بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مئی1998 ء میں پاکستان اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر دنیا نے احتجاج تو کیا لیکن جلد ہی دونوں ملکوں کو غیر اعلانیہ طور پر ایٹمی قوت بھی مان لیا۔ اسی سال نومبر میں ایٹمی سازو سامان بنانے والے ملکوں کی تنظیم نیوکلیئر سپلائر گروپ نے نیویارک میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا اور دونوں ملکوں کو اس میں شرکت کی دعوت دی۔ پاکستان کو یہ دعوت نامہ موصول ہوا تو وزارتِ خارجہ میں بحث مباحثے کے بعد فیصلہ ہوا کہ اس میں شرکت کی جائے۔ عبدالباسط کو اس کانفرنس میں بھیجنے کا فیصلہ ہوگیا۔ جس دن انہوں نے نیویارک جانا تھا اس سے ایک روز پہلے جنیوا میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیراکرم نے اس معاملے کوایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر پاکستان کے مؤقف سے جوڑ کرنجانے کیا کیا لکھ بھیجا کہ پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی حالانکہ اس زمانے میں وزارتِ خارجہ کے سیکرٹری شمشاد احمد خان تھے جو کانفرنس میں شرکت کے حامی تھی۔ یقینا کچھ ایسا ہوا ہوگا کہ انہوں نے رائے بدل لی یا کسی اور مصلحت سے اپنا فیصلہ واپس لے لیا لیکن اس کے بعد حالات تیزی سے بدلتے چلے گئے۔ 2006 ء میں امریکا نے بھارت سے غیر فوجی نیوکلیئر تعاون کا معاہدہ کر لیا اور نیوکلیئر سپلائر گروپ میں اس کی شمولیت کی کوشش شروع کردی تو ہماری آنکھیں کھلیں۔ وہ تو بھلا ہو چین کا کہ جس نے امریکا کی یہ کوشش ناکام بنا دی۔ بھارت کے دس سال بعد ہم نے بھی اس گروپ میں شمولیت کی درخواست کر دی لیکن مسئلہ یہ بن گیا کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے جس معاہدے پر دستخط نہ کرنے کی بنیاد پر چین نے بھارت کی شمولیت پر اعتراض کیا تھا اب وہی ہم پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ چین کا جواب دینے کے لیے امریکہ نے چند پاکستانی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرکے ہمارا راستہ بھی روک دیا۔ وہی امریکا جو ایک وقت ہمیں اس گروپ کی کانفرنس میں بلا رہا تھاآج بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس وقت ہم اگر1998 ء میں اس گروپ کی کانفرنس میں شرکت کرلیتے تو تو معلوم نہیں آج کیا صورتحال ہوتی لیکن عبدالباسط جیسے تجربہ کار سفارتکارچوبیس برس بعد یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ پاکستان کو اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا نقصان ہوا۔
ہماری سفارتی حماقتوں کا یہ محض ایک واقعہ نہیں‘ سفارتکاروں کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھ لیں توایسی بے شمار نالائقیوں کی دلخراش داستانیں ہر صفحے پر بکھری ہیں۔ اگلے روز ہمارے ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف بتا رہے تھے کہ پاکستان نے ایسے کئی بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کررکھے ہیں جن کے بارے میں آج تک دستخط کرنے والوں کوبھی علم نہیں کہ ان میں کیا لکھا ہے۔ بس ہمارے افراد بغیر کسی تیاری کے دوسرے ملک کی سیر کو چلے گئے اور اپنے نام کی چڑیا بٹھا کر واپس آگئے۔ یہ سوچا ہی نہیں اس معاہدے کا ہمیں کیا فائدہ یا نقصان ہوگا۔ اس طرح کے معاہدوں کی ایک بہترین مثال چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں اس معاہدے پر دستخط ہوئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ چینی سامان کا سیلاب پاکستان میں آگیا اور یہاں کی صنعتوں کا بھٹہ ہی بیٹھ گیا۔
دوسرے ملکوں کے ساتھ معاہدے تو چلیے پیچیدہ معاملات ہیں‘اپنے ملک میں ہی دیکھ لیں کہ ہم نے اسے بنایا کم اور بگاڑا زیادہ ہے۔ تعلیمی نظام سے لے کر شہروں میں ٹریفک تک‘ ہم نے سب کچھ اتنا الجھا دیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک ہماری سلامتی کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ نااہلی اور بے ہنری کا ایک طوفان ہے جو اسمبلیوں سے لے کرعام آدمی تک اور نائب قاصد سے لے کر چیف سیکرٹری تک سب کو بہائے لیے جارہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ چھوٹے لوگ بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھتے چلے جارہے ہیں جنہیں اپنے اقتدار‘ نوکری یا پوسٹنگ سے زیادہ کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔ اس ماحول میں اگر حکومت درست سمت میں کوئی ایک قدم بھی اٹھا لے تو حیرت ہوتی ہے کہ نالائقی کے مارے ملک میں یہ کیسے ممکن ہوگیا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک باقاعدہ قومی سلامتی پالیسی بنائی گئی ہے‘ جس میں اگلے چار سال کے لیے فوجی‘ معاشی‘ معاشرتی‘ خارجہ پالیسی اور عام آدمی کے تحفظ سے متعلق اہداف طے کردیے گئے ہیں‘ یعنی ہمارے پاس اب ایک پیمانہ موجود ہے جس پر ہم حکومت اور ریاستی اداروں کی کارکردگی کو ناپ سکتے ہیں۔ بظاہر یہ سادہ سی دستاویز ہے جو ایک معمولی پڑھا لکھاآدمی چند دن کے اندر اندر تیار کرسکتا ہے مگرہمارے نظام کواس طرح کی دستاویز کا خیال آنے میں 64 سال لگے اور خیال کو کاغذ پر اتارنے میں دس برس۔
اس پالیسی کا خیال پہلی بار جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اس وقت آیا جب وہ چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ انہوں نے کچھ لوگوں کو اس پر کام کے لیے کہا۔ کام شروع کرتے کرتے ان کی سپہ سالاری کی دوسری مدت اور پیپلزپارٹی کی حکومت گزرگئی۔ پھر یہ کام جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کے سپرد ہوا اور انہوں نے اس پر ابتدائی کام شروع کیا۔ جنرل (ر) جنجوعہ ریٹائرمنٹ کے بعد نواز شریف حکومت میں قومی سلامتی کے مشیر بن گئے توبھی یہ کام ابتدائی مسودے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اس کی وجہ سیاسی عدم استحکام تھا جس نے حکومت کی ترجیحات ہی بدل ڈالیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے بھی ساڑھے تین سال گزر گئے تو یہ پالیسی سامنے لائی جاسکی۔ اگرچہ ڈاکٹر معید یوسف کا دعویٰ ہے کہ اس پالیسی کے لیے ہر وزارت سے مشاورت کی گئی ہے لیکن پاکستان کے وزیروں‘ سیکرٹریوں اور دیگر افسروں کی صلاحیتوں اوران کے ماضی سے واقفیت کی بنیاد پر اگریہ کہا جائے کہ ان میں سے شاید ہی کسی نے یہ پالیسی پڑھی ہو تو یقین مانیے غلط نہیں ہوگا۔
اس پالیسی کی تیاری کا مرحلہ تو چلیے گزر گیا‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں آئندہ چار سال کے طے کردہ اہداف حاصل کون کرے گا؟ اس میں صاف لکھا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا ہر ادارہ اس پر اپنی اپنی حد تک عمل کرے گا۔ یہ توقع پوری ہوجاتی اگر ہماری بیورو کریسی اور سیاستدانوں کو ملک کا اتنا دھیان ہوتا جتنا گدھا گاڑی چلانے والے کو اپنے گدھے کا ہوتا ہے۔ اپنے اپنے ذاتی مفادات کو ملکی مفادات کو قرار دینے والے یہ لوگ کسی قابل ہوتے تو کیا پاکستان کا یہ حال ہوتا؟ ہمارے افسروں کی جملہ انتظامی قابلیت تو یہ کہ مری میں تھوڑی سی برف باری میں سڑکیں صاف نہیں کراسکتے اور لوگ راستے بند ہونے کی وجہ سے بے موت مر جاتے ہیں۔ ہماری پولیس وہ ہے جو ساہیوال میں بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو ماردیتی ہے۔ ہمارے ڈاکٹروہ ہیں جومریضوں کو تڑپتا چھوڑ کرہڑتال پر چلے جاتے ہیں۔ ہمارے استاد وہ ہیں جن کے لیے تعلیم و تدریس بوجھ کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ ہم ان سیاستدانوں سے کوئی امید نہیں باندھ سکتے جو اقتدار کو تو اپنا حق سمجھتے ہیں مگر کارکردگی دکھانے کا فرض ادا نہیں کرتے۔ اس پالیسی میں خوراک میں خود کفالت کو قومی سلامتی سے جوڑا گیا ہے لیکن ہمارے زرعی تحقیق کے ادارے اور ان کے ملازم زراعت سے زیادہ زمینوں کے کاروبار میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ویسے بھی جس ملک کے طول وعرض میں ہر چند میل کے فاصلے پر سرکاری اداروں نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بورڈ لگا رکھے ہوں‘ جس ملک میں کارخانہ لگانا ایک سزا ہوجائے‘ کاشتکار ہونا ایک جرم بن جائے اور پراپرٹی ڈیلنگ قومی پیشے کی صورت اختیار کرلے‘ وہاں پالیسی کا کوئی کاغذ بن بھی جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔