بالآخر فخرو بھائی مستعفی ہوگئے۔ دراصل یہ انگوٹھے پر خون لگا کر شہید کہلانے کی کوشش ہے کیونکہ وہ اپنا اعتماد شروع ہی سے کھوچکے تھے۔اندرونی کہانی کے مطابق آپ کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف تھا اور آپ اس کے خلاف عمل کرنا اور الیکشن کمیشن کی آزادی و خود مختاری کا دفاع کرنا چاہتے تھے لیکن دوسرے چار میں سے تین ارکان نے ان کا ساتھ نہ دیا جس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ وہ اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ کام نہیں کرسکتے اور اس طرح مستعفی ہوگئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اصل وجہ یہی تھی تو انہیں اپنے استعفے میں بیان کرنا چاہیے تھی تاکہ استعفے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں آتی۔ دوسرے یہ کہ وہ اس معاملے میں خود مختار تھے اور جو کچھ وہ کرنا چاہتے تھے، ساتھیوں کی مرضی کے بغیر بھی کرسکتے تھے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ سپریم کورٹ میں جب راجہ ظفر الحق کی درخواست دائر ہوئی تو موصوف نے بیان دیا تھا کہ سپریم کورٹ جو فیصلہ کردے وہ اس کے مطابق عمل کریں گے۔ اس بیان کے بعد بھی اس فیصلے سے ان کے اختلاف کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ چنانچہ یہ کہانی بھی قابل اعتبار نہیں ، اس لیے بھی کہ اگر انہیں فیصلے سے واقعی اختلاف تھا تو وہ خود بھی اس کے خلاف سپریم کورٹ میں جاسکتے تھے لیکن وہ نہیں گئے۔ اگر اسے جانبداری نہ بھی کہا جائے تو یہ ان کی کمزور ی ضرور تھی جس کا مظاہرہ وہ انتخابات کے دوران مسلسل کرتے رہے۔ مثلاً اگر ان کا یہ مطالبہ مان لیا گیا تھا کہ فوج کے جوان موقع پر موجود ہوں گے تو انہوں نے پولنگ سٹیشنوں سے باہر کھڑے ہو کر کیا کرنا تھا۔ فخرو بھائی نے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا کہ ایک یا دو جوان پولنگ سٹیشن کے اندر بھی موجود رہیں جہاں مبینہ طور پر یہ سارا گھپلا ہورہا تھا۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 63, 62 کو جس طرح مذاق بنا کر رکھ دیا گیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ کسی باقی دار سے یہ نہیں پوچھا گیا کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ نہ ہی ایف بی آر یا کسی بینک سے امیدوارکے مالی معاملات کے بارے میں کچھ پوچھنے کی زحمت اٹھائی گئی کہ یہ ڈیفالٹر تو نہیں ہے ؛البتہ امیدواروں سے غیر ضروری اور حد درجہ مضحکہ خیزسوالات ضرور پوچھے جاتے رہے۔ علاوہ ازیں جن پولنگ سٹیشنوں ہر بونگ مچائی گئی یا جن کے باہر ہوائی فائرنگ کی گئی، وہاں بھی کوئی ایکشن نہ لیا گیا اور اس سلسلے میں سارے اختیارات گویا صندوق میں بند کرکے مقفل کر دیئے گئے۔ بوگس ووٹ ڈالے جانے کی اطلاعات کے ساتھ ساتھ عملے کی طرف سے ٹھپے لگائے جانے کی شکایات بھی منظر عام پر آئیں لیکن الیکشن کمیشن کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ کئی حلقوں کے نتائج کئی کئی دن تک روک لیے گئے اور کوئی معقول وجہ بھی نہ بتائی گئی۔ دھاندلی کا بلند بانگ شور بھی مچتا رہا۔ لوگوں نے پرزور احتجاج کیا اور کئی کئی دن تک دھرنے بھی دیئے گئے۔ پھر عمران خان نے چار مخصوص حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کے نشانات انگوٹھا کی پڑتال کے لیے باقاعدہ مطالبہ کیا تاکہ جعلی ووٹوں کی پڑتال ہوسکے لیکن اسے بھی درخور اعتنا نہ سمجھا گیا۔ حتیٰ کہ یہ تاثر عام ہوگیا کہ انتخابات میں زبردست دھاندلی کی گئی ہے اور اس طرح ایک جماعت کی بے جا حمایت کی گئی ہے۔ اس کے باوجود فخرو بھائی نے شفاف الیکشن کروانے پراطمینان بلکہ فخر کا اظہار کیا ہے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن میں دھا ندلی نہ بھی ہوئی ہو تو بھی ظاہر یہی ہوتا تھا کہ یہ کام بڑے پیمانے پر سرانجام دیا گیا ہے ،جبکہ چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے کسی بھی مقام پر کسی خلاف ورزی کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ اب آتے ہیں عمران کے الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے بارے میں فرمودات کی طرف۔ اگرچہ معاملہ اب عدالت میں پہنچ چکا ہے اوراس بارے میں زیادہ اظہارِ خیال نہیں کیا جاسکتا؛ تاہم پہلی بات یہ ہے کہ یہ الزامات کافی عرصے سے لگ رہے تھے لیکن ان پر الیکشن کمیشن نے نہ کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی اسے کوئی اہمیت دی۔ بلاشبہ عمران خان نے ایک غیر ذمہ دارانہ بات کی کیونکہ اگر موصوف کو عدلیہ سے کوئی شکایت تھی تو وہ فوراً پیش ہوجاتے یا کسی حکم پر نظرثانی کی درخواست کرسکتے تھے جو انہوں نے نہیں کی اور بالکل ہی سیدھے ہوگئے۔ اسی حوالے سے ایک دلچسپ صورتحال یہ بھی پیدا ہوئی ہے کہ عمران خان کے اس راگ میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہوگئی ہے جس نے نہ صرف عمران خان کی حمایت کی ہے بلکہ سردار لطیف کھوسہ تو اس سے بھی آگے تک چلے گئے۔ ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے دوسرے ارکان کوبھی مستعفی ہونا چاہیے یعنی عمران خان کے بیانات سے پیپلزپارٹی والوں کو بھی اخلاقی مدد ملی ہے اور ان کے نئے پرانے زخم بھی جاگ گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر عدالت کے ہر فیصلے کے خلاف اپیل یا نظرثانی کی گنجائش موجود ہے تو یہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے ان کے خلاف بیان بازی کا ہرگز کوئی جواز نہیں ہے۔ لطیف کھوسہ کو اگر کوئی شکایت تھی تو وہ بھی احتجاج کے علاوہ عدالت کادروازہ کھٹکھٹا سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ بحران پیدا کرنے کی ایک سوچی سمجھی سکیم ہے جس کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ دوسرے کئی اداروں کو تو سابق حکومت نے تباہ کردیا اوراگر ایک ادارہ بچ ہی رہا ہے تو یہ لوگ اس پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کو نظرانداز کررہے ہیں کہ اس مہم جوئی کے نتائج کس حد تک ملک مخالف اورخطرناک ہوسکتے ہیں! آج کا مطلع برسنا ہے کہیں اس کو نہ کُھل کر چھانے والا ہے فلک پر ابر کوئی اور ہی لہرانے والا ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved