تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     02-08-2013

آقا ؐکی قربت

رمضان کا تیسرا عشرہ شروع ہوچکا۔ ملتان کی شدید گرمی میں بھی بیس روزے گزرنے کا پتہ نہیں چلا۔ رمضان زکوٰۃ کے حوالے سے مستحقین اور مخیرحضرات ، دونوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک نہیں کئی ادارے ہیں جو زکوٰۃ کے ترجیحی بنیادوں پر حق دار ہیں۔ کیمو تھراپی کے مرحلے سے گزرتا ہوا کینسر کا شکار حسن آپ کی زکوٰۃ کا منتظر ہے کیونکہ ’’وہ صرف بڑا ہونا چاہتا ہے۔‘‘ میں روزانہ چونگی نمبر 9کے فلائی اوور کے نیچے سے گزرتے ہوئے حسن کی تصویر دیکھتا ہوں تو میرے دل سے اس کی اور اس جیسے سینکڑوں معصوموں کی صحت کاملہ کے لیے دعا نکلتی ہے۔ میری دعا ہے کہ حسن بڑا ہوسکے۔ صحت اور تندرستی کے ساتھ۔ میں اپنی طرف سے زکوٰۃ کا ایک حصہ حسن اور حسن جیسے دیگر بچوں کے لیے بھجوا چکا ہوں۔ ملتان میں تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے لیے کام کرنے والا ایک ادارہ آمنہ تھیلیسیمیا سنٹر کام کررہا ہے۔ میں اس ادارے کا ڈونر ہوں۔ حقیقی مستحقین کی ایک طویل فہرست ہے۔ میں اپنے کالم میں انفرادی امداد اور انفرادی سطح پر چلنے والے اداروں کے لیے بوجوہ نہیں لکھتا۔ جس ملک میں روزانہ غربت کے باعث درجن سے زیادہ مجبور خودکشی کرتے ہوں وہاں انفرادی معاملات پر لکھنا نہایت مشکل امر ہے۔ صرف اسی موضوع پر سال میں تین سو پینسٹھ کالم بھی ناکافی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ میں ہر کیس میں صحیح اور غلط کا تعین نہیں کرسکتا اور تیسری بات یہ کہ اس کے بعد دوسرے مستحقین کی طرف سے نہ ختم ہونے والا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ اسے نبھانا کم ازکم اس عاجز کے بس میں تو نہیں ہے لیکن اجتماعی طورپر ہونے والے کاموں میں ایسا کرتے ہوئے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا کہ ان اداروں کا سارا کام روز روشن کی طرح نظرآرہا ہوتا ہے۔ ایدھی، شوکت خانم، فاطمید، اخوت اور اسی نوع کے اداروں کے بارے میں لکھتے ہوئے دلی اطمینان بھی ہوتا ہے اور ضمیر کو تسکین بھی ملتی ہے کہ آپ کا پیسہ صحیح جگہ پر جارہا ہے۔ میری ذاتی ترجیحات میں یتیم اور تعلیم کی بڑی اہمیت ہے۔ زکوٰۃ اور خیرات کا مستحق خداوند کریم نے عزیز رشتہ داروں کو اور اس کے بعد یتیم کو قرار دیا ہے۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا کہ ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح (قریب) ساتھ ہوں گے ۔‘‘ آپؐ نے یہ کہتے ہوئے اپنی شہادت اور بیچ والی انگلی کو باہم ملا کر صحابہؓ کو مخاطب کیا۔ الخدمت فائونڈیشن پاکستان میں کئی شعبوں میں کام کررہی ہے۔ آفات سے بچائو، صحت، صاف پانی، قیدیوں کی بہبود اور سماجی خدمات۔ الخدمت فائونڈیشن کا آرفن کیئرپروگرام اس سلسلے میں ایک منفرد منصوبہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سترہ سال سے کم عمر یتیم بچوں کی تعداد بیالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس بڑی تعداد میں سے بیشتر بچوں کو تعلیم وتربیت ، صحت اور خوراک کی مناسب سہولتیں میسر نہیں ہیں ۔ یہ بچے نہ صرف معاشرتی اور سماجی محرومیوں کا شکار ہیں بلکہ مستقبل کے حوالے سے ایک نہایت بری صورتحال کی نشاندہی کررہے ہیں۔ تعلیم اور کسی معاشرتی امداد سے محروم ان بیالیس لاکھ یتیم بچوں کی غالب اکثریت‘ روزگار اور سماجی حوالوں سے نہایت ہی ناخوشگوار منظر کا پیش خیمہ دکھائی دیتی ہے۔ زندہ معاشرے ایسے مرحلے پر آگے بڑھ کر اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور اس کے ذریعے معاشرے کے مستقبل کی بہتری میں عملی طورپر شریک ہوتے ہیں۔ معاشرے کی بہتری کا عمل ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے جس سے ہم خود بھی برابر کے فائدہ حاصل کرنے والے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں غربت، دہشت گردی، آفات اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث خط غربت کے آس پاس یا اس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح اموات زیادہ ہے اور نتیجتاً یتیم بچوں کی غالب اکثریت اسی مستحق کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں یتیم بچوں کے لیے نہ تو یتیم خانے بنائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں بے سہارا چھوڑا جاسکتا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن نے ایسے یتیم بچوں کے لیے ’’آرفن فیملی سپورٹ پروگرام‘‘ کے نام سے ایک جامع منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ان یتیم بچوں کی کفالت کا اہتمام ان کے گھروں میں ہی کیا جانا مقصود ہے۔ جو بچے اپنے خاندان کے کفیل نہ ہونے کے باعث بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ان کے لیے اگر ان کاذاتی گھر تو ہے مگر ذرائع آمدنی نہیں ہیں اور وہ اپنی والدہ کے زیرسایہ پرورش پارہے ہیں یا وہ اپنے دادا، چچا ، نانا، ماموں یا کسی اور عزیز کے پاس رہائش پذیر ہیں اور ان کی عمر پانچ سال سے پندرہ سال کے درمیان ہے اس پروگرام کا حصہ بن سکتے ہیں۔ الخدمت نے اس منصوبے کا آغاز گزشتہ رمضان المبارک میں کیا تھا۔ فی الوقت آرفن فیملی سپورٹ پروگرام کے تحت تین ہزار یتیم بچے اس منصوبے سے فیض یاب ہورہے ہیں اور اس سال اس تعداد کو تین ہزار سے بڑھا کردس ہزار کرنے کا ارادہ ہے۔ ملک بھر میں چاروں صوبوں کے علاوہ یہ پروگرام آزادکشمیر، گلگت اور فاٹا میں بھی شروع کردیا گیا ہے اور پورے ملک میں اس سلسلے میں سترہ انتظامی کلسٹر بنائے گئے ہیں جس کی فیملی سپورٹ آرگنائزرز نگرانی کرتے ہیں۔ یہ آرگنائزر بچوں ، ان کے خاندان اور تعلیمی ادارے کے سربراہ سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچوں کو ان کے گھر کے قریبی سکولوں میں داخل کروایا جائے ،بچوں کو گھروں یا سکولوں میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور الخدمت کے جاری کردہ وظائف ان بچوں کی فلاح وبہبود پر ہی صرف ہوں۔ اس پروگرام کے تحت ایک بچے کی کفالت پر ماہانہ دوہزار پانچ سوروپے یعنی سالانہ تیس ہزار روپے خرچ آتا ہے ۔ جس میں اس کی تعلیم ، خوراک، لباس اور صحت کے اخراجات شامل ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب کوئی صاحب دل ایک بچے کے اخراجات اٹھاتا ہے اور اس بچے کو Adoptکرتا ہے تو اسے اس بچے کے بارے میں مکمل آگاہ رکھا جاتا ہے۔ اس بچے کی تعلیمی کارکردگی اور صحت کے حوالے سے بھی ڈونر کو مطلع کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ڈونر کو یہ تسلی رہتی ہے کہ وہ جس مد میں رقم دے رہا ہے وہ صحیح خرچ ہورہی ہے اور اسی بچے پر خرچ ہورہی ہے جسے اس نے سرپرستی میں لیا ہوا ہے۔ ڈونر حضرات حسب خواہش اپنے زیرکفالت بچے سے مل بھی سکتے ہیں۔ یہ ابھی صرف آغاز ہے۔ ابھی اس سلسلے میں کرنے کے لیے بہت کچھ پڑا ہوا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن جہاں گھروں میں رہائش پذیر یتیم بچوں کے لیے ’’آرفن فیملی سپورٹ پروگرام ‘‘ چلا رہی ہے وہیں ’’آغوش الخدمت ‘‘ کے نام سے ادارے بھی قائم کررہی ہے۔ فی الوقت اٹک اور راولا کوٹ میں دو ’’آغوش ‘‘ کام کررہے ہیں جن میںدوسو پینسٹھ بچے مقیم ہیں۔ آغوش پشاور کا آغاز رواں ماہ کے آخری ہفتے میں ہوجائے گا۔ مری میں چارسوبچوں کے لیے کفالت پروگرام کا آغاز ہونے والا ہے۔ اس ماہ مقدس میں یتیم کی کفالت کریں اور روز آخرت رحمت اللعالمینؐ کے ساتھ اس طرح قربت حاصل کریں جس طرح میرے آقاؐ نے اپنی دونوں انگلیوں کو باہم جوڑ کر اشارہ کیا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved