تعلیم کو کسی ملک کی ترقی کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ ترقی کا تصور صرف معاشی ترقی تک محدود نہیں بلکہ اس میں سماجی نشوونما کا پہلو اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اکیسویں صدی کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی کئی نئے چیلنجز بھی ہمارے سامنے آئے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا چیلنج تبدیلی کی انتہائی تیز رفتار ہے۔ وہ تبدیلی جو ماضی میں برسوں میں رونما ہوتی تھی اب تبدیلی کی وہی مقدار مہینوں اور دنوں میں معرضِ وجود میں آتی ہے۔ تبدیلی کی رفتار میں تیزی کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ بہت سی مہارتیں (Skills) جو ماضی میں اہم خیال کی جاتی تھیں اکیسویں صدی میں غیر اہم ہو گئی ہیں اور آج سے پچاس برس بعد کئی ایسی مہارتوں کی ضرورت محسوس ہو گی جو اس وقت ہمارے تصور سے باہر ہیں۔ اسی طرح اکیسویں صدی کے آنے والے برسوں میں بہت سے ایسے روزگار (Jobs) سامنے آئیں گے جو اس وقت ہمارے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں۔ یوں اکیسویں صدی صحیح معنوں میں سخت مقابلے (Cut-throat Competition) کی صدی ہے جس میں وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ یہ بات طے ہے کہ اکیسویں صدی میں اوسط (Average) افراد کے لئے کامیابی کا سفر بہت مشکل ہو جائے گا۔ اکیسویں صدی کے آنے والے برسوں میں کون سی مہارتیں متعلقہ (Relevant) ہوں گی؟ اس وقت اس کا ٹھیک اندازہ لگانا اس لئے دشوار ہے کہ تبدیلی کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ اسی رفتار سے مہارتیں متعلق (Relevant) اور غیر متعلق (Irrelevant) ہو رہی ہیں‘ لیکن کچھ مہارتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی کے آنے والے برسوں میں بھی یہ مہارتیں کامیابی کے سفر میں اہم کردار ادا کریں گی۔ سماجی علوم کے ماہر ہراری (Harari) نے اپنی معروف کتاب Twenty One Lessons for 21st Century میں ان مہارتوں کا ذکر کیا ہے‘ جو اکیسویں صدی کے آنے والے برسوں میں بھی اہم کردار ادا کریں گی۔
ان مہارتوں میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)، تنقیدی سوچ (Critical Thinking)، تخلیقیت (Creativity)، ابلاغ (Communication) اشتراک(Collaboration) اور مطابقت پذیری (Adaptability) شامل ہیں۔ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا ہمارا کلاس روم اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے؟ کیا ہمارا نظامِ تعلیم طلبا کو اکیسویں صدی کی درکار مہارتوں کے لئے تیار کر رہا ہے؟ بد قسمتی سے ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ آج جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے نظامِ تعلیم کو اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے آراستہ کر رہے ہیں ہم ابھی تک انہی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جن کا سامنا ہمیں قیامِ پاکستان کے وقت تھا۔ ان مسائل میں کم شرحِ تعلیم، اڑھائی کروڑ بچوں کی سکولوں تک عدم رسائی، غیر تسلی بخش تعلیمی معیار، تعلیم کے لئے ناکافی فنڈز، فرسودہ اور غیر حقیقت پسندانہ نصاب، غیر معیاری درسی کتب، کلاس روم میں طلبا کی کثیر تعداد، سکولوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان، سکولوں سے ڈراپ آؤٹ طلبا کی کثیر تعداد، ناقص امتحانی نظام، غیر تربیت یافتہ اساتذہ اور غیر موثر تعلیمی قیادت شامل ہیں۔ اکیسویں صدی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ان بنیادی مسائل کو حل کریں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
پاکستانی نظام تعلیم سے میرا تعلق بطور استاد اور منتظم پچھلی چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دوران مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ پاکستانی تناظر میں تعلیم کے حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے جو تحریریں میری نظر سے گزریں انہیں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1: پہلی قسم ان تحریروں پر مشتمل ہے جو بدیسی تحریروں کا چربہ ہوتی ہیں اور جن میں غور و فکر کا پہلو نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
2: دوسری قسم ان تحریروں پر مشتمل ہے جن کے لکھنے والوں کا تعلیم یا درس و تدریس کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔ یہ زیادہ تر تاثراتی تحریریں ہوتی ہیں جن کی بنیاد میں کوئی تحقیق یا عملی مشاہدہ نہیں ہوتا۔ نتیجتاً ایسی تحریریں تاثراتی اور عمل سے عاری ہوتی ہیں۔
3: تعلیم کے حوالے سے تیسری قسم ان تحریروں پر مشتمل ہوتی ہے جو محض تنقید پر مبنی ہوتی ہیں اور ان میں مسائل کے حل کے لئے تجاویز کا ذکر نہیں ہوتا۔ ایسی تحریریں تعلیمی نظام میں بہتری کے بجائے مزید مایوسی کا ذریعہ بنتی ہیں۔
4: تحریروں کی چوتھی قسم ان فرسودہ خیالات کی عکاس ہوتی ہے جن میں دقیانوسی مسائل کے دقیانوسی حل دہرائے جاتے ہیں یعنی جانے پہچانے سوالات کے گھڑے گھڑائے جوابات۔ ایسی تحریروں سے کسی تبدیلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
5: پانچویں قسم کی تحریریں ان تحقیقی رسالوں میں چھپتی ہیں جن تک عام آدمی کی رسائی نہیں۔ شاید ہی یہ تحریریں عام اساتذہ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
اوپر دی گئی تعلیم کے حوالے سے تحریروں کی جن اقسام کا ذکر کیا گیا ہے ان میں کریٹیکل (Critical) زاویۂ نظر سے لکھی ہوئی تحریروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وہ ماہرینِ تعلیم جنہوں نے پاکستان میں تعلیم اور تعلیمی نظریات پر کریٹیکل نقطۂ نظر کے حوالے سے لکھا ان کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں اکیسویں صدی میں تعلیمی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے ایسی تحریریں لکھی جائیں جو اعداد و شمار اور تحقیق کی بنیاد لکھی گئی ہوں اور دوسری طرف یہ خیالات کے نئے دریچے کھولتی ہوں۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب لکھنے والا تعلیم اور تعلیم کے عمل سے ذہنی، فکری اور عملی طور پر جڑا ہوا ہو۔ وہ تعلیم کے جدید نظریات سے آگاہ ہو‘ اور جن کی تحریریں صرف ذاتی تاثرات کے بجائے قابل اعتبار ڈیٹا کی بنیاد پر ہوں وہ کسی بھی تعلیمی تصور کو ایک نئے زاویے سے دیکھیں اور جن کی تحریریں محض صورتِ حال پر سوالات نہ اٹھائیں بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ایسے alternate جوابات تلاش کریں جو مسائل کے تخلیقی حل تلاش کرنے میں مدد کریں۔ انہیں دورِ حاضر کے چیلنجز سے آگاہی ہو‘ وہ ان مباحث سے آشنا ہو جو تعلیم کے حوالے سے کئے جا رہے ہیں۔
پاکستانی نظام تعلیم میں بہتری لانے اور اسے اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے‘ جن میں تعلیم کے لئے فنڈز کی فراہمی اور تعلیمی معیارات (Educational Standards) کا تعین شامل ہیں۔ اسی طرح نصاب میں بہتری، معیاری درسی کتب، موثر امتحانی نظام، تربیت یافتہ اساتذہ اور پُر تاثیر تعلیمی قیادت شامل ہیں۔ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان کے ماہرینِ تعلیم تواتر سے ان موضوعات پر لکھیں جو تعلیم کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں ۔ ایسی تحریریں جو نہ صرف سوالات کے نئے دریچے کھولتی ہوں بلکہ تازہ امکانات کی نشان دہی بھی کرتی ہوں۔