تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-01-2022

دانش مندانہ فیصلوں کا وقت

2022ء بھی ہمارے لیے بہت سے چیلنجز لے کر آیا ہے۔ ہم آج بھی آنے والے وقت سے بہتر امیدیں وابستہ کرنے کے عادی ہیں۔ جب بھی سال ختم ہونے پر آتا ہے تب سوچا جاتا ہے کہ نئے سال میں شاید کچھ اچھا ہوگا جو ہماری زندگی کا معیار بلند کرے گا۔ یہ سب کچھ فطری ہے۔ انسان اچھے ہی کا سوچتا ہے۔ دوسری طرف مشکلات ہیں کہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ہمارے لیے ہر آنے والا دن پیچیدہ تر ہوتا ہے۔ 2022ء کی ابتدا کورونا وائرس کے نئے ویری اینٹ 'اومیکرون‘ کے پھیلاؤ سے ہوئی ہے۔ امریکا اور یورپ میں ہاہا کار مچا ہوا ہے۔ بھارت میں بھی صورتِ حال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ پاکستان میں البتہ معاملات اب تک قابو میں ہیں اور لوگ بھی بہت زیادہ خوفزدہ دکھائی نہیں دیتے۔
کوروناکے پھیلائو کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان سپلائی چین کے متاثر ہونے کا ہے۔ دنیا بھر میں ضروری اشیا کی ترسیل بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ طلب و رسد کے فرق نے مہنگائی کی لہر کو دعوت دی ہے اور مہنگائی بھی ایسی کہ عام آدمی بے چارہ نُچڑ کر رہ گیا ہے۔ مہنگائی کے باعث اقتصادی خرابی کی لہر دم توڑنے کا نام نہیں لے رہی۔ عدم مساوات کی خلیج مزید چوڑی اور گہری ہوگئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے سرپلس کی بدولت بہت سے معاملات پر قابو پالیا ہے اور اُن کی معیشتیں اب تک اپنے پیروں پر کھڑی ہیں۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کا حال البتہ بُرا ہے۔
کورونا کی وبا پھیلانے کا الزام کئی ممالک پر عائد کیا گیا‘ ان میں چین نمایاں تھا۔ چین اور امریکا کے مابین اس حوالے سے سرد جنگ بھی چلی جو تجارتی جنگ میں تبدیل ہوئی۔ ویکسین کی تیاری اور اطلاق کے معاملے میں بھی بہت سی خرابیوں نے جنم لیا۔ چین کے علاوہ بھارت اور روس سے بھی امریکا کے معاملات بگڑے۔ کبھی کبھی دو طرفہ کشیدگی پھیل کر متعلقہ خطے ہی کو نہیں‘ باقی دنیا کو بھی لپیٹ میں لیتی دکھائی دی۔ اومیکرون سے اتنا تو واضح ہوگیا کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسین کی محض دو خوراکیں کافی نہیں‘ اگر تیسری کے بعد چوتھی خوراک لینے کا مرحلہ آئے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ امریکا اور یورپ میں دو خوراکیں لینے والے بھی اومیکرون سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مزید ویری اینٹس بھی آسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی چیف اکنامسٹ گیتا گوپی ناتھ کہتی ہیں کہ اگر کورونا کی لہر برقرار رہی تو دنیا بھر میں معیشتوں کو مزید خرابیوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ 2022ء تک دنیا بھر میں کم و بیش 70 فیصد کی حد تک ویکسی نیشن کا ہدف رکھا گیا ہے جبکہ پسماندہ ممالک میں اب تک 5 فیصد بھی ویکسی نیشن نہیں کی جاسکی۔ ایک بار پھر دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کا خدشہ پیدا ہوچلا ہے۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ دنیا بھر میں تجارتی اور صنعتی اداروں کو مطلوب افرادی قوت نہیں مل پارہی۔ کم و بیش ہر ملک میں لاکھوں افراد نے لاک ڈاؤن کے ہاتھوں بے روزگار ہونے کے بعد شہروں کو چھوڑ کر آبائی (دیہی) علاقوں کی راہ لی۔ کورونا کی لہر پر کسی حد تک قابو پانے کے بعد تجارتی و صنعتی ادارے کھولے گئے تو سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا کہ جو لوگ آبائی علاقوں میں جا بسے ہیں اُنہیں کیونکر شہر واپس لاکر افرادی قوت کی کمی پوری کی جائے۔ سمندروں میں مال بردار جہازوں کی ٹریفک بھی پوری طرح بحال نہیں کی جاسکی کیونکہ افرادی قوت کی شدید کمی ہے۔ مال بردار جہاز کم چلائے جانے سے دنیا بھر میں ضروری اشیا کی ترسیل میں خاصی کمی آئی ہے۔ لوڈنگ اور اَن لوڈنگ کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی مختلف اشیا و خدمات کی قیمتوں پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ کاروباری طبقہ بہت پریشان ہے کہ معاملات کو معمول کے مطابق کیسے بنائے۔ سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار میں کمی سے کاروں کی پیداوار بھی گھٹی ہے اور یوں کاروں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اقتصادی خرابیاں 2023ء سے پہلے ختم کرنا کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ دنیا بھر میں توانائی کے نرخ بڑھے ہیں۔ بجلی مہنگی ہو تو صنعتی عمل بھی مہنگا ہو جاتا ہے۔ یوں لاگت بڑھنے سے اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ پس ماندہ ممالک اس صورتِ حال کے ہاتھوں غیر معمولی عدم موافقت کا شکار ہیں۔ امریکا جیسے ملک میں بھی مہنگائی کا معاملہ قابو میں نہیں آرہا تو سوچا جاسکتا ہے کہ باقی ممالک کا کیا حال ہوگا۔ کورونا کی لہر کے ختم ہونے تک سپلائی چین بحال ہونے کا امکان نہیں اور سپلائی چین کی بحالی تک کسی بھی معیشت کو مہنگائی کے قہر سے بچایا نہیں جاسکتا۔ ہائی ٹیک اور دواؤں کے شعبے میں مہنگائی زیادہ بڑھی ہے۔ اس کے نتیجے میں کام کرنے کی صلاحیت و سکت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
دو ڈھائی سال کے دوران کئی خطوں میں غیر معمولی سیاسی خرابیوں نے کورونا سے پیدا شدہ بحران کو مزید گہرا کیا ہے۔ روس نے 2014ء میں کریمیا کو ہتھیالیا تھا‘ اب وہ یوکرائن کو نگلنے کی تیاری کر رہا ہے۔ یوکرائن کی سرحد پر روس نے ہزاروں فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ اگر یوکرائن پر حملہ ہوا تو یورپی ممالک کو روس کے مقابل آنا پڑے گا یا پھر امریکا براہِ راست روس سے ٹکرا سکتا ہے۔ یورپ کے گیس کی کلیدی رسد روس سے ہے۔ اگر روس گیس کی ترسیل روک دے تو یورپ کے لیے انتہائی مشکلات پیدا ہوں گی۔ یہی سبب ہے کہ روس کی کسی بھی عسکری مہم جوئی کے حوالے سے ردِعمل ظاہر کرنے میں یورپ خاصا محتاط رہتا ہے۔ اس کے علاوہ چین‘ امریکا کشیدگی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ دوسری طرف بھارت اور چین کے مابین سرحدی امور پر کشیدگی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں کوئی بڑی غلطی تیسری عالمی جنگ کے آغاز کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر تیسری عالمی جنگ چھڑی تو اِس کے دو ایپی سینٹر ہوں گے۔ ایک یورپ میں اور دوسرا ایشیا میں۔ تمام بڑی قوتوں کو اس حوالے سے بہت محتاط رہنا پڑے گا۔
ورلڈ اکنامک فورم نے 2022ء کے لیے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا کو کئی خطرات کا سامنا ہے۔ بہت سے ممالک کے اندرونی حالات بگڑ کر علاقائی نوعیت کے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے بھارت نمایاں ہے۔ بھارت میں ایک طرف افلاس اور بیروزگاری ہے اور دوسری طرف شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں ہیں۔ بھارت میں معاملات زیادہ خراب اس لیے بھی ہیں کہ وہاں نئی نسل شدید اشتعال کی حالت میں ہے۔ معاشی اور معاشرتی عدم مساوات نے معاملات کو انتہائی خطرناک موڑ پر پہنچادیا ہے۔ دنیا بھر میں معاشی و معاشرتی عدم مساوات کے ساتھ ساتھ اب ویکسین کی بنیاد پر بھی عدم مساوات نے سر اٹھایا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران جو تبدیلیاں اور خرابیاں پیدا ہوئیں اُن سے ماحول کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ایسے میں ہر ملک کی قیادت کو بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہے۔ اس وقت سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ کم ہی لیڈرز ایسے ہیں جو دانش کی بنیاد پر کچھ کہہ رہے ہیں۔ ہر طرف بڑھکیں ماری جارہی ہیں‘ دھمکایا جارہا ہے اور آنکھیں دکھائی جارہی ہیں۔ یہ سب کچھ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ ہر ملک کورونا کی وبا کے ہاتھوں دو سال کے دوران انتہائی نوعیت کی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ اندرونی سطح پر بھی الجھنیں ہیں اور بیرونی سطح پر بھی۔ بہت سے ممالک کے حالات اتنے خراب ہیں کہ معاملات خانہ جنگی تک جاپہنچے ہیں۔ وقت بہت نازک ہے۔ اس موڑ پر ہر قوم کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کی جان پر بنی ہوئی ہے‘ معیشت داؤ پر لگی ہے اور معاشی خرابیوں کے بطن سے پیدا ہونے والی معاشرتی الجھنوں نے حکمرانوں سے عوام تک‘ سبھی کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ایسے میں دانش بنیادی ضرورت ہے۔ ہماری قیادت کے سامنے کئی چیلنج ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج لوگوں کو کم از کم مطلوب معیار کی زندگی فراہم کرنے کا ہے۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہی کا معاملہ درست ہو جائے تو سمجھ لیجیے ہم بھر پائے۔ اس منزل سے گزرنے کے ساتھ جو کچھ بھی مل سکے گا‘ وہ بونس کہلائے گا۔ اومیکرون کے پھیلاؤ کی شکل میں کورونا کی نئی لہر نے قہر ڈھانے کی ٹھان رکھی ہے۔ اِس سے کماحقہٗ نمٹنے کی بھرپور تیاری ہم پر ادھار ٹھہری۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved