کیا ایسے بھی والدین ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کا بھلا نہیں چاہتے؟ آپ سوچیں گے کہ یہ تو خاصی بے بنیاد بات ہوئی۔ بھلا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کا بھلا نہ چاہیں‘ ایسا تو سوچنا بھی گناہ ہے۔ بالکل درست! کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ اُس کی اولاد کسی بھی سطح پر الجھنوں سے دوچار ہو یا پریشان رہے۔ یہ تو ہوئی ایک حقیقت۔ اس کے مقابل ایک دلخراش حقیقت یہ ہے کہ بیشتر والدین ہی اولاد کی راہ میں کانٹے بچھاتے ہیں، الجھنیں اور رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں! بات عجیب ہے مگر ہے بالکل سچ۔ والدین کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اولاد کامیاب ہو۔ کامیابی سے مراد بالعموم کیریئر اور معاشی معاملات کی کامیابی ہے۔ یہ خواہش بری نہیں مگر اِس کے ساتھ ساتھ دوسری بہت سی منطقی خواہشات بھی ہونی چاہئیں۔ والدین کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ اولاد اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا سوچے، اُن کے لیے بھی نافع ثابت ہو۔ کیا ایسا سوچنا غلط ہے؟ بالکل نہیں! ہر انسان کو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا سوچنا چاہیے۔ اِسی صورت معاشرے متوازن رہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ تو پھر کیا سبب ہے کہ بیشتر معاملات میں والدین اولاد سے وابستہ توقعات پوری ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے؟ یہ ایسا بنیادی سوال ہے جس پر والدین کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ والدین اپنے معاملے کو محض خواہش کی منزل تک رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اولاد کا کیریئر کامیاب ہو مگر اس حوالے سے وہ کچھ کرتے نہیں۔ محض سوچنے‘ توقعات وابستہ کرلینے سے اولاد کامیابی کی طرف نہیں بڑھتی۔ والدین کو عملی سطح پر بھی کچھ کرنا ہوتا ہے۔ کفالت یعنی کھانے پینے کا خیال رکھنا الگ چیز ہے اور عملی زندگی میں کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے اولاد کی بھرپور مدد کرنا بالکل الگ معاملہ۔ والدین اس معاملے میں بالعموم کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ دعویٰ تو نہیں کیا جاسکتا کہ والدین دانستہ کچھ ایسا کرتے ہیں جس سے اولاد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ بیشتر والدین اولاد کی بھرپور رہنمائی کر پاتے ہیں نہ مدد۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ والدین، غیر محسوس طور پر، چند توقعات پروان چڑھاکر اُنہیں گٹھڑی کی شکل میں اولاد کے سروں پر دھر دیتے ہیں۔ ہر باپ اور ہر ماں کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اولاد بہت پڑھے، عملی زندگی میں بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہو اور خوش حالی کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ یہ سب کچھ محض سوچنے کی حد تک آسان ہے۔ عملی زندگی کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ کبھی کبھی تو بھرپور رگڑ لگنے سے سارا ملّمع دیکھتے ہی دیکھتے اُتر جاتا ہے۔ اولاد کو عملی زندگی کے لیے تیار کرنا اصلاً والدین ہی کا کام ہے۔ یہ کام وہ کرتے تو ہیں مگر تحت الشعور کی سطح پر۔ وہ بالعموم کھانے پینے کا انتظام کرکے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حق ادا ہوگیا۔ معاملہ اِس سے بہت آگے کا ہے۔
سکول کی سطح پر بچوں کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ بہت سی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ ہر کلاس روم میں مختلف مزاج کے حامل بچے ہوتے ہیں۔ ہر بچے کو باقی تمام بچوں سے مقابلہ بھی کرنا ہوتا ہے اور اُن میں جو شرارتی مزاج کے ہیں اُن سے اپنے آپ کو محفوظ بھی رکھنا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ کسی بھی سطح پر آسان نہیں ہوتا۔ ہم اس حوالے سے بچوں کی الجھنوں کو بالعموم نظر انداز کردیتے ہیں۔ والدین اولاد کو اپنی توقعات کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ یہ غلط نہیں مگر ہر معاملے میں بچوں کو پرکھنے کا یہی ایک معیار بروئے کار لانا انتہائی غلط ہے۔ اس کے نتیجے میں بچوں پر ذہنی دباؤ بڑھتا ہے۔ وہ بے جا طور پر تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔ آئیے! اس امر کا جائزہ لیں کہ والدین عمومی سطح پر اولاد سے کیسی کیسی توقعات وابستہ رکھتے ہیں جن سے بچوں کے ذہن پر دباؤ بڑھتا رہتا ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے سکول میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہیں اور ہر معاملے میں صرف جامعیت کی منزل پر پہنچ کر دم لیں۔ ایسا ممکن نہیں! ہر بچہ تمام مضامین میں بھرپور دلچسپی نہیں لے سکتا اور یوں ہر مضمون میں جامعیت کا حصول ممکن نہیں۔ والدین بالعموم اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ بچہ ہر مضمون میں مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ یہ توقع بچے کے ذہن کے گرد تناؤ کا جال بُن دیتی ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے ہر وقت خوش رہیں۔ یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ بچوں کو سکول اور حلقۂ احباب میں ہر طرح کے بچوں کا سامنا رہتا ہے۔ بہت سے معاملات میں سب کچھ اُن کی مرضی کا نہیں ہوتا۔ اِس کے نتیجے میں اُن کے ذہن الجھتے ہیں۔ ایسے میں والدین کی یہ خواہش یا توقع اُنہیں مزید پریشانی کرتی ہے کہ اُنہیں ہر وقت خوش دکھائی دینا چاہیے۔ والدین بالعموم اولاد سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ وہ بات بات پر تشکر کا اظہار کریں۔ یہ بے جا توقع ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شکر گزار ہونا بہت اچھی عادت ہے مگر ہر فرد سے ہمہ وقت شکر گزار ہونے کی توقع رکھنا یکسر غیر ضروری امر ہے۔ یہ بہت حد تک مزاج کا بھی معاملہ ہے۔ بعض لوگ مزاجاً ایسے ہوتے ہیں کہ ہر معاملے میں اللہ کا شکر ادا کرتے دیر نہیں لگاتے اور لوگوں سے اظہارِ تشکّر کے معاملے میں بھی بخل اور تاخیر سے کام نہیں لیتے۔ بہت سوں کا مزاج یہ بھی ہے کہ کسی بھی معاملے میں بار بار شکر کا اظہار نہیں کرتے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ ناشکرے ہوتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ سب کے سامنے بار بار تشکر کا اظہار کیا جائے۔ اس معاملے میں والدین کو اولاد سے بے جا طور پر توقع وابستہ نہیں کرنی چاہیے۔
والدین کی توقع یہ بھی ہوتی ہے کہ اولاد تمام معاشرتی معاملات میں جامع ہو، مزاج ہی نہیں کردار بھی بے داغ ہو۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ بچوں کو بعض معاملات میں مصلحتاً خاموش بھی رہنا پڑتا ہے یا پھر وہ تھوڑا بہت جھوٹ بولنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔ جہاں سچ کو برداشت اور ہضم نہ کیا جاتا ہو وہاں بچے جھوٹ بولنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ والدین کو اس حوالے سے اپنی ترجیحات اور توقعات پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ اگر خواہش یہ ہے کہ بچے جھوٹ نہ بولیں تو پھر اُنہیں سچ بولنے کی آزادی بھی دی جانی چاہیے۔ اور ساتھ ہی ساتھ سچ سن کر ہضم کرنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔ یہ بھی والدین کی بے جا توقع ہے کہ بچہ کوئی غلطی نہ کرے۔ غلطی وہی لوگ کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں۔ بے عملی کی زندگی بسر کرنے والوں سے کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ بچے سکول میں غلطی کریں تو اِس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ غلطی اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ بچہ اصلاح چاہتا ہے۔ توجہ اُس کی اصلاح پر ہونی چاہیے نہ کہ غلطیوں کے حوالے ڈانٹ ڈپٹ پر۔ اسی طرح کوئی بھی بچہ یہ بات پسند نہیں کرتا کہ اُسے کسی ایسے کام میں دلچسپی لینے پر مجبور کیا جائے جو اُس کی پسند کا نہ ہو۔ بچہ اُسی شعبے میں کچھ بن سکتا ہے جو اُس کی پسند اور دلچسپی کا ہو۔ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کے رجحانات کا درست اندازہ لگاکر من پسند کیریئر کی راہ ہموار کرنے پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں والدین بچوں پر اپنی مرضی کا کیریئر تھوپنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرنا بالکل غلط، بلکہ بچوں پر ظلم کے مترادف ہے۔
''بچے کو ہر شعبے میں کامیاب ہونا چاہیے‘‘۔ یہ بھی ایک بے جا خواہش یا توقع ہے۔ ہر انسان ہر معاملے میں جامع نہیں ہو سکتا۔ وہ بعض معاملات میں غیر معمولی سُوجھ بُوجھ رکھتا ہے اور دوسرے بہت سے معاملات میں اُس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت زیادہ نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بعض شعبوں میں بالکل بُودا ہوتا ہے۔ بات اِتنی سی ہے کہ انسان ہر معاملے میں جامع نہیں ہو سکتا۔ والدین یہ نکتہ بالعموم نظر انداز کر دیتے ہیں۔
کسی بھی بچے کی شخصیت اُسی وقت کِھل سکتی‘ پروان چڑھ سکتی ہے جب اُسے بے جا اور نامناسب توقعات کے شکنجے میں جکڑ کر نہ رکھا جائے۔ بھرپور زندگی یقینی بنانے کے لیے ہر بچہ اپنی مرضی کے مطابق جینے کی آزادی چاہتا ہے۔ بے جا توقعات اُس کی صلاحیت و سکت کے پَر کتر دیتی ہیں۔