وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے قوم کو خوشخبری دی کہ ''گزشتہ مالی سال میں معاشی ترقی کی شرح 5.37 فیصد رہی، تجارت اور زراعت میں اضافہ ہوا، صنعت میں 7.8 فیصد گروتھ ہوئی، موجودہ حکومت کو ریکارڈ تجارتی خسارہ ملا، ترسیلات زر اور برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوا، عالمی ادارے رپورٹ دے رہے ہیں کہ پاکستان کی ترقی کی رفتار تیز ہوگی۔ صنعت میں 7.8 فیصد اور خدمات میں 5 فیصد اضافہ ہوا، گردشی قرضے میں دوگنا کرایہ ادا کررہے ہیں، 400 ارب روپے کے بجائے 800 ارب روپے دے رہے ہیں، گردشی قرضہ بھی نیچے آنا شروع ہو گیا ہے‘‘۔
یہ خوشخبری پارلیمنٹ سے منی بجٹ کی منظوری کے بعد سنائی گئی۔ منی بجٹ میں اربوں روپے کے نئے ٹیکسز لگائے گئے، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں جبکہ آٹا 90 روپے کلو مل رہا ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ ترقی کا مفہوم سمجھ سکوں، یہ کیسی ترقی ہے کہ افراط زر تاریخی بلندیوں پر ہے، بے روزگاری عام ہے، توانائی کی قیمت قابو سے باہر ہے۔ اسی کوشش میں معروف ماہر معیشت اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق کا 2005ء میں دیا گیا ایک انٹرویو دوبارہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ برطانوی میڈیا کو دیئے گئے اس انٹرویو میں ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کی معیشت پر بات کرتے ہوئے ملک کو درپیش چار طرح کے خساروں کا ذکر کیا تھا۔ ان کے مطابق ''پاکستان میں اصل میں چار مختلف طرح کے خسارے ہیں جن میں اوّل ذہنی خسارہ ہے، دوم ترغیبات کا خسارہ، سوم ماحول کا اور چہارم ثقافت کا خسارہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک یہ خسارے دور نہیں کئے جاتے پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔
ان کے مطابق ذہنی خسارہ سب سے بڑا خسارہ ہے، پاکستان میں خیالات کی جنگ مفقود ہے۔ مختلف حکومتیں رواروی میں کچی پکی پالیسیاں بناتی ہیں اور ان کو پاکستان پر تھوپ دیتی ہیں۔ ان میں سے کسی پر بھی کوئی بحث مباحثہ نہیں ہوتا۔ ایسا ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ پاکستان میں معیشت دانی کی مہارت کو مہارت مانا ہی نہیں جاتا اور نوکر شاہی کے لوگ بغیر کسی علم کے، پالیسیاں بناتے چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں معیشت دانی کے سلسلے میں ہر کوئی دعویٰ کر دیتا ہے کہ وہ سب جانتا ہے۔ حکومتی پارٹیوں کو ماہرین نہیں جادوگروں کی تلاش رہتی ہے‘ ایسے جادوگر جو اپنے ہیٹ میں سے یا جادو کی چھڑی ٹچ کر کے فوراً حل نکال کر حاضر کر دیں۔
ڈاکٹر ندیم الحق نے سولہ سترہ برس قبل جس خرابی کی نشاندہی کی تھی وہ آج تک برقرار ہے۔ تبدیلی کے دعوے دار بھی پرانی روش پر قائم ہیں۔ معاشی جادوگری کی تمنا کی جا رہی ہے اور اس تمنا میں کئی معاشی جادوگر آزمائے جا چکے ہیں‘ لیکن وہ جادوگر ملک کے لیے اکنامک ہٹ مین ہی ثابت ہوئے۔ اس حکومت نے سٹیٹ بینک کی خود مختاری کا قانون بنا کر اس پر آئی ایم ایف کے بھجوائے گئے نگران بٹھا دیئے ہیں۔ اب یہ لوگ ہماری معاشی مسیحائی کریں گے۔ ہماری حساس ترین معلومات اس شخص کے پاس ہوں گی جو ہمارے اپنے ملک کا نہیں ہو گا۔ ایسی معلومات جو ہمارے منتخب اداروں کے اراکین کے پاس بھی نہیں ہوتیں۔ ہمارے کئی پروگرام، ہمارے سلامتی کے معاملات سب ان کی نظر میں ہوں گے۔ وہی ہمارا بجٹ بنا رہے ہیں وہی ہماری ترجیحات طے کررہے ہیں۔ یہ ایک فرد کی بات نہیں۔ پورا سسٹم ایسا بنا دیا گیا جو یہ طے کرے گا کتنا ٹیکس لگانا ہے؟ اور بجٹ کیسے بنانا ہے؟
ڈاکٹر ندیم الحق نے دوسرا خسارہ ترغیبات کا بتایا تھا۔ ترغیبات کے خسارے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں ترغیبات اور کام کے مناسب صلے کا نظام شروع کیا جانا چاہئے۔ موجودہ نظام میں افسر شاہی اور دوسرے حکومتی اداروں کو غیر ضروری مراعات دی جاتی ہیں‘ لیکن کام کا صلہ نہیں دیا جاتا۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ میں صرف دو سرکاری گھر ہیں جن میں سے ایک صدر اور دوسرا نائب صدر کے پاس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑے سے بڑے اہلکار کو اپنا گھر خود لینا ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ نظام رائج کرنا چاہیے کہ جی او آر کالونیوں کو قائم رکھنے کے بجائے اہلکاروں کی تنخواہ بڑھانی چاہئے اور گھر اور کار رکھنے کی ذمہ داری ذاتی ہونی چاہیے۔
سب سے اہم بات جس کی نشاندہی ڈاکٹر صاحب نے اس وقت کی تھی‘ وہ تھا ماحول کا خسارہ، ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کلچر اس طرح کا ہو گیا ہے کہ اس میں جہالت، انا پرستی اور سست روی ایسی قدریں بن گئی ہیں کہ اگر کسی نوجوان سے پوچھو کہ وہ امریکہ سے تعلیم مکمل کر کے واپس پاکستان کیوں جا رہا ہے تو جواب ملے گا کہ وہاں نوکر چاکر عام مل جاتے ہیں اور زندگی میں بہت آرام میسر آتے ہیں۔
ڈاکٹر ندیم الحق کی کہی بات آج سو فیصد سچ ہوئی نظر آتی ہے۔ اس حکومت میں ہر دوسرا مشیر بیرون ملک سے ڈگری اور تجربہ لے کر یہاں آیا ہے لیکن کلچر میں بہتری نظر نہیں آئی، بیرون ملک سے آنے والے پڑھے لکھے اور تجربہ کار مشیر ''براؤن صاحب‘‘ بنے بیٹھے ہیں۔ وہی شاہانہ طمطراق، نوکر چاکر، ہٹو بچو کا شور اور نتیجہ صفر۔
تبدیلی کا نعرہ لگانے والے جب اپوزیشن میں تھے تو کہتے تھے: گورنر ہاؤس کو یونیورسٹی بنا دیں گے، بڑے بڑے گھروں اور گاڑیوں کا کلچر ختم کریں گے، لیکن یہ پراگندہ ماحول ہی ہے جس نے ان نعروں کو عمل میں ڈھلنے نہیں دیا اور بڑے گھروں اور گاڑیوں میں باہر سے پڑھے لکھے، تجربہ کار مشیر عیاشی کر رہے ہیں اور قوم کو خوش خبری دی جاتی ہے کہ ملک ترقی کے تمام ریکارڈ توڑ گیا۔ دراصل اس ملک میں جسے بھی موقع ملا وہ اشرافیہ کے ساتھ مل کر ذہنی طور پر عیاش ہو گیا اور یہ ذہنی عیاشی دراصل ہمارا ذہنی خسارہ ہے۔
یہ کیسی ترقی ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے بھی حکومت نے اس ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے یونٹ کی قیمت میں ساڑھے 4 روپے اضافہ کر کے 3 سو ارب روپے عوام کی جیب سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ترقی کے ثمرات ہیں؟ کیا یہ ترقی ہے کہ چکی کا آٹا 90 روپے کلو بک رہا ہے، 100 گرام کی ایک روٹی کے حساب سے 4 یا 6 افراد کے کنبے کا صرف آٹا مہینے میں کتنے کا بنتا ہے، کیا کبھی کسی نے اس کا حساب لگایا؟ اور پھر آمدن کا معیار 16 ہزار سے 18 ہزار ماہانہ ہے۔
معاشی ترقی کی خوش خبری دینے والے اپنی ہی کابینہ کے اجلاس میں ساتھی وزیر کی باتوں کا جواب نہ دے پائے یا شاید جواب ہم تک نہیں پہنچ پایا، سنا ہے کہ وفاقی وزیر شیخ رشید احمد بازار سے اشیائے ضروریہ کے داموں کی فہرست لے کر کابینہ اجلاس میں گئے تھے۔ وہ اس پر تبصرے بھی کرتے رہے اور وفاقی وزیر خزانہ جناب شوکت ترین کو ڈھونڈتے بھی رہے، جو بیماری کے سبب غیر حاضر تھے، لیکن کسی نے شیخ رشید کے سوالوں کا جواب تو دیا ہو گا، شیخ رشید ہی ہمیں بتا دیں۔