اکثر بزرگ کہا کرتے تھے کہ اب کہاں وہ سردیاں‘ اب کہاں وہ بارش اور برف باری‘ جو ہمارے زمانے میں ہوتی تھی لیکن اس بار ایسی سردی پڑی کہ اب سبھی چپ ہیں۔ کیا بزرگ‘ کیا جوان‘ کیا بچے‘ سبھی سردی سے کانپ رہے ہیں۔ موسم کی شدت سے سب متاثر ہو رہے ہیں اور کھانسی‘ درد اور بخار سے کراہ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اومیکرون اور کورونا نے بھی سب کو بے حال کیا ہوا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ موسموں کا دورانیہ اب تبدیل ہوگیا ہے۔ ہم سب یہ بات محسوس کررہے ہیں کہ گرمیاں اب طویل ہو گئی ہیں اور سردیوں کی مدت کم مگر شدید ہو گئی ہے۔ سردیاں خشک اور زیادہ شدت کے ساتھ آتی ہیں۔ اس سیزن میں لوگ بیمار ہوتے اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
خاص طور پر ہمارے ملک میں گھر ''سینٹرلی ہیٹڈ‘‘ نہیں ہیں۔ لوگ قدرتی گیس‘ لکڑی‘ کوئلہ اور مٹی کا تیل جلا کر کھانا بناتے ہیں اور گھر کو گرم رکھتے ہیں۔ اس ملک میں گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں؛ تاہم سردیوں میں بہت سے گھریلو صارفین اس نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ وہ نہ تو ہیٹر چلا پاتے ہیں نہ چولہا اور نہ ہی ان کے گیزر پانی گرم کر پاتے ہیں۔ بیشتر لوگوں نے گھروں میں گیس کے سلنڈر رکھے ہوتے ہیں جنہیں اس موسم میں کام میں لایا جاتا ہے۔ اس وقت بیشتر عوام کو نہ تو گیس مل رہی ہے اور نہ ہی نئے گھروں کو گیس کے کنکشن مل رہے ہیں۔ راولپنڈی سے کچھ لوگوں نے شکایت کی کہ جہاں بہت سی نئی تعمیرات ہورہی ہیں‘ وہاں نئے کنکشن کے لیے ایک لاکھ روپے بطور رشوت مانگے جارہے ہیں۔ اکثر ایسے لوگ گیس کے دفاترکے باہر موجود ہوتے ہیں اور مڈل مین کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک لاکھ روپے دو‘ آپ کا گیس کا میٹر لگ جائے گا۔ یہ لوگ سرعام دندناتے پھرتے ہیں مگر عوام کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کچن کا چولہا جلانے کیلئے سلنڈر کا استعمال کرتی ہے جو خطرے سے خالی نہیں۔ بہت سے لوگ‘ جو افورڈ کرسکتے ہیں‘ بجلی کے آلات لگا لیتے ہیں؛ تاہم ایسے بھی کتنے ہی حادثات ہو چکے ہیں کہ جن میں لوگ بجلی کے گیزر کی وجہ سے واش روم میں دم گھٹنے سے یا کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گئے۔
سردیاں گزارنا اس ملک میں کبھی آسان نہیں رہا۔ کبھی گیس غائب تو کبھی بجلی غائب اور کبی موسمی بیماریاں شدت سے پھیل رہی ہوتی ہیں۔ اس وقت بچے دوبارہ سکول جانا شروع ہوگئے ہیں‘ وہ بھی سردیوں میں طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میری ایک سہیلی کا بیٹا اس وقت نمونیا کا شکار ہے۔ وہ کہتی ہے کہ بچے کو سکول میں سزا کے طور پر کلاس سے باہر کھڑا کیا گیا تھا کیونکہ وہ سکول کی اسمبلی میں 5 منٹ لیٹ پہنچا تھا‘ اس سزا کی وجہ سے بچہ بیمار ہوگیا۔ اب ایک ہفتے سے اس کو بخار ہے۔ مجھے اس بات پر شدید حیرت ہوئی کہ آج کے زمانے میں بھی بچوں کوسزائیں دی جاتی ہیں۔ ایک اور عزیزہ نے بتایا کہ سکول کی بس خراب تھی لہٰذا میں نے بچوں کے لیے سکول وین لگوادی مگر اس کی کھڑکیوں کے شیشے نہیں تھے اور میرے بچے کو ٹھنڈ لگ گئی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہر سکول‘ کالج کی اپنی بسیں ہوں اور ہر بچے ان میں کم پیسوں میں آئے‘ جائے مگر یہاں نئی نسل کا خیال کس کو ہے۔
اسی طرح نومولود بچے بھی سردی میں متعدد بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں‘ جن میں نزلہ‘ زکام‘ بخار‘ اسہال‘ کھانسی اور نمونیا عام ہیں۔ چھوٹے بچوں کو سردی سے بچانا بہت ضروری ہے؛ تاہم مائیں انہیں کیسے سردی سے بچائیں جب گیس ہی ناپید ہوجائے‘ بچوں کو نہلاتے اوردھلاتے وقت ان کو سردی لگ جاتی ہے۔ عوام کورونا کے ڈر سے باربار ہسپتال نہیں جاتے اور پاکستان میں ڈاکٹر آن لائن اور فون پر عام دستیاب نہیں ہوتے۔ دوسری طرف حکومت کو یہ روز مرہ کے معاملات شاید نظر ہی نہیں آتے کہ عوام کس کرب سے گزر رہے ہیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ صبح اٹھ کر سب کو کام پر یا پڑھنے بھیجنے سے پہلے خاتونِ خانہ کس مشکل سے گزرتی ہے۔ کبھی چولہا نہیں جلتا‘ کبھی ہیٹر بند ہوجاتا ہے تو کبھی غسل خانے میں گرم پانی نہیں ہوتا۔ لوگ فجر کی نماز کے لیے بھی کیتلی میں پانی گرم کرکے وضو کرتے ہیں۔ جو گھروں سے نکلتے ہیں‘ وہ الگ طرح کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ اکثر سکولوں‘ کالجوں اور دفاتر میں ہیٹر نہیں ہوتے جبکہ کھڑکیوں کے شیشے بھی ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ عوام موسم کے رحم و کرم پر آجاتے ہیں۔ گھر میں تو انسان رضائی‘ کمبل لے سکتا ہے مگر باہر تو ہم اس میں نہیں پھر سکتے، اب صرف یہی چارہ ہے کہ دستانے‘ موزے‘ ٹوپی اور سویٹر پہن کر رکھا جائے؛ تاہم وہ بھی اب غریبوں کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔ لنڈا بازار اور اتوار بازار میں کپڑوں کی قیمتیں آسمان پر چلی گئی ہیں۔ اب غریب کیسے تن کو ڈھانپے؟ شدید سردی میں بھی غریب عوام پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں، پھٹے ہوئے موزوں سے انگلیاں باہر نکل رہی ہوتی ہیں، جرسی میں بھی سوراخ ہوتے ہیں اور کپڑوں میں پیوند لگے ہوتے ہیں۔ انہی پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ وہ پوری سردیاں گزار دیتے ہیں۔
ایک بچہ کو دیکھا جو سڑک پر پنسلیں اور کتابیں بیچ رہا تھا، اس کے جوتے پھٹے ہوئے تھے‘ سڑک پر پانی گرا ہوا تھا جس سے اس کے پائوں گیلے ہو رہے تھے۔ کاش کہ ریاست ان بچوں کو گلے لگائے‘ ان کے آنسو پونچے اور ان کو روٹی‘ کپڑا‘ تعلیم اور سرچھپانے کی جگہ دے۔ میں نے سوچا کہ اس کو کچھ پیسے دے دوں تو وہ کہنے لگا: نہیں باجی! خیرات نہیں چاہیے‘ آپ میرے پاس سے چیزیں خرید لیں۔ اس کی ناک سردی سے بہہ رہی تھی‘ آنکھوں میں بھی پانی تھا لیکن اس نے مجھ سے فالتو پیسے نہیں لیے‘ صرف ان چیزوں کے پیسے پکڑے جو میں نے خریدی تھیں اور پھر وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اب کہیں وہ نظر آیا تو اس کو موزے اور جوتوں کا تحفہ دوں گی‘ شاید وہ تحفہ قبول کر لے۔ یہ بہت خودار اور غیور قوم ہے۔ بہت پیارا بچہ تھا‘ پتا نہیں کس ماں کا جگر گوشہ تھا جو سخت سردی میں محنت کرکے کما رہا تھا۔ ایسے ہی بچوں کا حق مار کر اشرافیہ نے یورپ میں محل بنالیے۔ اگر صحیح احتساب ہوا ہوتا تو وہ آج یوں سڑکوں پر خوار نہ ہو رہا ہوتا۔ اگر ریاست عوام کا نہیں سوچے گی تو کون سوچے گا؟ ہم سب کا بھی فرض ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کریں‘ اپنے کچھ پرانے گرم کپڑے گاڑی میں رکھیں اور کسی مستحق کو دے دیں۔ اگر آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو نئے گرم کپڑے خرید کر عطیہ کریں۔ چادریں‘ موزے‘ ٹوپیاں‘ سویٹر‘ مفلر‘ دستانے‘ ماسک یہ سب کچھ آپ عطیہ کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ کھانے پینے کی اشیا اور نقدی بھی عطیہ کی جاسکتی ہے۔ جتنا آپ دیں گے‘ اس کا کئی گنا واپس آئے گا۔ اب محکمہ موسمیات کی جانب سے بارش اور برف باری کی پیش گوئی کی گئی ہے، غریبوں کی چھتیں ٹپکیں گی اور امیرِشہر موسم کا لطف اٹھائیں گے۔
موسم کی شدت اور تبدیلیوں پر بات کریں‘ ان کو سمجھیں‘ ان کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں۔ اگر بارش یا برف کا طوفان آنے والا ہو تو لوگوں کو بتائیں تاکہ وہ اپنے جان و مال کا تحفظ یقینی بنا سکیں۔ اس کے ساتھ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ان موسمیاتی تبدیلوں سے آگاہ کرے اور ان کو موسم کی شدت سے بچانے کیلئے اقدمات کرے‘ خواہ وہ لانگ رن ہوں یا شارٹ ٹرم‘ عوام کو بچائیں اور ان کا خیال کریں۔ حکمران اس معاملے میں اللہ کو جواب دہ ہیں‘ انہیں اس سے ڈرنا چاہیے۔ وہ ووٹ اس لیے لے کر آئے ہیں کہ عوام کو سہولت مہیا کریں گے۔ سیاست تو کرتے رہتے ہیں لیکن خدمت کیوں نہیں کرتے؟ کس نے ان کو منع کیا ہے؟ کیوں نہیں غریبوں کے رہائشی علاقوں کا معائنہ کرتے؟ کیوں ان کی مدد نہیں کرتے؟ حکومت اور خدمت کا موقع ہر بار نہیں ملتا ‘ لہٰذا جو اللہ کی طرف سے موقع دیا گیا ہے‘ اس کو سیاست کے بجائے تھوڑا عوام کی خدمت میں بھی استعمال کرلیں، مگر شاید لگتا ہے کہ جو بھی حکمرانی کے محل میں براجمان ہوتا ہے‘ اس کی چکاچوند اسے سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ تبدیلی کے نعرے مدھم پڑ جاتے ہیں اور سب کچھ پرانی ڈگر پر چلتا رہتا ہے۔ عوام پر خوشحالی کی راہ تکتے رہ جاتے ہیں اور ہر چیز پر ٹیکس دینے والے سخت سردی میں بھی گیس سے محروم رہتے ہیں۔