تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     20-01-2022

بھارت میں مسلمانوں کی نسل کُشی کا خطرہ

گزشتہ دسمبر میں بھارت کی ریاست اترا کھنڈ کے شہر ہری دوار میں انتہا پسند ہندو مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس کے سٹیج سے بھارت کے مسلمان شہریوں کے خلاف اتنا زہر اگلا گیا کہ اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہندو مہا سبھا (All-India Hindu Grand-Assembly) اور دیگر انتہا پسند جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنی تقاریر میں ہندوؤں کو بھارتی مسلمانوں کے قتل عام پر اکسایا اور اپنے ہم مذہبوں کو کہا کہ چونکہ بھارت میں مسلمان ہزاروں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں اس لئے انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے آتشیں اسلحہ جمع کریں اور اگر مسلمانوں کو قتل کرنے پر انہیں (ہندوؤں کو) اگر جیل جانا پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کریں۔ ہری دوار کانفرنس میں انتہا پسند ہندوؤں کی ان اشتعال انگیز تقریروں سے جہاں بھارتی مسلمانوں کی جانب سے سخت رد عمل ظاہر کیا گیا ہے، وہاں روشن خیال، ہوش مند، اعتدال پسند اور با شعور ہندو سیاست دانوں، دانش وروں، سیاسی کارکنوں، شاعروں، ادیبوں حتیٰ کہ بعض سابق فوجی افسروں کو بھی ان بیانات کی پُر زور مذمت اور بیانات جاری کرنے والے انتہا پسند ہندو رہنماؤں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
بھارت میں ہندو انتہا پسندی کی سوچ رکھنے والے عناصر کا وجود بہت پرانا ہے اور اس سوچ‘ جسے عرف عام میں ''ہندوتوا‘‘ کہا جاتا ہے‘ کی بنیاد پر منظم ہندو گروہ اور سیاسی جماعتیں ایک عرصے سے سر گرم عمل ہیں، لیکن ملک میں اقلیتوں‘ خاص طور پر مسلمانوں کے لئے خطرے کا باعث کبھی اتنا نہیں بنی تھیں جتنا کہ اب بن چکی ہیں‘ اور اس کی وجہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی 2014ء سے قائم حکومت ہے جو ان انتہا پسندوں کی اقلیتوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں سے مسلسل چشم پوشی اختیار کر کے ان کی بالواسطہ طور پر حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ہری دوار میں ہندوتوا کی حامی سیاست ہندو پارٹیوں اور گروپوں کی طرف سے ہندوؤں کو مسلمانوں کے قتل عام پر اکسانے کا واقعہ ہے۔ بھارت کے طول و عرض میں ان بیانات کی مذمت کی جا رہی ہے۔ مغربی بنگال میں برسر اقتدار ترنمول کانگریس پارٹی، کانگرس اور دیگر تمام سیکولر پارٹیوں نے ان بیانات اور اعلانات کی مذمت کی ہے اور انہیں ملک کے آئین اور قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، مگر وزیر اعظم مودی نے اس معاملے پر مکمل خاموشی بلکہ مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
بی جے پی سے اختلاف رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کو اس پر سخت تشویش لاحق ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ ان بیانات اور وزیر اعظم مودی کی حکومت کی خاموشی کی وجہ سے بھارت میں ایک خونریز خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ یہ تشویش صرف بھارت میں ہی نہیں پائی جاتی بلکہ بھارت سے باہر انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنے والے حلقے بھی ایسے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ آج سے 26 برس پیشتر افریقہ کے ایک ملک روانڈا میں نسلی بنیادوں پر آبادی کے ایک بڑے حصے کو بڑی بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قتل عام یا نسل کشی (Genocide) کی پیش گوئی کرنے والے ماہر اور جینو سائڈ واچ (Genocide Watch) کے بانی ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن (Dr. Gregory Stanton) نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ نرندر مودی کی قیادت میں بھارت بھی 1994ء کی روانڈا جیسی صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک ارب 40 کروڑ آبادی والے ملک میں 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف نسل کُشی کا سنگین خطرہ ہے۔ اپنے اس موقف کے حق میں ڈاکٹر سٹینٹن نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آج سے ڈھائی برس قبل خصوصی حیثیت کے خاتمے اور شہریت کے ترمیمی ایکٹ (Citizenship (Amendmant) Act) کی مثال دی۔ شہریت کے ترمیمی قانون کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت بھارت کے ہمسایہ ممالک، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا شکار ہونے والے ہندوؤں، سکھوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو تو بھارت میں داخل ہونے اور آباد ہونے کی اجازت دی جائے گی‘ مگر ان میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
پروفیسر سٹینٹن کے مطابق اس کی وجہ اس قانون کے تحت 1971ء میں مشرقی پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں آسام آنے اور وہاں بس جانے والے مسلمانوں کو آسام سے بے دخل کرنا ہے۔ شہریت کے اس نئے قانون کے مطابق 1971ء یا اس کے بعد آنے والوں لوگوں کو غیر شہری قرار دے کر ملک بدر کر دیا جائے گا۔ بی جے پی کی مخالف پارٹیوں نے اس قانون کی سخت مخالفت کی تھی‘ لیکن مودی سرکار نے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر اس قانون کو منظور کروا لیا۔ پروفیسر سٹینٹن کے مطابق مودی کی حکومت آسام میں بنگالی مسلمانوں‘ جن کی تعداد تقریباً 30 لاکھ ہے‘ کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتی ہے، جو ہمسایہ ملک میانمار (سابق برما) نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کیا۔ پہلے ان کی شہریت کو کالعدم قرار دیا گیا اور پھر انہیں بزور طاقت ملک بدر کر دیا گیا اور جنہوں نے مزاحمت کی انہیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔
شہریت کے نئے قانون کے تحت مودی حکومت کا منصوبہ صرف آسام تک محدود نہیں، بلکہ پورے ملک میں اس قانون کی بنیاد پر مردم شماری کے ذریعے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کو نشانہ بنانا اس منصوبے میں شامل ہے۔ بھارت میں جمہوری اور سیکولر سوچ رکھنے والے لوگ، جن میں ہندو بھی شامل ہیں، مودی کی اس حکمت عملی کو ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لئے سنگین خطرہ سمجھتے ہیں اور اسے ناکام بنانے کے لئے مختلف اقدامات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اسی ضمن میں بھارت کی سپریم کورٹ میں ایک ریٹائرڈ ہندو جج انجانا پرکاش نے ایک پٹیشن دائر کی ہے، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت عظمیٰ ہری دوار کی کانفرنس کے پلیٹ فارم سے انتہا پسند ہندو رہنماؤں کے مسلمانوں کے قتل عام پر عوام کو اکسانے کے اعلانات کا نوٹس لے کیونکہ یہ ملک کے آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ نے پٹیشن کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے ریاست اترا کھنڈ اور مرکزی‘ دونوں حکومتوں کو نوٹس جاری کر دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس کیس کی باقاعدہ سماعت جنوری کے آخری دنوں میں شروع ہو جائے گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی سپریم کورٹ بھارت کے مسلمانوں کو تحفظ یا کوئی ریلیف فراہم کر سکتی ہے؟ اس سے پہلے ایودھیا اور آرٹیکل 370 کے معاملات پر تو بھارتی سپریم کورٹ مسلمانوں کو مایوس کر چکی ہے۔ اس لئے نہ صرف مسلمان بلکہ اعتدال پسند ہندوؤں کو بھی سپریم کورٹ سے کوئی زیادہ امید نہیں‘ مگر پٹیشن پر عدالت کے ابتدائی اقدام سے یہ تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ ملک پر مودی کی سرپرستی میں ہندو انتہا پسندوں کے راج کے باوجود بھارت میں انسانی قدروں کی حمایت کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور وہ متحد ہو کر انتہا پسندی کا مقابلہ کر سکتے ہیں، پاکستان کی حکمت عملی کیلئے بھی یہ بات مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved