ترقی یافتہ اقوام و ممالک میں بعض اَقدار کی پاس داری ہے، ان میں سے ایک وقت کی پابندی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم اپنی اَقدار کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ہمارا معاشرتی المیہ بن چکا ہے کہ تقریبات خواہ کسی نوعیت کی ہوں، وقت پر شروع ہوتی ہیں اور نہ وقت پر اختتام پذیر ہوتی ہیں، نتیجتاً اگلے روز کی مصروفیات بھی متاثر ہوتی ہیں اور ذہنی و اعصابی تھکاوٹ کے سبب صحت بھی رُو بہ زوال رہتی ہے۔ وقت کی یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری قوم کے پاس صرف وقت ہی ایک ایسی اَرزَاں شے ہے، جسے ہم فراخ دلی سے ضائع کرتے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''پانچ کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے تندرستی کو، محتاجی سے پہلے مال داری کو، مصروفیت سے پہلے فرصت کو اور موت سے پہلے اپنی زندگی کو (غنیمت جانو)‘‘۔ (الجامع الصغیر: 1210)۔
ہماری مذہبی، سماجی اور سیاسی تقریبات کے جب دعوت نامے جاری کیے جاتے ہیں تو باقاعدہ نظام الاوقات درج ہوتا ہے اور میزبان یا داعی کی طرف سے مہمانوں کو تحریری صورت میں یہ تاکید کی جاتی ہے کہ آپ فلاں وقت تشریف لائیں، اس کے لیے انگریزی کا لفظ Sharp تحریر ہوتا ہے، یعنی ٹھیک مقررہ وقت پر اور طے شدہ پروگرام کے مطابق یہ تقریب منعقد ہو گی، مہمانوں کے استقبال اور طعام کا وقت بھی تحریر ہوتا ہے لہٰذا یہ دعوت نامہ ایک ایسا وعدہ ہوتا ہے جو تقریب کا دَاعی بیک وقت درجنوں یا سینکڑوں مہمانوں سے کرتا ہے؛ پس تاخیر کی صورت میں یہ ایک شخص سے وعدہ خلافی نہیں ہوتی بلکہ جتنے مہمان ہیں‘ اتنی وعدہ خلافیاں شمار ہوں گی اور اِسی اعتبار سے اس کا وبال بھی ہو گا۔
اسلام میں ایفائے عہد کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''اور وعدہ پورا کرو، بیشک وعدے کی بابت (آخرت میں) باز پرس ہو گی‘‘ (بنی اسرائیل: 34)، فلاح یافتہ مومنوں کی صفاتِ حمیدہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (2) ''اور وہ جو اپنی امانتوں اور عہد کی (مکمل) پاسداری کرتے ہیں‘‘ (المؤمنون: 8 )، اسی طرح نیکی کے مرتبۂ کمال پر فائز اہلِ ایمان کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: (3) ''اور (یہ وہ لوگ ہیں کہ) جب وعدہ کر لیں تو (پھر) اپنے عہد کی پاس داری کرتے ہیں‘‘ (البقرۃ: 177)۔ اسلام میں قول و فعل کا تضاد انتہائی معیوب بات ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (1) ''اے ایمان والو! تم ایسی باتیں کہتے کیوں ہو، جن پر تم خود عمل نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جس پر تم خود عمل نہ کرو‘‘ (الصف: 2- تا 3)۔ یعنی قول و فعل کا تضاد اور دوغلاپن اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ علمائے یہود کی اسی روش کو ناپسند فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (2) ''کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب (یعنی تورات) کی تلاوت کرتے ہو، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے‘‘ (البقرہ: 44)۔ یعنی کتابِ الٰہی میں قول و فعل اور گفتار و کردارکے تضاد کو ناپسند کیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے احادیثِ مبارکہ میں منافق کی نشانیاں بیان فرمائی ہیں: (1) ''جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، (2) جب بات کرے توجھوٹ بولے، (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، (4) جب وہ معاہدہ کرے تو دھوکا دے، (5) جب جھگڑا کرے تو بدکلامی کرے اور حد سے تجاوز کرے، (بخاری: 33 تا 34)۔
اِسی بے عملی، دَرُوغ گوئی، تضاد بیانی اور قول و فعل کے تضاد کا یہ نتیجہ ہے کہ لوگ تقریبات میں وقت پر نہیں آتے، نیز وقت پر آنے والے کو سادہ لوح اور بے وقوف سمجھا جاتا ہے اور وقت کی پابندی نہ کرنے والے سمجھ دار اور معزز قرار پاتے ہیں، حتیٰ کہ جو لوگ‘ دھوپ ہو یا بارش میں‘ نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے صحیح وقت پر آتے ہیں، انہیں اہمیت نہیں ملتی بلکہ اکرام اُن کو ملتا ہے جو آخری وقت میں دیر سے آتے ہیں اور اُن کے انتظار میں سب کو تکلیف دی جاتی ہے۔ یہ شِعار انتہائی ناپسندیدہ ہے، اگرکسی سبب سے میت کے قریب ترین ولی کا انتظار کرنا پڑے تو ایک حد تک یہ بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اسے ہر شخص کے لیے معمول بنانا قطعاً درست نہیں ہے۔
یہی طرزِ عمل مذہبی تقریبات میں بھی ہوتا ہے اور شاید ہی کوئی تقریب وقت پر شروع ہو پاتی ہو۔ الغرض وقت کی ناقدری ہمارا قومی شِعار بن چکا ہے۔ بعض صورتوں میں رات گئے پچھلے پہر تک محافلِ نعت، میلاد النبی اور سیرت النبیﷺ کے جلسے ہوتے ہیں اور اکثر لوگوں کی فجر کی نماز قضا ہو جاتی ہے۔ مستحبات پر عمل قابلِ تحسین، لیکن اگر اس کے سبب فرائض ترک ہو جائیں تو کسی بھی صورت میں اس کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔
رسول اللہﷺ سے سوال ہوا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے، آپﷺ نے فرمایا: ''نماز کو اپنے مقررہ وقت پر ادا کرنا‘‘ ( بخاری: 527)۔ ترکِ نماز پر تو قرآن و حدیث میں بڑی وعیدیں ہیں، نماز میں تساہُل کو بھی منافقوں کا شِعار قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (1) ''بیشک منافق (اپنے زعمِ باطل میں) اللہ کو دھوکا دے رہے ہیں، حالانکہ اﷲ ان کو ان کے دھوکے کی سزا دینے والا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں توانتہائی بے دلی سے مسلمانوں کو دکھانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں‘‘ (النسآء: 142)۔ (2): ''سوا ن نمازیوں کے لیے افسوس ہے، جو اپنی نمازوں سے غفلت کرتے ہیں (اور) ریا کاری کرتے ہیں‘‘ (الماعون: 5 تا 6)۔ اگرچہ نماز کے وقت میں شریعت نے گنجائش رکھی ہے‘ ابتدائی اور آخری وقت کا بتا دیا گیا ہے، فقہی اعتبار سے مستحب اور مکروہ وقت بھی بتا دیا گیا ہے لیکن بعض اوقات تقریری پروگراموں کی طوالت کی وجہ سے نماز کو مکروہ وقت تک مؤخر کر دیا جاتا ہے یا جمعۃ المبارک کی نماز میں لمبی تقریر کے سبب تاخیر کی جاتی ہے، حالانکہ مساجد میں نمازِ جمعہ کا وقت طے ہوتا اور آویزاں ہوتا ہے، اس کا نقصان یہ ہے کہ لوگ مزید تاخیر سے آتے ہیں۔ پس لازم ہے کہ خطاب اور خطبۂ مسنونہ کو اپنی حد میں رکھا جائے اور نماز جمعہ کو مقررہ وقت سے مؤخر نہ کیا جائے۔ یہی صورتِ حال تعلیمی اداروں، دفاتر اور دیگر شعبوں کی ہے۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس، جن پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اکثر وقت پر شروع نہیں ہو پاتے اور اَرکان کی حاضری کا تناسب بھی شرم ناک حد تک کم ہوتا ہے اور اکثر کورم نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس ملتوی کرنا پڑتے ہیں، جبکہ اراکینِ اسمبلی کے ڈیلی الائونس میں کوئی کٹوتی نہیں کی جاتی۔ سنجیدہ قانون سازی کے بجائے اکثر بے مقصد بحثوں، واک آئوٹ اور شور شرابے پر اجلاس برخاست ہوجاتے ہیں۔
بڑے شہروں میں وقت کے ضیاع کی ایک صورت ٹریفک کا بے ہنگم انداز میں چلنا ہے، ہر ایک دوسروں کا حق مار کر آگے نکلنا چاہتا ہے۔ ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کو اپنی شان دکھانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس تَگ و دَو میں ٹریفک کی قطاریں ٹوٹ جاتی ہیں، ٹریفک پھنس جاتی ہے اور رَوانی موقوف ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگوں کے وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ ٹریفک کنٹرول کرنے کا عملہ بعض بااثر لوگوں کے خوف سے کسی کو روکنے ٹوکنے کی جرأت نہیں کر سکتا، اس کاحل یہی ہے کہ ہم میں خود حقوقِ انسانی کی پاس دَاری کا جذبہ پیداہو اور ایثار سے کام لیں۔ ہمارے ہاں بجلی کا شدید بحران ہے، اس کے باوجود ہم کسی سنجیدہ مصروفیت کے بغیر راتوں کو دیر تک جاگتے ہیں اور صبح دیر سے اٹھتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (1) ''ہم نے رات کو لباس (ستر پوشی) کے لیے اور دن کو (کسبِ) معاش کے لیے بنایا ہے‘‘ (النبا: 10تا 11)۔ (2) ''وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون پائو اور دن کو روشن بنایا (تاکہ تم اس میں کسب معاش کرو)‘‘ (یونس: 67)۔
ترقی یافتہ ممالک میں بازار اور مارکیٹیں سرِ شام بند ہوجاتی ہیں اور صبح معمول کے مطابق کھل جاتی ہیں۔ 7/11 یا 24/7 والی مخصوص دکانوں، جن کے پاس 24 گھنٹے کاروبار جاری رکھنے کا اجازت نامہ ہوتا ہے‘ کے سوا تمام مارکیٹیں مقررہ وقت پر بند ہو جاتی ہیں۔ ہماری کئی حکومتوں نے چاہا کہ آٹھ یا 9 بجے شب تک بازار اور مارکیٹیں بند ہو جائیں، لیکن تاجر حضرات کسی طور پر اپنے معمولات بدلنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہی صورتِ حال ہمارے خدمات فراہم کرنے والے اداروں ریلوے اور پی آئی اے وغیرہ کی ہے۔ الغرض ہمارے پورے نظام کو پابندِ وقت بنانے کی شدید ضرورت ہے، لیکن ہمارے زمینی حقائق اور عمومی مزاج قومی مفاد سے ہم آہنگ نہیں ہیں، دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں کے عروج کا راز وقت کی قدر دانی اور بہتر ین استعمال کے سبب ہے۔
اہلِ دین اور علمائے کرام سے لوگ بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ رول ماڈل بنیں، اس لیے آئے دن کالم نگار بھی علماء کو کوستے رہتے ہیں کہ انہیں عوام کے مسائل کا کوئی اِدراک نہیں ہے اور زمینی حقائق سے نابلد ہیں۔ وہ یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ علماء اپنے خطبات میں سماجی برائیوں اور استحصالی طبقات کے خلاف نہیں بولتے، کیونکہ ان کے خیال میں یہ ان کے زیرِ بارِ احسان اور نمک خوار ہیں۔ ان کا علماء سے ایک شکوہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں ''مائیک فوبیا‘‘ ہے، یہ لاؤڈ سپیکر کی جان نہیں چھوڑتے، خاص طور جمعہ یا عیدین کی نماز بروقت کھڑی نہیں کی جاتی۔ یہ شکوے اور شکایتیں کافی حد تک بجا ہیں۔ کسی انتہائی ناگزیر صورتِ حال کے سوا ہر صورت میں جماعت مقررہ وقت پر کھڑی ہونی چاہیے۔ حدیثِ پاک کی رو سے جس فرض نماز کے بعد سنتیں ادا کرنا ہوتی ہیں، اس کی دعا مختصر ہونی چاہیے۔ اسی طرح بعض اوقات ہماری مذہبی تقریبات یا جلسے ہو رہے ہوتے ہیں، تو جلسے کی کارروائی کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے فرض نماز کی جماعت کو مقررہ وقت سے مؤخر کر دیا جاتا ہے، ہمیں معلوم ہے کہ مشروع وقت میں اس کی گنجائش ہوتی ہے، لیکن عوام پر اس کا اثر منفی مرتب ہوتا ہے لہٰذا بہتر یہ ہے کہ جلسے میں اذان کے وقت وقفہ کر دیا جائے اور نمازِ باجماعت کے بعد جلسے کی کارروائی کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا ہو‘ وہیں سے شروع کر دیا جائے۔ الغرض پابندیِ وقت کو ہمارے معمولات اور قومی مزاج کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ دعوتِ دین کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے اور اس سے صَرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے۔