تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     19-01-2022

سٹریٹ کرائمز کی روک تھام کیسے ممکن ہے

چوری‘ چکاری‘ ڈکیتی اور سٹریٹ کرائمز میں ہوشربا اضافے نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا شہر اب ڈکیتوں اور رہزنوں کے رحم وکرم پر ہے۔ کراچی میں گزشتہ دس دنوں کے دوران چھ سے زائد لوگ رہزنوں اور ڈاکوئوں کی سفاکیت کا نشانہ بن کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ صرف کراچی ہی نہیں‘ لاہور اور اسلام آباد بھی سٹریٹ کرائمز میں اس طرح گھر چکے ہیں کہ عوام خود کو غیر محفوظ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان واقعات میں کمی کے بجائے روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ مجرموں کیلئے جلد پیسے کمانے کا یہ سب سے آسان نسخہ ہے۔ مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کیلئے اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل کیلئے سب سے آسان طریقہ چھینا جھپٹی ہے‘ جسے آج سٹریٹ کرائمز کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طریقۂ واردات کا سماج دشمن عناصر کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ 70 فیصد سے متاثرین پولیس رپورٹ ہی نہیں لکھواتے‘ کچھ رو دھو کر اور باقی پولیس اور کچہریوں کے بے مقصد چکروں سے گھبرا کر خاموش رہتے ہیں۔ لاہور کے ایک علاقے میں دو ہفتے پہلے میرے کچھ عزیزوں کو بھی سڑک پر لوٹ لیا گیا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے۔ پولیس کا فوری کال کی گئی‘ پولیس اہلکار کچھ دیر بعد وہاں آئے بھی لیکن بے سود۔
کراچی اور لاہور بالخصوص اس وقت سٹریٹ کریمنلز کے نشانے پر ہیں۔ اگر حکام اس حوالے سے کچھ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو بہت حد تک ان سٹریٹ کرائمز کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی طرز کے جرم کی رفتار جب بڑھنا شروع ہو جائے تو سب سے پہلے چشم دید گواہوں اور واردات کا نشانہ بننے والے متاثرین سے مجرموں کے حلیے‘ ان کے اندازِ گفتگو اور طریقۂ وردات کے حوالے سے معلومات اکٹھی کر کے اس کا جائزہ لینا چاہئے، یہ دیکھنے کیلئے کہ مجرمان انفرادی طور پر کام کر رہے ہیں یا ان کا کوئی گینگ ہے۔ اس کیلئے سب سے متاثرہ علاقے کو ٹارگٹ پر رکھنا ہو گا اور ایک ہفتے میں ہونے والی تمام وارداتوں کا ڈیٹا مرتب کر کے یہ دیکھنا ہو گا کہ ان وارداتوں میں کس طرح کا اسلحہ استعمال کیا گیا۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ان وارداتوں میں اوسطاً فی واردات کتنے مجرم شامل رہے۔ آسان سی بات ہے کہ اگر ایک ہفتے میں پچاس وارداتیں ہوئی ہیں تو متاثرین کی مدد سے ان وارداتوں میں ملوث لوگوں کے حلیے تیار کر کے عبوری اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں کس طرح کے لوگ شامل تھے‘ ان کے پاس کس قسم کا اسلحہ تھا اور ٹرانسپورٹ کون سی تھی۔ اس سے یہ اندازہ بخوبی ہو جائے گا کہ یہ سب ایک ہی طرح کے لوگ ہیں یا مختلف گروہ۔ اس کے علاوہ ان کے لباس وغیرہ پر اگر دھیان دیا جائے تو اس سے ان کی شناخت مزید آسان ہو جاتی ہے۔ اس وقت پورے ملک میں سب سے زیادہ شلوار قمیص پہنی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود ایسی وارداتوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے بعد اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کا تعلق کس علاقے سے ہے۔ جس طرح پنجاب کے مختلف علاقے کے لوگوں کا پنجابی بولنے کا انداز مختلف ہے‘ اسی طرح ان علاقوں میں شلوار قمیص کی سلائی اور اس کا ڈیزائن بھی قدرے مختلف ہوتا ہے۔ ملتان، بہاولپور، لیہ، بھکر، جھنگ، ڈیرہ غازی خان، خوشاب، سرگودھا اور ساہیوال وغیرہ کے لوگوں کے لباس کی سلائی وسطی پنجاب سے مختلف ہو گی۔ ان کے بولنے کا انداز اور لہجہ بھی مختلف ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ ان کا اندازِ گفتگو کیسا ہے‘ یہ کون سی زبان بولتے ہیں۔ اگر پنجابی بولتے ہیں تو بولنے کا انداز سرائیکی ہے یا پوٹھوہاری یا وسطی پنجاب کا لہجہ ہے، سندھی، پشتو، اردو یا افغانی طرز کا اندازِ گفتگو ہے یا مختلف ہے۔ پولیس یکارڈ دیکھنے کے بعد یہ بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی نیا گروہ ہے یا پرانا۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران جیلوں سے رہائی پانے والے یا ضمانتوں پر باہر آنے والوں کا ریکارڈ اور سابقہ طریقۂ واردات کا مطالعہ اور مشاہدہ بھی اس ضمن میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسپکٹر جنرل پنجاب سمیت اعلیٰ افسران جرائم کی بیخ کنی کیلئے دن رات کوشاں ہیں۔ ان کی تمام مثبت کوششیں اپنی جگہ‘ لیکن تھانوں کی پوسٹنگ میں اکثر افسران مار کھا جاتے ہیں۔ قصور سمیت کئی علاقے ہیں جہاں سے پولیس سے متعلق سب سے زیادہ شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ اگر علاقوں کی بنیاد پر پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو محکمے کی کالی بھیڑوں کی بہ آسانی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ اگر اعلیٰ حکام جرائم میں کمی ہی نہیں بلکہ ان کا مکمل خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے انہیں سائنسی اور جنگی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا۔ گو کہ راستہ کٹھن اور محنت طلب ہے لیکن ان کا آج کیا ہوا یہ کام پاکستان کی آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے باعثِ راحت ہو گا۔ سٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کیلئے سب سے پہلے ہر پولیس سٹیشن میں ''بیٹ سسٹم‘‘ کو دوبارہ انتہائی مؤثر طریقے اور سختی سے رائج کرنا پڑے گا۔ ایک وقت تھا کہ ہر بیٹ افسر کا مخبری کا اپنا انداز تھا۔ اسے پتا ہوتا تھا کہ اس کے علاقے میں کون کون سے لوگ ہیں‘ یہ کہاں سے آئے ہیں‘ مقامی ہیں یا غیر مقامی‘ ان کا ذریعۂ معاش کیا ہے‘ ان کے پاس آنے والے لوگ کس طرح کے ہیں‘ کون سے لوگ منشیات کے دھندے میں ملوث ہیں‘ اس کی بیٹ میں نشہ کرنے والے نئے لوگ کون ہیں اور پرانے کون‘ اُن کا ذریعۂ معاش کیا ہے‘ یہ آج کل کس کے پاس زیادہ بیٹھ رہے ہیں‘ کہاں کہاں جا رہے ہیں۔ ایسی بے شمار معلومات بیٹ افسر کی فنگر ٹپس پر ہوتی تھیں۔ اگرچہ آج لاہور کی آبادی اور رہائش گاہیں پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ پولیس کے تھانوں اور نفری کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ گو کہ یہ نفری بڑھتی ہوئی آبادی کی مناسبت سے بہت کم ہے لیکن اگر نیت اور جذبہ ہو تو تعداد کی کمی کام کے جذبے کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتی۔
کسی بھی تھانہ کا ایس ایچ او اس علاقے میں ہونے والے جرائم کا براہِ راست ذمہ دار ہوتا ہے۔ کیا کوئی ایک بھی ایس ایچ او اپنے علاقے میں موجود جوا خانے، شراب خانے، قحبہ خانے، سٹہ بازی کے اڈے، منشیات فروشوں اور جعلی اشیا کی تیاری سے بے خبر ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! جب تھانہ انچارج کا کارِ خاص ہر ماہ اسے تھانے کی حدود میں قائم تمام غیر قانونی دھندوں میں ملوث اڈوں سے منتھلی لا کر دیتا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے اپنے علاقے میں رہنے والے جرائم پیشہ افراد اور ان کے ٹھکانوں کا علم نہ ہو؟ اس وقت لاہور میں اسلحے کی بھرمار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امرا کی شادیوں میں عزیز و اقارب اور دوستوں کے علاوہ علاقے کے ایس ایچ او کو بھی ایک کارڈ بھیجا جاتا ہے جس میں ہوائی فائرنگ کیلئے دس سے بیس ہزار روپے رکھے جاتے ہیں، وگرنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی تھانے کی حدود میں فائرنگ ہو رہی ہو اور علاقے کی پولیس بے خبر رہے؟ سوشل میڈیا پر مختلف تقریبات اور شادیوں میں فائرنگ کی وڈیوز بکثرت موجود ہیں مگر کوئی بے خبر ہے تو علاقے کی پولیس۔
سٹریٹ کرائمز کے حوالے سے اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان میں طلبہ کی ایک معقول تعداد بھی ملوث پائی گئی ہے۔ اس حوالے سے مختلف کالجوں میں موجود طلبہ تنظیموں پر گہری نظر رکھنا ہو گی۔ ان تنظیموں کے مخصوص ورکرز کے گھریلو پتے حاصل کرکے ان کی معاشی حالت‘ ان کے انفرادی رہن سہن‘ ان کے موبائلوں کے برانڈز اور ماہانہ خرچے کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایک حد تک کامیابی مل سکتی ہے۔ پولیس کی مختلف فورسز کے اہلکار اگر دیہاڑیاں لگانے کے بجائے اچھی خاصی ملنے والی تنخواہوں کو غنیمت سمجھتے ہوئے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کریں توکرائمز میں یقینا کمی ہو سکتی ہے۔ محافظ فورس ہو یا ڈولفن‘ اپنے ٹروپس کو مناسب جگہوں پر ڈیپلائے کرنا ہی کسی کمانڈر کا امتحان ہوتا ہے۔ اگر موٹر سائیکل سوار اہلکار ایک دائرے ہی میں چکر کاٹتے رہیں تو اس کا فائدہ نہیں ہو گا‘ اس کیلئے شہر کی آبادیوں کا ایک جائزہ لینا پڑے گا اور پھر اسی تناسب سے انہیں ڈیپلائے کرنا ہو گا۔ ہمارے تفتیشی اداروں کے اہلکار بخوبی جانتے ہیں کہ جرائم میں انڈر ورلڈ اور دہشت گرد تنظیموں کے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں اور ان کے اہداف زیادہ تر بینک، مالیاتی ادارے یا متمول اور مالدار شخصیات ہوتی ہیں۔ جس طرح جرائم پیشہ لوگ پولیس اور قانون نا فذ کرنے والے اداروں کے افراد کو ایک نظر دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں‘ اسی طرح ہمارے ذمہ داروں کو مجرموں کے نفسیاتی ردعمل‘ ان کی لاشعوری حرکات اور فطری گھبراہٹ کو پرکھنے کیلئے پولیس کے اندر جدید خطوط پر ایک تربیتی ادارہ قائم کرنا ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved