ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں علم، سائنس، ٹیکنالوجی اور مستحکم معیشت کے حصول کے بغیر نہ تو کوئی قوم اپنے داخلی مسائل حل کر سکتی ہے اور نہ ہی عالمی سطح پر نمایاں اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اچھی معیشت اس وقت یقینی بنتی ہے جب آپ کے پاس علم، سائنس و ٹیکنالوجی ہو اور وسائل انسانی ترقی پر خرچ کیے جاتے ہوں۔ قومیں مندرجہ بالا خصوصیات کی حامل ہو کر ہی زوال اور انحطاط سے امارت اور استحکام کی طرف بڑھی ہیں۔ جاپان اور جرمنی‘ دونوں ملک 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر تباہ ہو چکے تھے۔ جاپان دو اولین امریکی ایٹمی ہتھیاروں کا نشانہ بنا تھا۔ آج یہ دونوں ملک دنیا کی دو اہم معیشتیں ہیں۔ وجہ سب کو معلوم ہے۔ ان کی قیادت اس صورتحال کو بدلنے کے لیے پُرعزم تھی اور یہ کام انہوں نے علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنا پر کیا۔ اسی نے انہیں معاشی اور سیاسی طاقت بنایا۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ مضبوط سماجی و اقتصادی پروفائل کے بغیر قوموں کی برادری میں اثرورسوخ اور احترام سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے‘ جو علم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کیے بغیر ممکن نہیں۔ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ علم کا مطلب لازمی طور پر نوجوانوں میں تعلیمی ڈگریاں تقسیم کرنا نہیں ہے۔ پچھلے تیس سالوں میں پاکستان میں پبلک سیکٹر‘ پرائیویٹ یونیورسٹیوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کو خاصا فروغ ملا ہے۔ یہ یونیورسٹیاں، خاص طور پر پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیاں، بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں تقسیم کر رہی ہیں؛ البتہ ایسے تقریباً دو تہائی ڈگری ہولڈر عالمی سطح پر مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نوکریوں کے لیے انٹرویو لینے والے لوگ یونیورسٹی کے ڈگری ہولڈرز کے کم تعلیمی معیار کی شکایت کرتے ہیں؛ تاہم نوجوانوں کی ایک محدود تعداد ایسی بھی ہے جو بین الاقوامی سطح پر اور پاکستان کے اندر کامیابیاں سمیٹتی ہے۔ یہ پاکستانی معاشرے پر مثبت اثرات مرتب نہیں کر سکتے کیونکہ وہ تعداد میں کم ہیں اور ان میں سے کچھ بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ملک چلے جائیں گے۔
مناسب تعلیم اور علم کسی فرد کو ضبطِ نفس سکھاتے اور ایسا کامیاب انسان بننے کی راہ دکھاتے ہیں‘ جو پیشہ ورانہ رجحان اپناتا ہے۔ وہ راتوں رات امیر بننے کے لالچ سے دور رہتے ہوئے محنت اور دیانتداری سے کام کرنے کی عادت بھی اپنا لیتا ہے۔ اچھی تعلیم سماجی بہبود اور ترقی کیلئے اولوالعزمی کا درس بھی دیتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں ایسے افراد پیدا نہیں کر رہی ہیں تو نظام تعلیم اور تعلیمی اداروں کے ماحول کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹی کے طلبا اور تعلیم یافتہ افراد میں مہارت اور پروفیشنلزم کا فقدان قوم کے سماجی و اقتصادی مشکلات پر قابو پانے اور عالمی سطح پر اہمیت کا حامل مقام حاصل کرنے کے امکانات کو نقصان پہنچاتا ہے۔
'علم بطور طاقت‘ کے تصور کو سرد جنگ کے دور میں نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ سپر پاورز کی کشمکش اس قدر شدید تھی کہ امریکہ یا سوویت یونین کسی بھی ملک کی حمایت کرنے کو تیار تھے چاہے اس کے رہنما اس کے اندرونی سیاسی اور اقتصادی معاملات میں گڑبڑ ہی کیوں نہ کر رہے ہوں۔ تب کسی بھی سپرپاور کی جانب سے حمایت کی ضمانت دی گئی تھی بشرطیکہ وہ ملک اس عالمی طاقت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے تیار ہو۔ اب، جیسا کہ سرد جنگ کا دور بہت پہلے ختم ہو چکا ہے، تو امریکہ کو ان ممالک کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حوالے سے زیادہ اختیار حاصل ہو چکا ہے جنہیں غربت اور پسماندگی سے نجات دلائی جانی ہے۔
1991 سے اب تک یعنی سرد جنگ کے بعد کے دور میں، امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا، اور اس نے بین الاقوامی نظام کو اپنی ترجیحات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ وہ اپنی اس کوشش میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا لیکن سب سے اہم کھلاڑی کے طور پر کام کرتا رہا کیونکہ وہ سب سے بڑی معیشت اور مضبوط ترین فوجی طاقت تھا۔ 21ویں صدی کی پہلی دہائی میں عالمی نظام واحد سپرپاور سے کثیرقطبیت کی طرف منتقل ہو گیا اور طاقت کے نئے مراکز جیسے یورپی یونین، انگلینڈ، جاپان، روس اور چین ابھرکرسامنے آئے۔ ان طاقتوں میں سے ہر ایک کی کامیابی کا انحصار عالمی نظام میں طاقت کے مختلف مراکز کی حمایت کو متحرک کرنے کی اس کی صلاحیت پر ہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ان ممالک نے بین الاقوامی نظام میں قابلِ ذکر اہمیت کیسے حاصل کی۔ جواب واضح ہے‘ انہوں نے علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ مہارت کو ترجیح دی جس نے انہیں سرکردہ معیشتیں اور فوجی طاقتیں بننے کے قابل بنا دیا۔ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے 1960 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کو معاشی ترقی کے حوالے سے ایک ماڈل کے طور پر دیکھا۔ اب وہی ریاستیں علم، سائنس، ٹیکنالوجی اور معیشت میں ہم سے آگے جا چکی ہیں۔ ان قوموں نے انسانی وسائل کی ترقی کیلئے اچھی تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال اور شہری سہولیات پر وسائل استعمال کیے؛ چنانچہ آج یہ ممالک بہتر معیشتیں ہیں اور جدید ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی کے ذریعے عزت و احترام سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
چین اس کی بہترین مثال ہے کہ کس طرح کوئی ملک 1949 میں کمزور معیشت اور کمزور فوجی طاقت سے نکل کر 2021-22 تک عالمی سطح پر کلیدی کھلاڑی بن سکتا ہے۔ اب یہ دوسری سب سے بڑی معیشت ہے اور عالمی مضمرات کی حامل ایک فوجی طاقت بھی۔ اس نے علم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کیا ہے۔ اس نے انسانی ترقی اور غربت کے خاتمے پر بھی وسائل خرچ کیے۔ آج چین ایک عالمی اقتصادی اور فوجی کھلاڑی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور افریقہ میں سرمایہ کاری کے ذریعے عالمی اقتصادی رابطے کی اس کی پالیسی نے امریکہ میں خاصی تشویش پیدا کردی ہے۔ امریکہ اسے عالمی اثرورسوخ کے حوالے سے حریف کے طور پر دیکھتا ہے؛ تاہم، چین اور امریکہ کے مابین مخاصمت ان کی معیشتوں کے درمیان گہرے روابط کے ساتھ جڑی ہوئی ہے‘ جس کی وجہ سے ان کے لیے کسی بھی بڑے براہ راست فوجی تصادم میں شامل ہونا مشکل ہو جائے گا۔ دوسری مثال روس کی ہے جس نے اپنی معاشی مشکلات پر قابو پا لیا کیونکہ اس کے پاس عالمی سیاست میں واپسی کے لیے علم اور ٹیکنالوجی کے وسائل موجود تھے۔
پاکستان کیلئے اس میں کیا سبق ہے؟ اس کی نجات مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کیلئے جاری تلخ لڑائی میں مضمر نہیں ہے۔ اس قسم کی سیاست سے بعض سیاسی رہنماؤں کی انا کی تسکین ہو سکتی ہے، لیکن یہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر پاکستان کے مستقبل کو محفوظ نہیں بنا سکتی۔ اگر حکومت تبدیل ہوتی ہے تو اس کے باوجود سیاسی اور معاشی صورتحال میں تبدیلی کی توقع نہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور متعلقہ ریاستی اداروں کو ایک ایسی معیشت کیلئے سب سے زیادہ ترجیح دینے پر متفق ہونا چاہیے جو غیر ملکی قرضوں، گرانٹس اور ترسیلات زر کے بجائے پاکستان کے مقامی ذرائع پر مبنی ہو۔ عالمی سطح پر مسابقتی علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کے ذریعے پاکستان کے نوجوانوں میں پیشہ ورانہ اور کارکردگی پر مبنی رویہ پیدا کیے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کو معیاری تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور شہری سہولیات کے ساتھ ساتھ شہری ذمہ داری کے احساس کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی پر اپنے اخراجات کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ چین نے اپنی آبادی کو قومی اثاثہ بنا دیا ہے۔ کیا ہم پاکستان کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں؟