تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     28-01-2022

قومی ذمہ داری کا انعام

پاکستان کے موجودہ معاشی مسائل میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ، افراطِ زر، مہنگائی، بیروزگاری اور خطِ افلاس سے نیچے رہ جانے والوں کی بے کسی اور بے بسی شامل ہیں۔ ان تمام معاشی پریشانیوں کی ایک بنیادی وجہ ہمارے ہاں ٹیکس کلچر کا فقدان ہے اور آج بھی ٹیکس بالحاظ مجموعی پیداوار لگ بھگ دس فیصد کے قریب ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان صرف افغانستان سے آگے ہے جہاں پچھلے چالیس سال سے آگ و خون کا کھیل جاری ہے اور مسلسل جنگ و جدل کا سماں رہا ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں سب سے آگے مالدیپ ہے جہاں یہ شرح 19فیصد سے زائد ہے‘ دوسرے نمبر پر بھوٹان ہے جو 16فیصد کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ سری لنکا اور بھارت میں یہ شرح 12فیصد ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے مابین زیادہ فرق نہیں ہے مگر قابلِ غور امر یہ ہے کہ ہمارے دانشور‘ مبصرین اور صاحب الرائے طبقے کے علاوہ عوام بھی اس خواہش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم لندن، پیرس، اوسلو اور نیویارک کی رفتار سے ترقی نہیں کر پا رہے اور نہ ہی حکومت ہمارے شہروں میں جدید سہولتیں میسر کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ایسی تمام خواہشات کا احترام اپنی جگہ مگر میں اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جن ممالک کی مثال دیتے ہوئے ہم فخر محسوس کرتے ہیں وہاں ٹیکس کلچر کا فروغ اور استحکام مثالی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی اوسط میں فرانس اور ڈنمارک کے مابین سخت مقابلہ جاری ہے اور پہلی پوزیشن کے حصول کیلئے دونوں ممالک سر توڑ کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ان دونوں ممالک میں یہ شرح چالیس فیصد سے زائد ہے۔ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور دیگر یورپی ممالک بھی تیس فیصد سے زائد شرح کے ساتھ ایک مضبوط، قابلِ اعتبار اور خودکار ٹیکس نظام کی وجہ سے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور کافی حد تک کامیاب بھی۔
چونکہ پاکستانی معیشت کیش پر مبنی لین دین اور غیر رسمی خطوط پر منحصر ہے‘ اس وجہ سے اس کو دستاویزی نہیں کیا جا سکا۔ ایسی معیشت میں ٹیکس چوری اور اس کے مختلف اسباب و محرکات کا تدارک ایک انتہائی صبر آزما اور مشکل عمل ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے اپنے ہاں ٹیکنالوجی کے استعمال کو عام کیا جس کی بدولت وہاں کیش کا لین دین تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ آپ جب بھی یورپ، امریکا، آسٹریلیا یا کسی بھی ترقی یافتہ ملک کا سفر کریں تو ایئر پورٹ پر اترتے ہی جب اپنا سامان اٹھانے کیلئے ٹرالی کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے تو وہاں ایک مشین میں سکے ڈالنا پڑیں گے، یہاں سے آغاز ہو تا ہے اور پھر آپ بتدریج ایک خودکار نظام پر استوار معیشت میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ لگ بھگ سبھی ترقی یافتہ ممالک میں قیام و طعام، سیر و سیاحت، تجارت اور کاروبار سے جڑے جملہ امور میں کیش کے بجائے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی کرنا پڑتی ہے جس کے ڈیجیٹل شواہد متعلقہ ٹیکس حکام تک خود بخود پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پر شہری کو فراہم کردہ انشورنس نمبر دراصل اس کی تمام معاشی سرگرمیوں کیلئے درکار ہوتا ہے اور اسی منفرد پہچان کے ساتھ منسلک جملہ دستاویزی ثبوت اس کے ذرائع آمدن، اثاثہ جات، اخراجات اور کاروباری حیثیت کے متعلق ناقابلِ تردید شہادات اور دستاویزات فراہم کرتے ہیں۔ ان شواہد کی موجودگی میں واجب الادا ٹیکس کی رقم کا درست تخمینہ لگانا انتہائی آسان ہو جاتا ہے۔ پھر کوئی شخص یا ادارہ حساب کتاب کی درستی کے بارے میں ان سے کوئی سوال نہیں کر سکتا۔ ان کی ترقی، معاشی استحکام اور سماجی انصاف کا راز ان کی دستاویزی معیشت میں مضمر ہے جسے ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کی بدولت ممکن بنایا گیا ہے۔
اسی تناظر میں اب یہاں بھی حکومت نے یہ اصولی فیصلہ کر لیا ہے کہ قرضوں کے بوجھ سے نجات، افراطِ زر اور مہنگائی سے چھٹکارا اور غربت کی چکی میں پسے عوام کی فلاح و بہبود اور عام آدمی کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ایک خود کار، شفاف، قابلِ اعتبار اور مؤثر ٹیکس کے نظام کو فروغ دینا ناگزیر ہو چکا ہے‘ اس کے لیے ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کو جدید خطوط پر ٹیکنالوجی کے بھرپور استعمال کی بدولت ازسرِ نو استوار کرنا لازم ہے یہی وجہ ہے کہ ایف بی آر نے گزشتہ قلیل عرصے میں تیزی سے اس وژن کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ اب ٹریک اینڈ ٹریس کا خودکار نظام سگریٹ اور شوگر سیکٹرز پر لاگو کیا جا چکا ہے جس کا افتتاح خود وزیر اعظم صاحب کر چکے ہیں۔
ٹیکنالوجی کو ٹیکس نظام سے مزید مربوط کرنے کیلئے اور ریٹیل سیکٹر کے مجموعی کاروباری حجم کا درست احاطہ کرکے اس پر واجب الادا ٹیکس قومی خزانے میں محفوظ انداز میں لانے کا عمل یقینی بنانے کیلئے ملک بھر میں موجود بڑے ریٹیل سٹورز اور برانڈز کو پوائنٹ آف سیل سسٹم کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ اس سے ان کی فروخت کی ڈیجیٹل نگرانی ہو سکے گی اور خریداری کے وقت صارفین سے وصول کیا گیا سیلز ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرانے کے عمل کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ ٹیکس معاملات کے بارے میں شعور و آگہی کے فقدان‘ تعلیم کی کمی اور قلتِ وقت کے سبب خریدار شاپنگ کرتے وقت سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر وہ اس ضمن میں پکی رسید طلب نہیں کرتے اور نہ ہی اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ ان سے وصول کیا گیا ٹیکس قومی خزانے تک پہنچا ہے یا نہیں۔ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹیکس وصول کرنے والے کئی تاجر حضرات وہ ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں اور یوں سالانہ اربوں روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے۔
پاکستان کے ریٹیل سیکٹر کا سالانہ کاروباری حجم تقریباً بیس ٹریلین روپے ہے اور اس میں سے محض چار ٹریلین کا کاروبار ٹیکس نظام میں اپنا حصہ ڈالتا ہے جبکہ اسی فیصد ''ٹیکس چوری‘‘ میں ملوث ہے۔ اس ضمن میں دو مثالیں پیشِ کر کے صورتِ حال مزید واضح کرنا چاہتا ہوں ۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک معروف سٹور پر چھاپہ مارا گیا تو علم ہوا کہ اس کے ریکارڈ میں موجود ستائیس ہزار رسیدوں میں سے صرف چودہ سو رسیدوں پر وصول کیا گیا ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرایا گیا تھا، باقی ماندہ ٹیکس خریداروں سے وصول کر کے اپنی جیب میں ڈال لیا گیا تھا۔ اسی طرح ایک مشہور شو سٹور کے ریکارڈ میں محض دس ماہ کے دوران ڈیڑھ ارب کی سیلز کو چھپایا گیا اور اب ان کی طرف سے چالیس کروڑ روپے کی ٹیکس چوری کا اعتراف کیا جا چکا ہے۔یہ صرف دو مثالیں ہیں‘ ان سے باقی حالات کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ لندن، پیرس اور نیویارک کی مثالیں دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہاں ٹیکس کلچر کے فروغ اور استحکام میں ہر فرد اپنی قابلِ ٹیکس آمدن، ذرائع اور اثاثہ جات کے مطابق حصہ ڈالتا ہے۔ یہاں ایسا کلچر رائج کر کے اور اپنی اہم قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ وصول کیا گیا ٹیکس قومی خزانے تک محفوظ انداز میں پہنچا ہے یا نہیں تو یقینا حالات بہتر ہو جائیں گے۔
اسی قومی ذمہ داری کے احساس کو اجاگر کرنے اور پوائنٹ آف سیل پر وصول کیا گیا ٹیکس قومی خزانے تک پہنچانے کو یقینی بنانے کیلئے انعامی سکیم بھی شروع کی گئی ہے ۔ اس سکیم کا مقصد خریداروں کو ٹیکس کے نظام میں براہِ راست شامل کرنا اور انہیں انعامات کے ذریعے ترغیب دینا ہے کہ وہ خریداری کرتے وقت ٹیکس سسٹم سے منسلک بڑے ریٹیلرز یا برانڈز سے خریداری کریں اور ان سے پکی رسید طلب کریں۔آپ بھی اپنی قومی ذمہ داری نبھائیں اور یقینی بنائیں کہ آپ سے وصول کیا گیا ٹیکس قومی خزانے میں جمع ہوا ہے یا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved