تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     21-01-2022

تنگ دائروں سے مانوسیت

مچھلی دریا میں خوش رہتی ہے۔ پھلتی پھولتی‘ لہروں کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتی کھلے ماحول میں ہر دم تیرتی پھرتی ہے۔ اسی طرح پرندے‘ جانور اور انسان بھی اپنی آسودگی کیلئے کوئی آسودہ ماحول اور ٹھکانہ تلاش کر لیتے ہیں۔ وہ سب اپنے احاطوں میں زندگی کا لطف لیتے سارے مراحل طے کرتے ہیں۔ یہ گوناگوں مخلوق موتیوں کی طرح زندگی کے کچے دھاگے میں پروئی وقت کے ساتھ ابھرتی‘ چلتی انجام تک پہنچتی ہے۔ سوچتا ہوں‘ ہم کتنا محدودیت میں زندگیاں گزار دیتے ہیں‘ اکثر پیشوں کی تنگ کوٹھڑیوں میں‘ اور وقت گزرنے کا پتہ تک نہیں چلتا۔ کل ایک اعلیٰ سماجی اور تجارتی شخصیت سے ملاقات ٹھہری تھی۔ پوچھا: کب سے یہاں ہو؟ خود مجھے یقین نہیں آتا‘ اب لاہور میں اکیسواں سال جاری ہو چکا ہے۔ وبا کے گزشتہ دو سالوں میں آنا جانا زیادہ نہ تھا‘ مگر فاصلاتی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا۔ اب دوبارہ مچھلی دریا تو نہیں چھوٹے سے جل میں واپس آ گئی ہے۔ کتنی تیزی سے دو دہائیاں گزر گئیں‘ ایک ہی چھوٹی سی جگہ میں۔ وہی چھوٹا سا دفتر‘ معمولی سا اپارٹمنٹ‘ کیفے ٹیریا‘ چلنے کے راستے اور کرکٹ گرائونڈکا گول چکر۔ اگرچہ کلاس روم بدلتے رہے ہیں اور ہر سال آنے والے چہرے بھی۔ ہم کتنا اپنی محدود جگہوں سے مانوس ہو جاتے ہیں۔ دل لگ جائے تو چھوڑنے کو جی کب چاہے گا۔ دانہ پانی وہاں کا مزا دیتا ہے‘ جہاں دل لگی ہو۔
کئی دنوں سے لاہور کی تیاری میں تھا۔ تڑپ تھی کہ چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی کہ جامعہ کھل رہی ہے‘ جی چاہتا تھا اڑ کر پہنچ جائوں۔ اکثریت کی ترجیح کے برعکس درویش نے کلاس روم میں پڑھانے کی ٹھان لی ہے۔ بہت ساری فکرمندیوں سے ہم نے آزادی حاصل کر رکھی ہے۔ وبا دوبارہ پھیل تو رہی ہے مگر کوئی خوف نہیں۔ احتیاط ہم سب پہ لازم ہے۔ اس وقت دنیا میں لوگوں نے حکومتوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا ہوا ہے کہ پابندیاں ختم کریں اور ہمیں معمول کی زندگی کا اعادہ کرنے کی اجازت ملے۔ دفتروں میں جائیں‘ سب ویز کھلی ہوں‘ پارکوں کی رونق بحال ہو‘ کھیل کے میدانوں میں مقابلے دیکھیں اور ریستورانوں میں قطار اندر قطار کھانوں کا انتظار ہو۔ یہ صرف آزادی کی بات نہیں‘ میرے نزدیک اپنے ماحول میں رچ بس جانے کی نفسیاتی ضرورت ہے۔ دور دراز ایک قصبے میں کبھی ٹھکانہ رہا تو وہاں فالودے کی پیالی ہفتے میں ایک بار ضرور نوش کرتا۔ کئی برسوں کے بعد وہاں پھر جاتا ہوں تو وہ بابا جی اسی طرح برف کی چھوٹی چھوٹی ڈلیاں تھرماس سے نکالتے‘ فالودہ بھی مٹی کی دیگچی سے اور اسی طرح شربت کی دھار اوردیگر لوازمات بکھیرتے۔ بتایا: پاکستان بننے کے بعد دکان ڈالی تھی‘ روزگار چل رہا ہے۔ پوچھا: کوئی اور کاروبارکرنے کا کبھی سوچا ہے؟ جواب تھا کہ بھلا اس سے بہتر اور کیا کاروبار ہو سکتا ہے؟ روزگار میں چاہت اور لگن فطری ہو تو سب کچھ کھیل تماشا سا محسوس ہوتا ہے۔ نہ ذہن پہ بوجھ اور نہ جسمانی کسرت۔ اکثر لوگ ایسے ہی کسی دکان کے گدے یا کرسی پہ بیٹھے دن اور راتوں کے سلسلے اور سانسوں کے رشتے مکمل کرتے ہیں۔ دفتری ہوں یا کارخانوں کے مزدور‘ طالب علم ہوں یا استاد‘ صحافی ہوں یا زمیندار‘ سب ستاروں کی طرح اپنے اپنے مداروں میں گردش کرتے ہیں۔ سب مچھلیاں خوش اگر آب و دانہ اور ماحول من پسند ہو‘ بصورتِ دیگر جینا محال۔
وبا نے دنیا کے ہر گوشے میں جینا محال کر دیا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہیں کہ ذہنی مریض بن چکے ہیں‘ لاکھوں نئے قسم کے نفسیاتی عارضوں کا شکار ہیں۔ جب روٹین ہی اچانک دھماکے سے الٹ پلٹ ہو گئی‘ لوگوں نے اپنے بچوں کے ساتھ گھروں میں بند وہاں سے کام کرنا شروع کر دیا تو کام میں وہ چاشنی نہ رہی۔ گھر تو آرام و آسائش کے لیے ہیں‘ کام کے لیے نہیں کہ وہ ماحول پیدا نہیں کیا جا سکتا‘ جو اداروں‘ بازاروں اورکارخانوں میں ہوتا ہے۔ ذاتی طور پر میں کبھی کسی تنائو کا شکار نہیں ہوا‘ اور ہم نے جلد ہی برقی فاصلاتی تدریسی نظام کو گلے لگا لیا کہ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا۔ کوئی مشکل پیش نہ آئی‘ مگر سچ پوچھیں کہ کوشش تو بہت کی‘ مگر اس میں خامیاں ہی خامیاں نظر آئیں۔ کہاں کلاس روم کا ماحول اور کہاں یہ کمپیوٹر کی سکرین پر منعقدہ اجلاسوں کا سلسلہ۔ میرے معاون اس کوشش میں رہتے کہ طلبا کیمرے پر نظر آتے رہیں۔ ان میں وہ بھی تھے جو سوال کرتے اور بحث میں حصہ لیتے‘ مگر اکثریت حاضری لگوانے سے زیادہ متحرک دو سال کے عرصے میں نظر نہ آئی۔ دنیا کے دیگر حصوں میں رسائل‘ میگزینوں اورکتابوں میں وبا کے سماجی‘ اقتصادی اور انسانی صحت کے حوالوں سے بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ جو کچھ دیکھ پایا ہوں‘ سب میں بنیادی موضوع ''مچھلی اور دریا‘‘ کا ہے کہ مچھلی کے دریا کا پانی خشک یا گدلا ہونے لگے تو اس کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
عصرِ حاضر کی انسانی تاریخ میں اتنی بڑی وبا نے آناً فاناً دنیا کے گوشے گوشے کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیا۔ جو اثرات اب نمایاں ہو رہے ہیں‘ غالباً اس سے پہلے والی انسانی زندگی کا احیا ممکن نہ ہو سکے۔ اب بعد از وبا نئے سرے سے مرتب ہوتے ہوئے سماجی‘ سیاسی اور اقتصادی ماحول کو دیکھنا ہوگا کہ کیا رنگ اختیار کرتا ہے۔ دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ ایسے نہیں کہ مغربی جمہوریت کئی نوع کے بحرانوں سے گزر رہی ہے‘ اور امریکی جمہوریت اور شہریوں اور ریاست کے درمیان رشتوں کے سر اٹھاتے ہوئے مسائل کا تعلق صرف سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست اور غیر روایتی سیاسی رویوں سے ہے۔ اس کے پس منظر میں وبا کے دور کے سماجی اور اقتصادی مسائل بھی ہیں۔ سب حکومتوں کی کوشش ہے کہ معمول کی زندگیاں بحال کریں‘ مگر کیسے کہ بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ صنعتیں‘ تجارت‘ کاروبار‘ بہت تباہ اور بہت تبدیل ہو چکے ہیں۔ آن لائن کاروبار میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جہاں نئے پیشے وجود میں آئے‘ وہاں بیشمار بے روزگار بھی ہوئے۔
ہمارے ہاں تو سماجی دریا کا پانی عرصے سے گدلا ہوتا رہا ہے۔ وبا نے کچھ زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ ہم سب انسانی ''مچھلیاں‘‘ مشکل سے باہر منہ نکال کر سانس لینے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اجتماعی طور پر حالات جوں کے توں ہیں۔ عجیب کرب میں ہیں۔ نہ پانی صاف ہوتا ہے‘ نہ ماحول بدلتا ہے اور نہ ہم سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ ایک مسلسل بحران ہے کہ کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ کل جس اعلیٰ شخصیت سے ملاقات ہوئی‘ وہ صاحب ہمیشہ پوچھتے ہیں ''بتائیں پاکستان کا کیا بنے گا؟‘‘ میں نے کیا جواب دینا ہے؟ کاش جواب میرے پاس ہوتا۔ میں بھی آپ لوگوں کی طرح حالات کے جبر پر کڑھتا ہوں‘ مگر امید کی مدہم روشنی پہلو میں ضرور رکھتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا‘ فرمایا ''عمران خان نے بہت مایوس کیا‘‘۔ میرا بھی یہی خیال ہے‘ مگر یہ بھی نظام کی گرفت میں محبوس رہ کر تھک ہار کر کنارے ہو گئے تو عوام جن کو فتح کے ہار پہنائیں گے‘ وہ دو مشہور بادشاہی گھرانے تو ہم نصف صدی سے آزما چکے۔ ہم یقیناً بڑے سماجی دریا سے نکل کر اپنے ادارے کے تالاب میں ڈبکیاں لگا کر نہال ہوتے رہیں گے۔ پہلے ہی سے یہاں کی قدرتی مچھلی ہیں۔ دکھ سکھ‘ سکون‘ آرام و راحت اور سب سے بڑھ کر جیب خرچی یہاں سے ملتی ہے۔ ہمارا رونق میلہ ان دیواروں کے اندر ہے۔ باہر کی دنیا سے کیا لینا دینا؟ بڑے لوگ‘ ان کے حواری‘ حاشیہ بردار اور گماشتے جانیں اور کاروبارِ مملکت جانے‘ ہم کتابی‘ خیالی لوگ اپنے تنگ گھروں میں کچھ شمعیں جلائے رکھیں گے۔ نہ جانے روشنی کہاں تک پھیلے۔ اب سب کی خوشی اپنے حال پہ خوش رہنے میں ہے۔ انقلاب ہم نے دیکھ لیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved