تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-01-2022

چیک لسٹ تو لازم ٹھہری جناب!

ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ کیا ہم جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں؟ جی نہیں! ہم بالعموم کچھ بھی جان بوجھ کر نہیں بھولتے۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے ذہن میں ہوتا ہے مگر ہمیں اُس کا احساس ہوتا ہے نہ اندازہ۔ کیوں؟ کیا اس اس لیے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں؟ یقینا یہ بات بھی ہوسکتی ہے مگر ایسا چند ایک افراد ہی کے معاملے میں ہوتا ہے۔ عمومی سطح پر تو ہم بہت کچھ محض اس لیے بھول جاتے ہیں کہ یاد رکھنے کے قابل ہی نہیں رہ پاتے!
ایسا کیوں ہوتا ہے یا کیسے ہوسکتا ہے؟ کیوں نہیں ہو سکتا جناب؟ کیا ہم سپر کمپیوٹر ہیں کہ ہمیں سبھی کچھ یاد رہے؟ اور سپر کمپیوٹر کی میموری بھی تو ایک حد تک ہی ہے یا ہوسکتی ہے۔ انسانی ذہن کی بھی بعض حدود ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ذہن کی وسعت انتہائی نوعیت کی ہے اور یہ وسعت حیران کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ذہن کا غیر معمولی وسعت کا حامل ہونا اور بات ہے اور مختلف معاملات کا یاد رکھنا اور معاملہ۔ ہم ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جس میں بہت سی معلومات لمحہ لمحہ ہم تک پہنچ رہی ہیں۔ کل تک انسان بہت پُرسکون طریقے سے جیتا تھا کیونکہ اُس پر ابلاغی حملے نہیں ہوتے تھے۔ آج کا انسان کرے تو کیا کرے؟ اُس کے ذہن پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں۔ یہ حملے اُس کے حافظے اور فکری ساخت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بہت کچھ حافظے کی اوپری سطح پر رہ پاتا ہے اور دوسرا بہت کچھ اِدھر اُدھر ہو جاتا ہے۔ ہم روزانہ بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم بھول نہیں جاتے بلکہ روزانہ ہمارے ذہن میں داخل ہونے والی نئی معلومات پرانی باتوں کو دُھندلا دیتی ہیں۔ یہ عمل تواتر سے جاری ہے اور اِس کے نتیجے میں آج کا انسان شدید نفسی اور ذہنی الجھنوں کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کے لیے اب سب کچھ ہر وقت یاد رکھنا ممکن نہیں رہا۔ یا یوں کہیے کہ جو کچھ ہمارے مطلب کا ہو وہ کبھی کبھی بہت دیر بعد یاد آتا ہے، تب تک وقت یا موقع ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اِس مشکل کو دور کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان تمام ضروری معاملات کو لکھنے کی عادت ڈالے۔ ذہن کا کچھ بھروسا نہیں کہ کب دھوکا دے جائے۔ حافظے میں بہت کچھ ہوتا ہے‘ اہمیت اس بات کی ہے کہ کسی بھی چیز کی جب ہمیں ضرورت ہو تب یاد آئے۔ بعد میں یاد آئی تو کیا یاد آئی۔ اہم باتیں یا نکات لکھ کر رکھنے سے انسان خاصی معیاری زندگی بسر کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے اُس کے بارے میں خوب سمجھ کر کئی فہرستیں بنائی جاسکتی ہیں۔ انگریزی میں کہیے تو چیک لسٹ یعنی ایسی فہرست جسے دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوتا رہے کہ کب کیا کرنا ہے۔ ہر چیک لسٹ ہماری زندگی کو زیادہ متوازن اور معیاری بنانے کے لیے ہونی چاہیے۔ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ مختلف خانوں میں رکھا جاسکتا ہے۔ بعض اہداف عمر بھر کے لیے ہوتے ہیں۔ بعض اہداف سالانہ، بعض ماہانہ اور بعض ہفتہ وار ہوتے ہیں۔ کچھ کام یومیہ بنیاد پر بھی کیے جاتے ہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہو کہ کب کیا کرنا ہے۔ اس معاملے میں حافظہ ہماری بہت مدد کرتا ہے مگر سب کچھ حافظے پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اگر ہم اپنے معاملات کو لکھنے کی عادت نہ ڈالیں تو حافظے پر زور پڑتا ہے کیونکہ یہ احساس ہمیں ستاتا رہتا ہے کہ بہت کچھ یاد رکھنا ہے اور یاد رہنا ہی چاہیے۔
ڈائری لکھنے کا چلن اس لیے عام ہوا کہ انسان سبھی کچھ یاد نہیں رکھ سکتا تھا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ابلاغی معاملہ شیر خوارگی کے مرحلے میں تھا۔ تب بھی انسان یہ محسوس کرتا تھا کہ سب کچھ حافظے کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ڈائری میں یومیہ بنیاد پر اندراج کے ذریعے انسان یاد رکھ پاتا تھا کہ کون سا دن کس طور گزرا تھا۔ بہت سی ذاتی نوعیت کی معلومات بھی ڈائریز میں اچھی طرح محفوظ رہ پاتی تھیں۔ ڈائری لکھنے کا چلن تب کا معاملہ تھا جب حافظے پر زیادہ بوجھ تھا نہ ذہن بات بات پر الجھتا تھا۔ آج ہر معاملہ انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ حافظے کی طاقت خواہ کچھ ہو، اُسے بروقت کام لینا ہی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر موقع پر حافظہ جواب دے جائے تو بنتی بات بھی بگڑ جاتی ہے۔ ڈائری لکھنے والے بھی یہ سارا اہتمام بدحواسی اور بدنظمی سے بچنے کے لیے کرتے تھے۔
ہم ضروری اور غیر ضروری مصروفیت کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ ذہن میں ہر طرف سے کچھ نہ کچھ داخل ہوتا ہی رہتا ہے۔ ایسے میں سب سے بڑی الجھن یہ ہے کہ حافظے کی اوپری تہ پر کیا رہے اور کیا نہ رہے۔ حافظے میں بہت کچھ سماتا ہے مگر وقت پڑنے پر یاد بھی آجائے یعنی ذہن کے پردے پر نمودار بھی ہو‘ یہ لازم نہیں۔ بس اِسی لیے چیک لسٹ لازم ہے۔ چیک لسٹ ہی انسان کی رہنمائی کرتی ہے کہ اُسے کون سا کام کب اور کس طریق سے کرنا چاہیے۔ معاملات کو لکھ رکھنے سے زندگی منظم ہوتی ہے۔ منظم رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ ہم اِس طور اپنے آپ کو اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل بنا پاتے ہیں۔ قدرت نے ہمیں جو صلاحیت و سکت عطا کی ہے‘ اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لانا اُسی وقت ممکن ہے جب اندازہ ہو کہ کب کیا کرنا ہے۔ یہ سب کچھ لکھ رکھنے سے ہمیں بخوبی احساس ہوتا رہتا ہے کہ وقت اور توانائی میں سے کسی کا بھی ضیاع نہ ہو۔
چیک لسٹ بنانے یعنی اہم ترین اُمور کی فہرست مرتب کرنے کی صورت میں ہمیں یہ اندازہ لگانے کا موقع بھی ملتا ہے کہ ہم اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ضروری سمجھے جانے والے کاموں میں سے کتنے کرچکے ہیں اور مکمل کامیابی کی منزل سے کتنی دور ہیں۔ ہر کامیاب اِنسان آپ کو منظم زندگی بسر کرتا ہوا ملے گا اور منظم زندگی کی طرف بڑھنے کا ایک اہم راستا ہے معاملات کو لکھ رکھنا۔ اہم اُمور کی فہرست مرتب کرنا ہمیں بدحواسی اور بدنظمی سے بچاتا ہے۔ کامیاب معاشروں میں بہت سی عادتیں عام ہیں۔ لکھنے کی عادت بھی اُن میں شامل ہے۔ ہمارے ہاں بالعموم یہ تصور پایا جاتا ہے کہ قلم اور کاغذ صرف اُن لوگوں کے ہاتھ میں دکھائی دینا چاہیے جو لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیں۔ عام آدمی لکھنا سیکھنے کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ پڑھنا پہلی منزل ہے۔ یہ قدرے آسان ہے مگر پھر بھی لوگ اِس طرف نہیں آتے۔ ایسے میں لکھنے پر مائل ہونا تو خاصا بڑا دردِ سر محسوس ہوتا ہے۔ یہ دردِ سر اِتنا کارگر ہے کہ بہت سے معاملات کو دردِ سر سے پاک کردیتا ہے۔ معیاری زندگی وہ ہے جو ناپ تول کر، منظم انداز سے بسر کی جائے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے‘ ناممکن نہیں! ہم جس ماحول میں رہتے ہیں اُسی میں بہت سوں کو آپ ہمت ہارتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو نظم و ضبط کا پابند بناتے ہیں اور بھرپور کامیابی کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔
لکھنا محض لکھاریوں کا کام نہیں‘ ہر اُس انسان کو اپنے اہم امور لکھنے کی عادت پروان چڑھانی چاہیے جو ڈھنگ سے جینے کا تمنائی ہے اور کچھ کرنا چاہتا ہے۔ ہم اُس ماحول کا حصہ ہیں جو حافظے اور ذہن پر حملے کرنے میں تساہل سے کام لیتا ہے نہ تاخیر سے۔ ہمارے حواس پر حملے ہر وقت جاری ہیں۔ اِن معلوماتی حملوں کو تو روکا نہیں جاسکتا۔ ہاں! اپنی اصلاح ضرور کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ فی زمانہ حافظے پر زیادہ بھروسا کرنے سے الجھنوں میں محض اضافہ ہوتا ہے۔ اہم معاملات اور نکات کو اگر لکھ لیا جائے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ معاملہ گھر کے لیے معمول کی خریداری کا ہو یا زندگی کے لیے طے کیے جانے والے اہداف اور اُن سے متعلق سرگرمیوں کا‘ ہر معاملے میں لکھنے کی عادت کا پروان چڑھانا سود مند ہی ثابت ہوتا ہے۔ چیک لسٹ انسان کو ترتیب سے ہم کنار کرتی ہے، منظم رکھتی ہے۔ جس نے بھی چیک لسٹ کی شکل میں اپنے آپ کو تحریری یاد دہانی سے ہم کنار رکھنے کا ہنر سیکھا‘ وہی منظم رہتے ہوئے جینا سیکھ کر کامیابی کی راہ پر بڑھتا چلا گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved