''ایک انٹرنیشنل ادارہ ہے، جس کا نام ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہے جو دنیا کے تمام ممالک میں ہونے والی کرپشن کو دیکھتا ہے، آپ کا پیسہ چوری ہوتا ہے، اس کی قیمت بھی مہنگائی کی صورت میں آپ کو ہی ادا کرنا پڑتی ہے‘‘۔
''ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی بات کریں تو اس کے مطابق پاکستان کی حکومت دنیا کی کرپٹ ترین حکومت ہے‘‘۔
''جب آپ کی حکومت میں سارے چور اور ڈاکو بیٹھے ہوں اور چوری کے سارے ریکارڈ توڑ دیے جائیں، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل یہ کہے کہ پاکستان نے صرف ایک ہی چیز میں ترقی کی ہے اور وہ کرپشن میں ترقی کی ہے۔ کرپشن کی قیمت عوام پھر مہنگائی کی صورت میں ادا کرتے ہیں‘‘۔ یہ سب باتیں کسی اپوزیشن رہنما، کسی صحافی اور کسی تجزیہ کار کی طرف سے نہیں کی گئیں بلکہ یہ تمام باتیں ماضی کی حکومتوں کے مختلف اوقات میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹس کے بعد اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور آج کے وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب خود ادا کرتے رہے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن کے حوالے سے جاری کردہ حالیہ پرسیپشن انڈیکس کو دیکھنے بیٹھا تو ایک دم سے ماضی میں چلا گیا اور خود وزیر اعظم صاحب کی اپنی زبان سے اس حوالے سے ادا کیے جانے والے کئی جملے ذہن میں دہرائے جانے لگے۔ بقول شاعر:
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
ماضی کو چھوڑ کر حال پر نظر دوڑائیں تو حالات کچھ اس طرح کے نظر آتے ہیں کہ جیسے ہم نے اپنے ماضی سے کچھ بھی نہ سیکھا ہو۔ مہنگائی کا جن ہے تو وہ روز بروز اپنا پھیلائو بڑھاتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پہلے تو صرف اپوزیشن کے رہنما اور عوام ہی یہ شور مچاتے تھے کہ کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے اور بد عنوان اور کرپٹ لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے لے کر عوام سے لوٹی ہوئی ایک ایک پائی کا حساب لینے اور لوٹی ہوئی دولت کو واپس ملکی خزانے میں جمع کروانے کا عزم لے کر عوام کو ایمان داری اور دیانت کا نعرہ دے کر اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان کے دور اقتدار میں ملک عزیز پاکستان میں کرپشن ختم ہونے کے بجائے اس کا ریٹ بڑھ گیا ہے‘ اب تو ایک عالمی ادارے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی اپوزیشن کے ان الزامات پر مہر ثبت کر دی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جاری کردہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) برائے سال 2021ء میں پاکستان 180 ممالک میں سے 140ویں درجے پر آ گیا ہے جبکہ گزشتہ برس پاکستان سی پی آئی رینکنگ میں 124ویں نمبر پر تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنے ''کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2021ء‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ قانون کی حکمرانی اور ریاست کی گرفت کی عدم موجودگی سے پاکستان کے سی پی آئی سکور میں نمایاں تنزلی ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا سکور 100 میں 31 سے کم ہو کر 28 ہو گیا ہے۔ حسب عادت حکومت کی جانب سے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں رینکنگ کی تنزلی سے بھی خود کو بری الذمہ قرار دے دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ ''ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا کوئی سر ہے نہ پائوں۔کسی کو اس بات کا نہیں پتا کہ یہ رپورٹ کیسے بنائی گئی، اس رپورٹ میں پاکستان کا سکور مالی کرپشن کی وجہ سے نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی اور ریاست کو یرغمال بنانے کی وجہ سے کم آیا ہے‘‘۔ اس سے پہلے جنوری 2021ء میں جب پاکستان کی درجہ بندی میں چار پوائنٹ کی تنزلی ہوئی تھی تو بعض وزرا کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ڈیٹا پچھلی حکومتوں کے ادوار کا ہے‘ لیکن ادارے کی جانب سے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو دیے جانے والے موقف میں حکومتی وزرا کے ان دعووں کی تردید کی گئی تھی۔
حکومتی وزرا اور مشیروں کے دعوے ایک طرف اور اپوزیشن رہنمائوں کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات یا موقف اپنی جگہ‘ آئیں پہلے یہ سمجھ لیں کہ ''ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘‘ کام کیسے کرتا ہے؟ سب سے پہلے یہ انڈیکس پیمائش کرتا ہے کہ ماہرین اور کاروباری افراد کی جانب سے ملک کے پبلک سیکٹر کو کتنا کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ہر ملک کا سکور بد عنوانی کے 13 مختلف سرویز اور جائزوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ ڈیٹا، ذرائع، عالمی بینک اور ورلڈ اکنامک فورم سمیت متعدد معتبر اداروں کے ذریعے جمع کیا جاتا ہے۔ یہ ڈیٹا خاص طور پر رشوت، فنڈز کی منتقلی، سرکاری افسروں کی جانب سے اپنے سرکاری دفتر کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے اور سرکاری شعبے میں بد عنوانی پر قابو پانے کے لیے حکومتوں کی صلاحیت سمیت 10 اہم نکات کو مدِ نظر رکھتی ہے۔
یعنی یہ ڈیٹا بہرحال اس حد تک تو قابل بھروسہ ہے کہ عالمی سرمایہ کاروں کے ذہنوں اور دیگر دنیا میں کسی بھی ملک کے حوالے سے ایک مضبوط تاثر پیدا کر سکتا ہے کہ وہاں شفافیت اور کرپشن کی کیا صورتحال ہے‘ لیکن اگر اب حکومتی وزرا کے دعووں کو کچھ وقت کے لیے سچ بھی مان لیں تو بھی وزیر اعظم کے ان بیانات کا کیا کریں جن میں وہ اس انڈیکس کی بنیاد پر سابقہ حکومتوں کو کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ شاید وزیر اعظم صاحب کے وہی جذباتی اور مسحور کن بیانات آج ان کے سامنے آ رہے ہیں۔
اپوزیشن رہنمائوں نے تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو حکومت کے خلاف ایک عالمی ادارے کی طرف سے چارج شیٹ قرار دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرپشن کا شور مچانے والوں کی ہر روز چوریاں پکڑی جا رہی ہیں، لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں، کرپشن انڈیکس میں 16 درجے آگے جانا صادق اور امین حکومت کا کمال ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے مطابق ''ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی یہ رپورٹ حکومت کے خلاف فرد جرم ہے، مصنوعی ایمان دار حکومت کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ دوسروں کو چور کہنے والے خود سب سے بڑے چور ثابت ہو گئے ہیں، عمران خان کی وزارت عظمیٰ میں پاکستان کرپشن میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے، دکھ ہے کہ عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہوئی، نون لیگ کے دور میں اسی انڈیکس میں پاکستان کی رینکنگ بہتر ہو کر 117 پر آ گئی تھی‘‘۔
بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان کا کہناہے کہ"''ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بعد عمران خان صاحب کی حکومت کا کوئی جواز نہیں، کرپٹ حکمران استعفیٰ دیں‘‘۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ ''کرپشن بڑھ گئی ہے، وزیر اعظم کرسی پر بیٹھے زیادہ خطرناک ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پاکستان نے کرپشن میں 16 درجہ ترقی کی ہے، وزیر اعظم کا کہنا درست ثابت ہو گیا کہ وہ ملک کے لیے خطرناک ہیں، وزیر اعظم کی ایوان میں موجودگی ملک و قوم کے لیے بہت بھاری ثابت ہو رہی ہے‘‘۔
حکومتی وزرا اور اپوزیشن رہنما عالمی ادارے کی اس رپورٹ کو لے کر اپنی اپنی مرضی اور فائدے کے لیے جو مرضی راگ الاپتے رہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک عزیز پاکستان میں کرپشن کا نہ صرف تاثر بڑھا ہے بلکہ ایک عام آدمی اس میں اضافے کی شکایت کرتا بھی نظر آتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اس کی وجہ اس بات کو بھی قرار دیتے ہیں کہ پچھلی حکومتوں کا ہر دوسرا بدنام اور کرپٹ شخص وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں بیٹھا ہے۔ شاید اسی لیے پی ٹی آئی کا احتساب کا نعرہ حقیقت نہ بن سکا اور نہ ہی حکومتی رٹ قائم ہو سکی۔