اہلِ یثرب جب نبی پاکﷺ کے دست مبارک پر بیعت کر چکے تو انہوں نے کچھ امور کی وضاحت بھی طلب کی۔ بزرگ انصاری حضرت براء بن معرورؓ نے آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! ہم لوگ تلواروں کی چھاؤں میں پلے ہیں، اب آپ کوئی خطرہ محسوس نہ کریں۔ انہوں نے یہ فقرہ کہا ہی تھا کہ دوسرے صحابی حضرت ابوالہیثمؓ نے ان کی بات کاٹ کر عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! بلاشبہ ہم شمشیرزن‘ نیزہ باز اور تیر چلانے کے باہر ہیں‘ یہودیوں کے ساتھ ہمارے معاشرتی ومعاشی تعلقات ہیں‘ اب جو ہم نے یہ بیعت کی ہے تو یقینا یہودیوں سے ہمارے تعلقات ختم ہوجائیں گے مگر ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں؛ تاہم ایسا تو نہیں ہوگا کہ آپ دشمنوں پر فتح پالیں تو ہمیں چھوڑ کر اپنے شہر واپس آجائیں؟ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسکرا کر انہیں جواب دیا: ''اے اہلِ یثرب! میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہوگا‘ تمہارا خون میرا خون ہے اور تم میرے ہو، میں تمہارا ہوں‘‘۔ کیا عظیم انعام ہے جو ان مسافرانِ راہِ وفا اور پیکرانِ عزیمت کے حصے میں آیا۔ دنیا کی کوئی دولت کہاں اس کا بدل ہوسکتی ہے!
بیعت میں جو عہدوپیمان ہوئے ان سے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے لیے بالکل یکسو ہوگئے۔ آپﷺ نے مکہ میں اپنے مظلوم صحابہ سے فرمایا کہ اب تم لوگ مدینہ میں جاکر پرسکون زندگی گزارو۔ چنانچہ حضورﷺ کی ہجرت مبارک سے قبل بیشتر صحابہ وصحابیات مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے گئے۔ مدینہ میں انہیں جو پیار ومحبت ملا وہ انسانی تاریخ کا منفرد اور بے نظیر واقعہ ہے۔ انصار نے اس موقع پر مطالبہ کیاکہ آپ ہمارے درمیان بارہ نقیب مقرر کردیں‘ پھر انصار نے خود ہی بارہ نام پیش کیے۔
1۔اسید بن حضیرؓ:جنگ بعاث میں انہی کے باپ قبیلہ اوس کے سردار تھے۔
2۔ابوالہیثم بن التیہانؓ:
3۔سعد بن خیثمہؓ:جنگ بدر میں شہید ہوئے۔
4۔اسعد بن زرارہؓ:کبار صحابہ میں سے تھے۔
5۔سعد بن ربیعؓ:جنگ احد میں شہید ہوئے۔
6۔عبداللہ بن رواحہؓ:مشہور شاعر ہیں، جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ وہ اس جنگ میں زید بن حارثہؓ اور جعفربن ابی طالبؓ کے بعد تیسرے سپہ سالار تھے۔
7۔سعد بن عبادہؓ:معزز اور مشہور صحابی ہیں، خزرج کے سردار تھے، بہت مال دار، سخی اور مہمان نواز تھے۔
8۔منذر بن عمروؓ:بیئرمعونہ کے دردناک واقعہ میں شہید ہوئے۔
9۔براء بن معرورؓ:بیعت عقبہ میں انہوں نے ہی انصار کی طرف سے تقریر کی تھی۔مدینہ جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے قبل انتقال کرگئے۔
10۔عبداللہ بن عمروؓ:جنگ احد میں شہید ہوئے۔
11۔عبادہ بن صامتؓ:مشہور صحابی ہیں، ان سے اکثر حدیثیں مروی ہیں۔زندگی میدانِ جہاد میں گزاری۔
12۔ رافع بن مالکؓ:جنگ احد میں شہید ہوئے۔
(البدایۃ والنہایۃ، ج: 1، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص: 552)
جب انصار آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرچکے تو حضرت عباس بن عبادہ بن نضلہ انصاریؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! اگر آپ حکم دیں تو ہم آپ کے دشمنوں سے بھڑ جائیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ابھی ہمیں اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ پس تم بکھر جاؤ اور اپنے اپنے ٹھکانے کی طرف چلے جاؤ۔ عبداللہ بن ابی بھی اس موقع پر مکہ آیا ہوا تھا۔ جب اسے اس صورت حال کی خبر ملی اور ساتھ ہی قریش کو بھی بھنک پڑ گئی تو انہوں نے انصار کو پکڑنا چاہا، مگر ان کے ہاتھ کوئی بھی نہ آیا، سوائے سردار قبیلۂ خزرج حضرت سعد بن عبادہؓ کے۔ ان لوگوں نے انہیں ایذائیں پہنچائیں لیکن جب دو قریش سرداروں مطعم بن عدی اور حارث بن امیہ بن عبدالشمس نے یہ منظر دیکھا تو اپنے قبیلے کے لوگوں کو ڈانٹ پلائی کہ یہ شخص معمولی آدمی نہیں‘ یہ یثرب کا بڑا سردار ہے۔ تم جو حرکت کررہے ہو اس کے نتیجے میں تمہارے قافلے یثرب کے راستے سے نہیں گزر سکیں گے۔ اس دوران انصار نے محسوس کیا کہ ان کے سردار غائب ہیں تو وہ پریشان ہو کر واپس پلٹے، مگر انہیں حضرت سعد بن عباہؓ ادھر سے آتے ہوئے مل گئے۔ (طبقات ابن سعد، ج:1، ص: 221 تا 223، سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص:431تا 434، السیرۃ الحلبیۃ، ج:2، دارالکتب العلمیہ بیروت، ص:16تا 26)
امام ابن کثیرؒ نے اپنی روایت کے مطابق یہ تمام واقعات زیادہ تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں۔ انہوں نے اپنی سیرت کے صفحہ 545سے لے کر 550تک بیعتِ عقبۂ اولیٰ کا ذکر کیا ہے اور 551سے لے کر 557تک بیعتِ عقبۂ ثانیہ کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ درمیان میں تفصیلی اشعار اور قصیدے لکھے ہیں جن میں مختلف شعرا کا کلام شامل ہے۔ ہم نے اس مضمون میں نہایت اختصار کے ساتھ ان واقعات کا خلاصہ نقل کردیا ہے۔ تفصیل ہماری کتاب ''رسولِ رحمتؐ مکہ کی وادیوں میں (دوم)‘‘ کے اندر موجود ہے۔
امام ابن کثیرؒ نے ایک واقعہ حضرت کعب بن مالکؓ کی زبانی بیان کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: جب ہم لوگ حسبِ معمول حج کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو ہمارے ساتھ ہماری قوم کی بزرگ شخصیت براء بن معرورؓ بھی تھے۔ ہم راستے میں تھے کہ ایک روز انہوں نے ہم سے اپنا ایک خواب بیان کیا اور کہا کہ میں نے خود کو خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ پھر فرمایا:آپ جانتے ہیں کہ ہم لوگ مکہ میں جس نبیؐ کی زیارت کے لیے جارہے ہیں وہ شام (بیت المقدس) کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ ہجرت کے بعد جب تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہوا تو حضرت براء بن معرورؓ وفات پا چکے تھے، مگر ان کا یہ خواب سچ ہوگیا۔ ہجرت کے دوسرے سال تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہوا تھا۔
جب یہ لوگ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے تو اس وقت آپ کے چچا حضرت عباسؓ آپ کے ساتھ تھے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص طور پر ان لوگوں میں سے براء بن معرورؓ اور کعب بن مالکؓ کا اپنے چچا سے تعارف کرایا اور کہا: یہ براء بن معرورؓ ہیں اور یہ کعب بن مالکؓ۔ اس پر حضرت عباس نے کہا: کعب بن مالک شاعر؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔
حضرت کعب بن مالکؓ نے قبول اسلام سے قبل پورے عرب میں اپنی شاعری کی وجہ سے شہرت پا چکے تھے۔ آپؓ اسلام کے دفاع میں اپنی تلوار بھی استعمال کی اور اپنے اشعار سے بھی جہاد باللسان کیا۔ نبی پاکﷺ ان کے اشعار کو بہت زیادہ پسند فرمایا کرتے تھے ۔ ایک بار آپﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: کعب! تمھارے شعر دشمن کو ایسے زخم لگاتے ہیں جو ہمارے تیر، تلواریں اور نیزے بھی نہیں لگا سکتے۔ ابن کثیر کے مطابق اس بیعت میں مردوں کے علاوہ دو یا تین خواتین نے بھی آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اس موقع پر ابوقبیس پہاڑی کے اوپر سے کچھ اشعار سنائی دیے۔ یہ اشعار کس کے تھے، اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ایک روایت جو امام ابن کثیرؒ نے بیان کی ہے، اس کے مطابق قریش کے کسی شاعر نے یہ اشعار کہے تھے۔ ان میں سے ایک شعر یہ تھا:
فَاِنْ یُسْلِمْ السّعْدَانُ یُصْبِحُ مُحَمَّدٌ
بِمَکّۃَ لَا یَخْشٰی خِلَافَ الْمُخَالِفِ
اگر دونوں سعد محمدﷺ پر ایمان لے آئے تو مکہ میں رہتے ہوئے بھی کسی مخالف کی دشمنی اس کے لیے کسی خوف وخطرے کا باعث نہیں ہوگی۔
ابوسفیان نے یہ شعر سنا تو کہا: کون سے دو سعد تمہاری مراد ہیں؟ قبیلہ سعد بن بکر یا سعد بن ہذیم؟اسے کوئی واضح جواب نہ ملا۔ اگلی رات کو اسی وقت اس پہاڑی سے قریش کے لوگوں نے پھر کچھ اشعار سنے، جن میں واضح ہوگیا کہ مراد کون ہیں۔ ان اشعار میں سے ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:
ایا سعدُ سعدُ الاوسِ کن انتَ ناصرا
وَ یَاسَعْدُ سَعْدُ الْخَزرَجِین الْغَطَارِفِ
اے سعد! بنواوس کے سعد(سعد بن معاذؓ) تو (محمدﷺ ) کا مددگار بن جا اور اے سعد! بنوخزرج کے سعد(سعد بن عبادہؓ) تو (محمدﷺ ) کو اپنے حصار میں لے لے۔
بعید نہیں کہ یہ اشعار اللہ نے اپنے کسی مقرب فرشتے کی زبان سے ادا کرائے ہوں۔ واللہ اعلم! اب قریش کو معلوم ہوگیا کہ یہ دو سعد کون سے ہیں۔ اس خبر نے قریش کو پریشانی میں مبتلا کردیا اور ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ یہ دونوں مدینہ کے دونوں قبائل کے مسلمہ قائد تھے اور دونوں نے اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے لیے اپنا تن من دھن قربان کردیا۔ ان کی قربانیوں کے تذکرے ایمان کو بالیدگی بخشتے ہیں، آنکھیں بھی تر ہوتی ہیں اور دل میں بھی گداز پیدا ہوتا ہے۔ کیاعظیم شخصیات تھیں۔ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔ (مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے: البدایۃ والنہایۃ، ج:1، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، صفحہ:546تا555)۔
اب بہت سے صحابہ کرام مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچ گئے۔ حبشہ سے بھی کچھ مہاجرین یہاں آ گئے۔ مدینہ کی ریاست قائم ہو گئی تھی جس کی بنیاد اللہ کی کتاب اور سنتِ رسول تھی۔ ان سازگار حالات میں حضرت مصعبؓ نے حضورﷺ کو پیغام بھیج دیا کہ یثرب تشریف لے آئیں۔ آپﷺ آگئے تو انصار ہی نہیں‘ ان کی بستی کو بھی اعلیٰ مقام مل گیا۔ اب یہ بستی مدینۃ النبیؐ کہلائی۔ یوں مدینہ کی اسلامی ریاست وجود میں آگئی۔