سندھ کے سابق وزیراعلیٰ غوث علی شاہ کی ای میل میرے سامنے پڑی ہے۔ میرا خدشہ درست نکلا کہ ان کے ساتھ کچھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ میرے پچھلے کالم کے جواب میں انہوں نے جو کچھ لکھ کر بھیجا ہے اس کے بعد میرا اپنا دل دکھی ہورہا ہے کہ کیوں کسی کے پرانے زخموں پر نمک چھڑک دیا ۔ ہم صحافی بھی ظالم لوگ ہوتے ہیں۔ اپنے چسکے کے لیے کسی کو بھی ڈسٹرب کر دیتے ہیں۔ اپنے ایک پائو گوشت کے لیے دوسرے کا پورا اونٹ ذبح کر ڈالتے ہیں۔ ای میل پڑھتے ہوئے سوچ رہا ہوں جو اپنی دنیا میں اپنے آپ کو جھوٹی سچی وضاحتیں، دلیلیں اور تسلیاں دے کر جی رہا ہے اسے جینے دیں۔ اپنی اس حرکت پر ایک چینی محاورہ یاد آتا ہے۔ چینی قوم کا ماننا ہے اگر آپ اپنی بیوی کو تھپڑ مارنے کے بعد احساس جرم کا شکار ہورہے ہیں کہ بے چاری کو غلط مارا ہے تو پریشان نہ ہوں، آپ کی بیوی اپنے آپ کو سمجھا لے گی کہ اسے وہ تھپڑ کیوں پڑا ہے۔ میرا خیال ہے شاہ جی نے اپنے آپ کو سمجھا لیا ہوگا کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہوا تھا ۔ ہم نے تو دل پشوری کی تھی لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ شاہ جی کے اندر تو بھانبڑ جل رہے ہیں۔ لگتا ہے شاہ جی کے نازک تار چھیڑ بیٹھا ہوں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا وہ یہ کالم پڑھیں گے۔ غوث علی شاہ لکھتے ہیں: ’’آپ نے میرے ساتھ ہونے والی زیادتی پر لکھا ۔ صدارتی امیدوار کے حوالے سے جو میرے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے، اس پربھی لکھا۔ میری مسلم لیگ اور نواز شریف سے وفاداری اور مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے رہنے پر اپنا قلم اٹھایا ۔میرے ساتھ ہونے والی زیادتی سے آنکھیں چرانا نہ صرف حقائق سے منہ چھپانے کے مترادف ہے بلکہ یہ ایک طرح کا ظلم بھی ہے۔ جب انسان انصاف نہیں کرتا تو پھر خدا اپنے طریقے سے انصاف کرتا ہے اور اپنے انسانوں کو عطا کرتا ہے۔ میرے خیال میں آپ کے کالم سے ان اندھوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جنہوں نے میرے خلاف گٹھ جوڑ اور سازش کی اور نواز شریف کے کان بھرے۔ کالم نگار سلیم صافی نے بھی اپنے کالم میں اس طرح کے جذبات کا اظہار کیا ہے جو آپ نے کیا تھا۔ میں صرف خدا سے انصاف کا طلب گار ہوں۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے میرے ساتھ ہونے والی زیادتی پر قلم اٹھایا اور لوگوں کو سچ بتایا کہ میرے ساتھ کیسے ناانصافی کی گئی تھی‘‘۔ سید غوث علی شاہ ای میل پڑھ کر سوچ رہا ہوں کہ شاہ جی سے کہاں غلطی ہوئی۔ وہ قربانی اور دکھ اٹھانے کے بعد بھی اعتماد نہ جیت سکے۔ مسئلہ کس کے ساتھ ہے۔ شاہ جی کے ساتھ ہے یا پھر ان کے ساتھ جن کا خیال تھا کہ اب بوڑھا جنگی گھوڑا ان کے کام کا نہیں رہا کیونکہ جنگ اور امن دنوں کے گھوڑے مختلف ہوتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم میں جس وزیراعظم چرچل نے برطانیہ کو لیڈ کیا اور اپنے ملک کو جرمن نازیوں سے بچایا وہ چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں ہار گیا تھا ۔ مشکل وقت گزر گیا تھا۔ اب چرچل کی ضرورت نہیں تھی۔ اب جنگی ہیرو کی نہیں، ایسے وزیراعظم کی ضرورت تھی جو برطانیہ کی تعمیر نو کرسکے اور یوں چرچل الیکشن ہار گیا تھا۔ یہ اور بات ہے چند برس بعد چرچل دوبارہ وزیراعظم بن گیا تھا۔ تو کیا ہم انسانوں کی نفسیات اور سرشت میں کوئی خرابی ہے یا پھر واقعی جنگ اور امن کے گھوڑے مختلف ہوتے ہیں۔ غوث علی شاہ جیسے سیاسی گھوڑوں کی جنگ کے دنوں میں اٹک قلعے میں ضرورت تھی لہٰذا غوث علی شاہ، سردار مہتاب عباسی وہاں استعمال ہوئے۔اب اقتدار اور امن کے دنوں کے لیے کچھ اور ضروریا ت ہوں گی جن پر وہ پورے نہیں اترتے ہوں گے۔ میری خواہش تھی شاہ جی اگر اپنے لب آزاد کر رہے تھے تو ذرا کھل کر بولتے اور سندھی مروت کو ایک لمحے کے لیے سلا دیتے۔ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں، جہاں سچ بولنا افورڈ کر سکتے ہیں۔ اب ان کے پاس حاصل کرنے کے لیے کیا رہ گیا ہے۔ جو کھونا تھا وہ کھو چکے ہیں۔ چاہے وہ نواز شریف کا اعتماد ہو یا پھر صدارت کے عہدے کے لیے نامزدگی۔ شاہ جی بولیں کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے سازش کی اور نواز شریف کے کان بھرے، کس نے انہیں اتنی مشکلات جھیلنے کے بعد بھی اس قابل نہیں سمجھا کہ ان پر اعتبار کیا جاتا۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سارے لوگ اعتراض کریں کہ کیا عہدے صرف قربانی دینے والوں کے لیے ہی ہیں یا پھر قابلیت اور میرٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟ بالکل درست اعتراض ہے۔ سوال پھر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں اعلیٰ عہدوں پر تعیناتیاں میرٹ پر کی جاتی ہیں یا پھر ذاتی وفاداری ہی پہلا اور آخری امتحان ہوتا ہے ؟ کیا جو تقرریاں اب تک کی گئی ہیں، ان میں قابلیت کو مدنظر رکھا گیا ہے یا پھر قابلیت کا معیار کچھ اور ہے۔ ویسے شاہ جی کو تسلی دینے کے لیے یہ کہنے میں بھی حرج نہیں کہ سندھ کے جج ہوں یا پھر لیڈرز وہ ہمارے پنجاب کے لیڈروں کے برے دنوں کے بہتر ساتھی ہوسکتے ہیں لیکن اچھے دنوں کے لیے سب نام ایک ہی جگہ سے ملتے ہیں‘ چاہے وہ چونتیس خواتین کو ایم پی اے بنانا ہو یا پھر اعلیٰ عہدوں کی تقسیم۔ لگتا ہے ذہین لوگ صرف ایک ہی علاقے میں رہتے ہیں۔ سرائیکیوں کی ذہانت اور قابلیت پر مجھے ہمیشہ شک رہا ہے لہٰذا ان علاقوں سے قومی اسمبلی کی متعدد سیٹیں لینے اور پنجاب اسمبلی میں اس سے بھی ڈبل سیٹوں کے باوجود گورنر کے لیے بندہ برطانیہ سے امپورٹ کرنا پڑا ہے۔ جب نواز شریف سندھ میں قید تھے تو اس وقت کے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دیدار شاہ نے جنرل مشرف کے دبائو کے باوجود انہیں انصاف دینے کی پوری کوشش کی جس کا تذکرہ نواز شریف خود کرتے رہے ہیں؛ تاہم جونہی وہ نیب کے چیئرمین لگے، چوہدری نثار علی خان کے ہاتھ میں درخواست تھما کر عدالت بھیج دیا کہ انہیں نوکری سے نکلوائیں۔ موصوف مشاہد حسین کا سنہری قول بھی بھول گئے کہ شکر کریں نوازشریف کا مقدمہ سننے والے سندھی جج تھے، پنجابی ہوتے تو بھٹو کی طرح لٹکا دیتے اور مرتے دم تک شرمندہ بھی نہ ہوتے۔ اب غوث علی شاہ پھٹ پڑے ہیں۔ مان لیتے ہیں شاہ جی جنرل مشرف کے دور میں قید بھگتنے اور لندن میں جلاوطنی گزارنے اور ڈیوک سٹریٹ میں صبح سے لے کر شام تک ایک کونے میں بیٹھ کر بھی وفاداری کا امتحان پاس نہ کر سکے تو پھر حیرانی ہوتی ہے وہ سوالنامہ کون تیار کرتا ہے جسے بھرنے کے بعد ہی کوئی کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ جناب یہ بندہ قابل اعتبار ہے ؟ ا س سوالنامے کے چند سوالات کا علم تو سب کو ہے۔ اس وفادار کو ٹی وی ٹکر کے ذریعے پتہ چلے کہ ملک کا نیا صدر کون ہوگا یا برطانوی شہری اب گورنر پنجاب ہوگا تو بھی وہ کوئی اعتراض کرنے کی بجائے اندھا دھند دفاع کرتا رہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved