تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     03-08-2013

کیا ہم بنی نوع انسان ہیں؟

کیا ہم واقعی شرفِ انسانیت سے بھی عاری ہو چکے ہیں۔ انسانیت یعنی بنی نوعِ انسان جنہیں آج کے ترقی یافتہ دور میں ایک بڑے خاندان کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور یہ لوگ جس دنیا میں رہتے ہیں،اسے ایک بڑے گائوں سے زیادہ نہیں سمجھا جا رہا۔ دنیا اس قدر سکڑ چکی ہے کہ امریکہ کے دوردراز شمال مغربی کونے میں اگر کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو آسٹریلیا کے جنوب مشرقی علاقے، یہاں تک کہ روس کے شمالی سرد خطے میں بھی اس کی خبر چند سیکنڈوں میں پہنچ جاتی ہے۔ اس بڑے خاندان کے افراد اور اس بڑے گائوں میں رہنے والے چھ ارب ذی روح دنیا بھر میں ہونے والے ہر ظلم، بربربت، ناانصافی، تشدد، خوف اور ہلاکت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب کسی ملک میں تشددکی لہر شروع ہو تی، حکمرانوں کا جبر لوگوں کی زندگی مشکل کرنے لگتا تو اس کی خبریں مسافروں کے ذریعے دوسرے علاقوں کے لوگوں تک پہنچتی تھیں۔ کوئی قافلہ اس شہر یا علاقے سے گزرتا تو وہاں کے حالات دیگر بستیوں کو بھی بتاتا جاتا۔ پھر آہستہ آہستہ ٹیلی گرام، ٹیلی فون شروع ہوا اور اب تو ان تمام رابطوں میں ایک انقلاب نے خبر کو تاخیر سے بے خبر کر دیا ہے۔ ادھر کسی نے جان جانِ آفرین کے سپرد کی اور ادھر دنیا بھر میں اس کا سوگ شروع ہوگیا۔ لیڈی ڈیانا اور مائیکل جیکسن کی موت پر دی گئی کوریج تو اس ترقی کے عظیم شواہد میں سے ہے۔ یہ معاملہ کسی کی موت تک محدود نہیں۔ کرکٹ کی گرائونڈ میں پکڑا جانے والا کیچ، فٹ بال کے میدان میں ہونے والا کوئی گول یا کسی کے موت کے منہ سے بچ نکلنے کی کوئی خبر ایک ہی لمحے میں پوری دنیا بیک وقت دیکھ رہی ہوتی ہے‘ جیسے دنیا بھر کے لوگ اسی شہر، اسی مقام اور اسی علاقے میں موجود ہوں اور ان کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا ہو۔ یہ سب تیزی سے ہو رہا ہے، ہماری آنکھوں کے سامنے ایک تماشہ ہے اور ہم روز اس تماشۂ رنگ وبوُ سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ لیکن گذشتہ پچیس سال میں ذرائع ابلاغ کی ترقی نے ہمیں بہت ہی بے حس بنا دیا ہے۔ یوں لگتا ہے ہمارے احساسات مردہ ہو چکے ہیں، ہم ایک ایسے شخص کی طرح سُن ہو کر یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں جسے آپریشن سے پہلے ٹیکہ لگا یا گیا ہو اور اسے اپنے بدن میں چیر پھاڑ کی بھی کوئی تکلیف نہ ہو رہی ہو۔ آپ دنیا کے کسی خطے، ملک، علاقے یا شہر میں چلے جائیں آپ کو زندگی چاروں جانب ہنستی بستی رواں دواں نظر آئے گی ، لیکن آپ ان کے کسی ہوٹل، گھر یا دفتر میں داخل ہوں اور وہاں موجود ٹیلی ویژن سکرین پر نظر ڈالیں تو آپ کو ہر طرف ظلم و تشدد اور قتل و غارت نظر آئے گی۔کہیں گولہ و بارود کی بوچھاڑ ہوگی تو کہیں احتجاج کرنے والے زخمی ہوتے ہوئے لوگ۔ خون میں لت پت چہرے اور جسم، میزائلوں سے زمیں بوس ہوتی عمارتیں جن میں ہزاروں عورتیں اور بچے بھی موجود ہیں۔ ٹیلی ویژن کی سکرین پر یہ سب کچھ چل رہا ہوتا ہے اور لوگ مزے سے اپنے کاروبارِ زندگی میں مصروف ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے اور یہ سب کیسے ہوگیا؟ کیا ہم اس درد سے نا آشا ہو گئے ہیں جو کسی دوسرے انسان کو تکلیف میں دیکھ کر اس کے لیے دل میں پیدا ہوتا ہے؟ آخر اس کی وجہ کیاہے؟ جب تک کیمروں پر براہِ راست مناظر دکھانے کا رواج نہیں ہوا تھا ہمیں خبر کے ذریعے پتہ چلتا تھا یا پھر کبھی کوئی تصویر میسر آجاتی تھی۔ باقی سب ہم اپنے تصور سے سوچتے تھے اور اس سوچنے کے عمل کے دوران ایسے احساس سے گزرتے تھے کہ ہمیں مرنے والے، ظلم سہنے والے اور تکلیف میں بلبلانے والے کی چیخیں تک محسوس ہوتی تھیں۔ہم اپنے ذہن کے پردے پر خود اس سارے ماحول کو تصور کی آنکھ سے دیکھتے اور محسوس کرتے تھے اور اس دوران ہمارا وجود اس ساری اذیت کا تجربہ کرتا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک آپ کسی المیے کے درد کو اپنے وجود پر طاری نہ کریں آپ اس کا صحیح تصور نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے پچیس ، پچاس یا سو سال قبل انسانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کرنے والوں، ان کا ماتم کرنے والوں اور ان کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کی تعداد آج کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوتی تھی۔ میں عام آدمی کی بات نہیں کرتا جو صبح سویرے رزق کی تلاش میں نکلتا ہے اور رات کو تھک ہار کر گھر لوٹتا ہے۔ وہ تو فرصت کاروبار شوق کی لذت سے ہی ناآشنا ہے۔ میں ان لوگوں کی بات کرتا ہوں جنہیں اللہ نے آسان رزق عطا کر رکھا ہے۔ وہ ادیب، شاعر، ڈرامہ نگار، دانش ور، اہل قلم اور اہل دِانش جنہیں زندگی بھر اس ماحول کی بد صورتیوں کا سامنا رہتا ہے اور وہ اس پر جلتے کڑھتے اور احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ انہی المیوں کے ذکر سے ان کی شاعری میں نکھار آتا ہے، اور ان کے ادب میں سو زوگداز پیدا ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کے سب سو چکے ہیں یا پھر انہیں بھی میڈیا یا ذرائع ابلاغ کی نظامِ فوری اطلاع نے بے حس کر دیا ہے۔ ایک زمانے تک ویت نام ، کوریا، الجزائر، انگولا، جنوبی امریکہ، افریقہ، فلسطین اور کشمیر میں ہونے والے ظلم کے قصوں کی آوازیں دنیا بھر کی شاعری میں ملتی تھیں اور ہر ادیب اپنے افسانے، ناول، مضامین میں ان انسانیت سوز واقعات کو ضرور بیان کرتا تھا۔ یہ سب انسانیت کے حوالے سے ایسا کرتے تھے۔ الجزائر میں مسلمان آزادی کی تحریک چلا رہے تھے اور فرانس کا عظیم ادیب سارتران کے حق میں آواز بلند کرتا رہا۔ خود اس کا اپنا ملک فرانس الجزائر پر قابض تھا ،لیکن وہ مسلمانوں کے لیے میدان میں نکل آیا۔ اسی طرح دنیا کے ہر ظلم کے خلاف دنیا بھر کے ادب میں صدائیں بلند ہوئیں ۔ برصغیر پاک وہند اور پاکستان کا ادب بھی ظلم کی وارداتوں کے خلاف احتجاج سے بھرا پڑا ہے۔ طرابلس سے ویت نام اور انگولا سے فلسطین و کشمیر تک ہمارے بڑے ادیبوں نے صرف اور صرف انسانیت کے نام پر احتجاج کیا۔ ہم شرفِ انسانیت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ ہم میں انسان کہلانے اور اس پر فخر کرنے کی شاید اب کوئی علامت ہی باقی نہیں رہی۔ گذشتہ دس سالوں میں جس قدر قتل و خون ہوا ، عراق اور افغانستان میں بیس لاکھ افراد مارے گئے۔ ان کا دکھ ایک طرف لیکن یہ جو مصر میں رابعہ اسکوائر سے نکلنے والے دن بھر کے بھوکے پیاسے نہتے روزہ داروں پر مصر کی فوج نے اندھا دھند فائرنگ کی اور وہ اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے سینے پر گولیاں کھاتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور دو سو کے قریب شہید کر دیئے گئے۔ یہ منظر کسی بھی سنگ دل شخص کے لیے کافی ہے کہ اس کی آنکھ میں آنسو لے آئے، اسے بے چین کر دے۔ لیکن شاید ہم شرفِ انسانیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ایسا منظر تو پرندوں کی موت کا بھی ہوتا تو دل روپڑتے۔ یہ اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرنے والے لوگ کیا کسی قتال پر نکلے تھے۔ کیا یہ دہشت گردی کی مہم پر تھے۔ نہیں یہ تو جمہوریت کا پرچم بلند کرنے چلے تھے۔ یہ سمجھتے تھے کہ سارے جمہوریت نواز ان کے لیے تڑپ اٹھیں گے۔ کس قدر سادہ ہیں یہ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرنے والے اور پھر یہ بھی توقع رکھنے والے کہ دنیا کا سیکولر ادیب ، شاعر، دانشور ان کی موت پر نوحہ کناں ہو گا۔ جس جمہوریت کے لیے ان لوگوں نے ساٹھ سال مصر میں جدوجہد کی‘ اس کے اقتدار کا ایک سال بھی کسی کو برداشت نہ ہو سکا۔ لیکن پھر بھی اس جمہوریت کی بقا کے لیے سینے پر گولیاں کھانے کے لیے وہ لوگ نکل آئے، گولیاں کھاتے رہے اور دنیا خاموش رہی۔ دنیا نے تو خاموش رہنا ہی تھا، جمہوریت اور انسانیت کے علمبردار بھی مہر بلب رہے۔ انہیں خاموش رہنا ہی تھا۔ جس جمہوریت کی صدائوں میں عوام کو مقدم جاننے کے بجائے اللہ اکبر کی صدائوں کی گونج ہو وہ انہیں قبول نہیں اور جو ’اللہ اکبر‘ عوام کی مرضی اور رائے کا مرہون منت ہو وہ اللہ کو قبول نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved