اچانک حنبل نے کہا: گھر آ گیا ہے۔میں نے آنکھیں کھولیں‘ گھر کے گیٹ پر اسما کھڑی تھی‘ اس کے ہمراہ ہاجرہ اور اس کی دو ننھی منی بیٹیاں حسنیٰ اور حریم تھیں۔ میں نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا جہاں سے بارش کی ہلکی ہلکی پھوار اُتر رہی تھی۔ پھر میں نے گیٹ پر کھڑے اپنے پیاروں کو دیکھا اور میرا دل تشکر کے جذبے سے چھلکنے لگا۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved