تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     28-01-2022

رحم کیجئے حضور! رحم

کراچی کے ایک سابق میونسپل کمشنر کو دو ساتھیوں اور ''خزانے‘‘ سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔ چھاپے کے دوران بھاری کیش‘ غیر ملکی کرنسی‘ پرائز بانڈز اور سونے کے بسکٹ اور اینٹیں وغیرہ تک برآمد کی گئیں۔ حکام کے مطابق رشوت لے کر ٹھیکے دیے جاتے تھے، کم آئل لے کر زیادہ کی رسیدیں کاٹی جاتی تھیں۔ لوٹی گئی رقم جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے بیرونِ ملک بھی منتقل کی گئی ہے۔
یہ شاید چوتھی‘ پانچویں قسط ہے جس میں ایک سرکاری افسر کے گھر پر مارے گئے چھاپے میں مال و دولت کا ایسا انبار برآمد ہوا کہ اسے گننے کیلئے جب انسانی ہاتھ تھک گئے تو نوٹ گننے والی مشینیں منگانا پڑ یں۔ کراچی کورنگی سے پکڑا گیا مال کروڑوں میں ہے یا اربوں میں‘ اس پرکیا کارروائی ہوتی ہے‘ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ کچھ ماہ قبل لاہور سے محکمہ ایکسائز کے ایک سابق انسپکٹر کے گھر چھاپا مارا گیا تھا جہاں سے کروڑوں روپے کیش اور پرائز بانڈ کی صورت میں برآمد ہوئے تھے۔ 33 کروڑ کیش دیکھ کر چھاپا مارنے والی ٹیم بھی پریشان ہو گئی تھی کیونکہ یہ تو اندازہ تھا کہ اس شخص نے کرپشن کی ہے مگر اتنا اندھیر مچا رکھا تھا‘ یہ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا‘ حالانکہ یہ وہ شخص تھا جس نے 2018ء کی ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کروڑوں روپے کے کالے دھن کو سفید بھی کرایا تھا؛ اگرچہ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے وہ اس کا اہل نہیں تھا۔ اس کے علاوہ 2013ء سے 2017ء تک 22 کروڑ روپے سے زائد کا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کرنے کے شواہد بھی ملے۔ اب ان واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ وقت یاد کیجیے جب پہلے کوئٹہ اور پھر کراچی میں صوبائی سیکرٹری‘ سرکاری افسران اور پھر ایک بڑے سیاسی رہنما کے گھر سے قبضے میں لی گئی دولت کے انباروں کی وڈیوز جاری کی گئی تھیں۔ اس وقت کئی کئی روز تک اخبارات اور ٹی وی کی سکرینیں یہ نوٹ‘ سونا اور ڈالرز دکھا کر ہم غریبوں کے دل خوش کرتے رہے تھے مگر بعد میں ان کیسز کا کیا بنا‘ کچھ علم نہیں۔ یہاں جس پر بھی الزام لگتا ہے‘ جو کوئی بھی گرفتار ہوتا ہے‘ چند دن بعد ہی ضمانت پر رہا ہونے کے بعد پکارنا شروع کر دیتا ہے کہ کوئی ثبوت ہے تو سامنے کیوں نہیں لاتے‘ ہمیں سزائیں کیوں نہیں سناتے؟ شاید ایسے ہی لوگوں کے بیانات‘ بڑھکوں اور نعروں کو سن کر اب وزیراعظم عمران خان بھی بے ساختہ کہہ اٹھے ہیں کہ ''رحم کریں حضور! رحم کریں‘‘۔
کراچی کے میونسپل کمشنر کورنگی ٹائون کو نیب راولپنڈی نے گرفتار کیا تو اس کے قبضے سے برآمد ہونے والا مال دیکھ کر سب حیران رہ گئے‘ یہاں دھیان میں رہے کہ یہ وہ مال ہے جو اس وقت اس کے پاس موجود تھا‘ اس سے پہلے کتنا مال وہ باہر بھیج چکا ہے‘ کتنا اس نے چھپا کر رکھا ہے‘ یہ مزید تحقیقات میں ہی واضح ہو گا کیونکہ حکام کے مطابق بڑی تعداد میں ایسی ٹی ٹیز بھی بر آمد کی گئی ہیں جو رقم کو بیرونِ ملک بھیجنے کا عندیہ دیتی ہیں۔ قبل ازیں نسلہ ٹاور کیس میں جب کے ڈی اے کے ایک بڑے افسر کو سندھ اینٹی کرپشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے گرفتار کیا تو چند گھنٹوں بعد ہی اس ڈپٹی ڈائریکٹر کو معطل کرنے کا حکم جاری کر کے سکھر سے ایک افسر کو اس کی جگہ تعینات کر دیا گیا تھا۔ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کام ایسے ہی نہیں ہوتے۔ اگر کوئی قسمت کا مارا‘ بھول چوک سے کوئی صحیح سوچ والا کسی اہم عہدے پر آ بھی جائے تو اسے اس کی ''بیوقوفی‘‘ کی سزا دینے کے لیے سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
لاہور کا مال روڈ ہو یا راولپنڈی کا راجہ بازار‘ ملتان کا حسین آگاہی چوک ہو یا حرم گیٹ‘ فیصل آباد کے آٹھوں بازارہوں یا پشاور کا قصہ خوانی بازار‘ کراچی کی شاہراہِ فیصل ہو یا صدر کوئٹہ کی سریاب روڈ‘ ان سب علاقوں کے ٹائون مینجمنٹ کے ادارے یا کسی بھی نام سے کام کرنے والے شہری ترقیاتی اداروں کے اہلکار ہوں‘ ان کی نظروں سے ان کی حدو د میں واقع سڑکوں‘ گلیوں کا کوئی ایک کونا بھی پوشیدہ نہیں ہوتا۔ ایسی جگہوں پر کام کرنے والے لوگوں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق‘ مجموعی طور پر دس ارب روپے سے زائد ماہانہ ''نذرانہ‘‘ وصول کیا جاتا ہے۔ اگر صرف لاہور کے شاہ عالم‘ رنگ محل‘ ٹائون شپ‘ باغبانپورہ اور اچھرہ بازاروں میں تجاوزات کی بات کی جائے تو ایسے ہوش ربا حقائق سامنے آئیں گے کہ لوگ یقین نہیں کریں گے۔ یہ ابھی صرف ایک شہر کے چند بازاروں کا ذکر ہے۔ یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ نسلہ ٹاور کو بنتے کس نے نہیں دیکھا تھا؟ سات برس تک یہ ٹاور زیرِ تعمیر رہا‘ یہاں بڑی بڑی مشینیں اور سینکڑوں راج‘ مزدور کام کرتے رہے۔ بلڈنگ کی تعمیر کیلئے مطلوبہ سامان کے پہاڑ اردگرد قائم کیے جاتے رہے جس سے ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوتی رہی۔ کیا ان سات سالوں کے دوران کسی کو پتا نہیں چل سکا کہ دو سو پچاس مربع گز سرکاری زمین یہ ٹاور اپنے ساتھ لپیٹے جا رہا ہے؟
پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں عدلیہ کے سامنے کراچی کلفٹن کے ایک بڑے شاپنگ مال کا مقدمہ پیش ہوا تھا۔ اس مال کے آس پاس رہنے والے کچھ لوگوں نے کیس دائر کیا تھا کہ مذکورہ شاپنگ پلازے کے مالکان نے سروس روڈ کے ایک بڑے حصے کو سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے اپنے پلازے کی حدود میں شامل کر کے اس پر بھی تعمیرات کر لی ہیں جس سے وہاں سے گزرنے والوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اس پر یہی فیصلہ سنایا گیا تھا کہ اس ٹاور کے مذکورہ حصے کو‘ جو سروس روڈ کی حدود میں آتا ہے‘ گرا دیا جائے۔ پندرہ برس بعد ویسا ہی ایک معاملہ نسلہ ٹاور کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کے بلڈرز اور نسلہ ٹاورکی انتظامیہ تعمیر کیے گئے نقشے میں عدلیہ کو سروس روڈ کی 250 مربع گز زمین کی قانونی خرید و فروخت کی دستا ویزات پیش کرنے میں مکمل ناکام رہے‘ جس پر عدالت نے ٹاور کو گرانے کا فیصلہ سنایا۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ کیا جا رہا تھا‘ جب اس سروس روڈ پر کی جانے والی تعمیرات کا عمل اپنے عروج پر تھا‘ ا س وقت کیا سب سوئے ہوئے تھے؟ یہ کوئی پوشیدہ‘ کسی دور دراز علاقے کی کوئی زمین نہیں تھی جس کا کسی کو علم نہ ہو سکا ہو۔ اسی سڑک اور اس کے ارد گرد کے علاقے میں شہری اداروں کے اہلکار ریڑھیوں، ٹھیلوں اور دوسرے دکانداروں کے علاوہ اِدھر اُدھر بیٹھ کر کھانے پینے کی اشیا کے اڈے چلانے والوں سے ماہانہ 'نذرانہ‘ وصول کرتے ہیں‘ نیز دکھاوے اور سرکار کو دکھانے کے لیے مہینے‘ دو مہینے میں ایک بار تجاوزات کے خلاف آپریشن بھی کیا کرتے ہیں‘ کیا انہیں اپنی حدود میں نسلہ ٹاور کی اتنی بڑی عمارت دکھائی نہیں پڑتی تھی؟
نسلہ ٹاور کیس کا فیصلہ سب کے سامنے ہے‘ سپریم کورٹ کا یہ حکم بھی کہ جن لوگوں نے اس ٹاور میں فلیٹس خریدے تھے‘ انہیں ان کی رقوم واپس کی جائیں۔ یہ یقینا بہترین حکم ہے؛ تاہم میرے خیال میں اس حکم کی تعمیل اور تکمیل کرانے والوں کو یہ امر بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ متاثرہ افراد کی رقوم کا تعین اس دن سے نہ کیا جائے جب یہ فلیٹس خریدے گئے تھے‘ بلکہ ایسی ہی حیثیت کے فلیٹس کی مر وجہ قیمتوں کے مطابق ان کی رقوم ادا کی جانی چاہئیں کیونکہ اگر سات‘ آٹھ برس قبل اس زمین اور یہاں تعمیر کیے گئے فلیٹس کی قیمتوں کا آج کی مارکیٹ کے حساب سے موازنہ کیا جائے تو سات برس سے زائد عرصے میں قیمتوں کا واضح نظر آئے گا۔ ان بد قسمت افراد کو‘ جو حکومتی اور سیاسی دوستوں کی محبت اور عقیدت کے مفادات کی نذر ہو چکے ہیں‘ آج کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ادائیگیاں کی جانی چاہئیں اور اس عمل میں ایسے کرایہ داروں کا بھی خیال رکھا جائے جنہوں نے ایک ایک سال کے ایڈوانس کرائے ادا کیے ہوئے تھے یا جنہوں نے فلیٹس گروی لے رکھے تھے۔ 1994ء کے اوائل میں جب مرحوم فاروق لغاری کے خلاف مسلم لیگ نواز نے رضی فارم زمین کی فروخت کا معاملہ اٹھایا تھا تو میاں نواز شریف کی جانب سے یہ بات انتہائی زور دیتے ہوئے پوچھی گئی تھی کہ ''جب فاروق لغاری نے یہ زمین بیچی تو کس قیمت پر بیچی اور اس سے پہلے یا بعد میں ملحقہ زرعی زمینیں کن قیمتوں پر فروخت کی گئیں؟‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved