تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     21-01-2022

جھنڈا اور ڈنڈا

سانحہ مری میں ناحق مارے جانے والوں کو انصاف کی فراہمی کے طور پر 15 افسران کو ذمہ دار ٹھہرا کر عہدوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ بزدار کا کہنا ہے کہ انکوائری میں تمام محکمے غفلت کے مرتکب پائے گئے؛ تاہم انہوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ مری کی سرد راہوں پر بے یارومددگار اذیت ناک موت سے دوچار ہونے والوں کی روحیں عرش پر وزیر اعلیٰ صاحب کی شکر گزار ہوں گی کہ انہوں نے ناحق ہلاکتوں کے ذمہ داروں کا ناصرف سراغ لگایا بلکہ انہیں معطلی جیسی عبرتناک سزائیں بھی سنا ڈالیں۔ اسے کہتے ہیں فوری انصاف۔ ادھر سانحہ رونما ہوا اُدھرتختِ پنجاب حرکت میں آیا اور چند دنوں میں ہی غفلت کے مرتکب افسران کو دھر لیا گیا۔ افسران کا دھرا جانا اس دھرتی پر معمول بنتا چلا جا رہا ہے۔ سبھی سانحات اور حادثات کے اسباب اور وجوہات میں ایک ہی قدرِ مشترک نکلتی ہے کہ فلاں افسر اور فلاں محکمے نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اس لیے حادثہ یا سانحہ رونما ہوا۔
خدا جانے ایسی تحقیقات میں متعلقہ وزیر اور ان عوامی نمائندوں کو کیوں شامل نہیں کیا جاتا جو عوام سے ووٹ اس نام پر لے کر آتے ہیں کہ وہ برسراقتدار آکر حکمرانی کے وہ سبھی جوہر دکھائیں گے جن کے نتیجے میں عوام کی زندگیاں آسان اور پرسکون ہو جائیں گی۔ اقتدار میں آنے کے بعد جوں جوں ان کی حکمرانی کے 'اصلی جوہر‘ کھلتے جاتے ہیں ان کی اہلیت اور قابلیت کے ساتھ ساتھ نیت اور ارادوں کے بھید بھی کھلتے چلے جاتے ہیں۔ مہذب دنیا میں حکمران طبقہ حادثات اور سانحات سے بری الذمہ نہیں رہ سکتا۔ یہ بے نیازیاں اور لاتعلقیاں صرف ہمارے ہاں ہی برتی جاتی ہیں۔ سانحہ مری پر بھی لگتا ہے تحقیقات روایتی انداز میں کی گئیں جس میں جائے وقوعہ سے لے کر افسران کی ذمہ داریوں تک کے جائزے اور بیانات کے بعد سرکاری افسران کو ذمہ دار ٹھہرا کر معطلیوں اور انکوائریوں کا پروانہ جاری کردیا گیا ہے‘ لیکن پالیسی اور طرز حکمرانی سے پہلوتہی کرتے ہوئے کئی اسباب نظر انداز کردیے گئے۔
موسمی اور جغرافیائی اعتبار سے مری سمیت دیگر سبھی سیاحتی مقامات مخصوص اہمیت اور نوعیت کے حامل ہیں۔ ایسے علاقہ جات میں روایتی طرز حکمرانی سے باہر نکل کر فیصلے نہ کرنے سے یہ سانحہ رونما ہوا ہے۔ مری میں سرکار نے تین سال میں آٹھواں اسسٹنٹ کمشنر تعینات کرکے خدا جانے گورننس کے نام پر کون سی چیمپئن شپ جیتی ہے؟ اس تناظر میں کسی بھی اسسٹنٹ کمشنر کو اوسطاً تین چار ماہ سے زائد کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ جب تک کوئی اے سی مری میں کم از کم ایک سیزن نہ گزارے اسے موسم کی بے اعتدالیوں اور شہری سہولیات سمیت دیگر مسائل کا علم کیسے ہوسکتا ہے؟ تجربے اور مشاہدے کے بغیر صرف ماتحت عملے کی بریفنگ اور ڈی بریفنگ سے فیصلوں اور اقدامات میں غلطی اور کوتاہی کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔
ناتجربہ کاری اور تکنیکی معاملات سے لاعلمی حادثات اور سانحات کی پرورش کرتی ہے جبکہ مطلوبہ ویژن کے فقدان کی وجہ سے ہنگامی حالات میں درست سمت سجھائی نہیں دیتی۔ عدالت نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا وجہ ہے‘ تین سال میں 7 اسسٹنٹ کمشنر تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ انکوائری کے نتیجے میں معطل ہونے والا اسسٹنٹ کمشنر مری میں تعینات ہونے والا آٹھواں افسر تھا اور خیر سے اب نواں اسسٹنٹ کمشنر ساڑھے تین سالوں میں تعینات ہوچکا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ دیگر انتظامی افسران کے بارے میں حکومتی پالیسی اور رویہ بھی یہی ہے۔ راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر سے لے کر سی پی او سمیت دیگر اعلیٰ افسران بھی نہ رکنے والے تبادلوں کے ریلے میں بہتے ہوئے راولپنڈی میں آ کر تعینات ہوئے تھے جبکہ صوبائی دارالحکومت سمیت صوبے کے تمام اضلاع میں انتظامی مشینری کی مطلوبہ کارکردگی تبادلوں کے سیلاب کی نذر ہوتی چلی جارہی ہے۔ پے در پے تبدیل ہوتے چیف سیکرٹری اور آئی جیز ملکی تاریخ میں یقینا تبادلوں کا ریکارڈ توڑ چکے ہوں گے۔ تخت پنجاب نہ کسی آئی جی کی کارکردگی سے مطمئن ہے اور نہ ہی کسی چیف سیکرٹری کی۔ گویا سبھی خرابیوں کی جڑ بیوروکریسی ہے۔
پوری انصاف سرکار کا مائنڈسیٹ یہی لگتا ہے کہ بیوروکریسی نہ تو خود کام کررہی اور نہ ہی کوئی کام چلنے دے رہی ہے؛ چنانچہ وہ اپنی ناقص کارکردگی کا ذمہ دار بیوروکریسی کو ہی قرار دیتی چلی آرہی ہے جبکہ صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ جب وزرا اپنے کام دھندوں اور پروجیکٹس کے استحکام اور فروغ کیلئے بیوروکریسی سے جانبداری اور تعاون طلب کرتے پھریں گے تو کیسے ممکن ہے کہ بیوروکریٹ اپنے متعلقہ وزیر کو ذہنی طور پر اپنا باس تصور کرے۔ باس ہی سوالی بن جائے تو انتظامی مشینری تعاون کی قیمت وصول کیوں نہ کرے؟ کچھ وزیر ہائوسنگ پروجیکٹس کے کنسلٹنٹ نظر آتے ہیں تو کئی وزیر ان کی سہولت کاری کیلئے سرکاری محکموں میں جوتے گھساتے پھرتے ہیں۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ صرف سرپرستی اور سرکاری محکموں کی ذمہ داری لینے کے عوض اکثر حکومتی چیمپئنز ہائوسنگ پروجیکٹس میں حصے دار بن بیٹھے ہیں جبکہ دیگر کاروباری شعبوں میں بھی یہی ماڈل مقبول اور جاری ہے۔
بیوروکریسی کے دست نگر بن کر حکومتی رٹ اور کارکردگی کا خواب تو خواب ہی رہے گا۔ ایسے میں بیوروکریسی کو کوسنے اور ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے اس ریس کو روکنا ہو گا جو وزیروں اور مشیروں کے درمیان جاری ہے۔ جب یہ ریس رکے گی تو وزیر‘ وزیر لگتے نظر آئیں گے۔ اپنے ہی متعلقہ سیکرٹری کے پاس کاموں کا پلندہ اٹھائے خود چل کر جانے والے وزیروں کے کام ہی ناقص کارکردگی کا باعث ہیں۔ مفاد عامہ کے کاموں کیلئے نہ کسی وزیر کے پاس وقت ہے اور نہ ہی یہ ترجیحات میں شامل ہیں۔ وزیروں اور مشیروں کے کام اگر مفاد عامہ اور عوام سے متعلق ہوں تو کسی وزیر کو سیکرٹری کے آفس جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ الٹا سیکرٹری یا ماتحت مشینری کو اپنے آفس بلانے کی پوزیشن بحال ہو جاتی ہے۔ معاملہ صرف ترجیحات اور بس مفادات کا ہے۔
انصاف سرکار کے اکثر چیمپئنز نے ہول سیل تبادلوں کی پالیسی سے جو نقصان حکومتی ساکھ اور رٹ کو پہنچایا ہے اس کا ازالہ دن بہ دن مشکل اور ناممکن ہوتا چلا جارہا ہے۔ اقتدار کی مختصر اور بقیہ مدت میں بھی یہی تجربات اور پالیسیاں جاری و ساری ہیں۔ کسی سانحہ یا حادثہ کا ذمہ دار سرکاری افسر کو ضرور ٹھہرائیں‘ اس کی کوتاہی اور غفلت کو بھی منظر عام پر ضرور لائیں لیکن ان 'سماج سیوک‘ نیتائوں کے کردار اور ذمہ داریوں کا بھی کوئی تعین ہونا چاہیے کہ جھنڈے والی گاڑی، تام جھام، موجوں اور اختیارات کا کیا جواز ہے؟ فرائض منصبی سے لے کر انتخابی وعدوں اور دعووں تک جب کچھ پورا ہی نہیں ہوا تو یہ آنیاں جانیاں کس کھاتے میں؟ اختیارات اور سہولیات کے تناسب سے ذمہ داریوں کا کچھ تو احساس اور جوابدہی ہونی چاہیے۔
ماضی کے ادوار میں عمران خان صاحب ٹرین حادثہ پر بھی وزیر ریلوے کے استعفے کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ اس تناظر میں انصاف سرکار کے وزرا کی کارکردگی اور اکثر نالائقیوں پر تو استعفوں کے انبار لگ جانے چاہئیں۔ یہ کیسا طرز حکمرانی ہے؟ کہاں کی گورننس ہے کہ وزارتوں پر موجیں وزیروں کی‘ بَلی کے بکرے انتظامی مشینری کے۔ جب اقتدار اور اختیار میں حصہ داری برابر کی ہے تو ذمہ داری اور جوابدہی صرف سرکاری بابوئوں کی ہی کیوں؟ وزیروں اور مشیروں کے ردِ بلا کے لیے سرکاری بابو بَلی کے بکرے کب تک بنتے رہیں گے؟ اس روایتِ بد کا کوئی تو انت ہونا چاہئے۔ جھنڈے لگا کر پھرنے والے وزیروں پر جب بھی کوئی آزمائش اور جوابدہی کا مرحلہ آیا تو خود جھنڈے میں پناہ لے لیتے ہیں اور افسران کو اسی جھنڈے کے ڈنڈے کا ہی سامنا رہتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved