تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-01-2022

اپنے وجود کی تلاش!

زندگی کی ہماہمی میں کم و بیش ہر انسان کا اپنا وجود کھوگیا ہے۔ کم ہی لوگ اس طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ہم سب مرتے دم تک اپنے ماحول کا حصہ رہتے ہیں مگر اپنے آپ سے تعلق قائم کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ بالکل عام وجہ یا جواز تو یہ ہے کہ دوسروں کے حوالے سے ذمہ داریوں کا بوجھ اِتنا زیادہ ہے کہ اپنے وجود پر توجہ دینے کا وقت ہی نہیں مل پاتا۔ یہ جواز درست ہوسکتا ہے مگر ایک خاص حد تک! کسی بھی انسان کے لیے اپنے ماحول سے کٹ کر‘ ہٹ کر زندہ رہنا کسی بھی اعتبار سے کوئی معقول معاملہ نہیں۔ اہلِ خانہ، رشتہ دار، احباب، اہلِ علاقہ و محلہ اور ہم وطن ‘اِن سبھی سے مل کر ماحول بنتا ہے۔ ماحول کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی صورت میں بہت سے معاملات کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے، بہت سی ذمہ داریوں کو نبھانا پڑتا ہے۔ تو کیا انسان اپنے وجود کو ایک طرف ہٹادے؟ اُس کی طرف متوجہ ہی نہ ہو؟ دانش کہتی ہے کہ ایسا کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ ہمارا وجود ہر معاملے میں توازن کا طالب ہے۔ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ معقولیت کی حدود میں رہتے ہوئے کرنا ہے۔
واکر پرسی نے ایک معرکہ آرا کتاب لکھی ہے جسے دنیا ''لاسٹ اِن دی کاسموس‘‘ کے عنوان سے جانتی ہے۔ اِس کتاب کا کلیدی نکتہ یا مرکزی خیال یہ ہے کہ ہر دور کے انسان نے اپنے وجود کو اہمیت نہیں دی۔ ہم مرتے دم تک صرف دوسروں کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ ہمیں یہ خیال ستاتا رہتا ہے کہ فلاں کام کرنے کی صورت میں لوگ کیا کہیں گے یا یہ کہ فلاں کام کرنے سے ہمارے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی کچھ بھلا ہوگا۔ دوسروں کے لیے اچھا بننے کے چکر میں ہم اپنے لیے بُرے بن جاتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہمیں اپنے خلاف جانے والی اِس بات کا بروقت پتا بھی نہیں چلتا۔ جب تک یہ پتا چلتا ہے‘ تب تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ ہم عمومی سطح پر اپنے وجود ہی سے بے اعتنائی کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں؟ کیا یہ فطری معاملہ ہے؟ کیا ہم اپنے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے؟ اپنی زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ جن بہت سے معاملات میں اپنے وجود پر توجہ دینا لازم ہے آپ اُن میں سے کسی بھی معاملے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہے۔ دل خراش حقیقت تو یہ ہے کہ توجہ نہ دینے سے ایک دو قدم آگے جاکر آپ اپنے وجود کو باضابطہ نظر انداز کرتے ہوئے ملیں گے۔ سوال صحت کا ہو یا معیشت و معاشرت کا‘ رشتوں کا ہو یا تعلقات کا، دوستی کا ہو یا دشمنی کا‘ ہم بیشتر معاملات میں اور بہت کچھ یاد تو رکھتے ہیں مگر اپنے وجود کا حقیقی مفاد بالعموم نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ ہم جتنی بھی ترجیحات کا تعین کرتے ہیں اُن میں اپنے وجود کو بیک سیٹ پر رکھتے ہیں۔ معاشی اور معاشرتی معاملات میں اگر ہم کسی بھی حوالے سے منصوبہ سازی کرتے ہیں تو اپنا حقیقی مفاد آخری پائیدان پر ہوتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ فطری معاملہ یہ ہے یا ہمیں ماحول نے ایسا بنادیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو نظر انداز کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو بہتر طریقِ فکر و عمل سمجھتے ہیں؟ بات کچھ بھی ہو، خاصی دل خراش حقیقت یہ ہے کہ ہم سب کے ہوتے ہیں مگر اپنے وجود کے نہیں ہوتے۔ واکر پرسی نے اپنی کتاب میں اِسی نکتے پر بحث کی ہے کہ اپنے وجود کو نظر انداز کرنا کسی بھی درجے میں کوئی سُود مند معاملہ نہیں۔
ہر دور کے انسان نے ایسی زندگی گزاری ہے جو اُس کی تھی مگر مکمل طور پر اُس کی نہیں تھی۔ ہر انسان عمومی سطح پر اہلِ خانہ، کام کاج کے ساتھیوں اور دوستوں کے درمیان منقسم رہتا ہے۔ بہت کوشش کرنے پر بھی وہ اپنا نہیں ہو پاتا۔ ذمہ داریوں کا بوجھ اُسے کبھی اِتنی فرصت کا حامل نہیں ہونے دیتا کہ اپنے ساتھ بھی کچھ وقت گزارے، اپنے بارے میں سوچے، اپنے مفاد کو ترجیح دینے پر مائل ہو اور دوسروں کے حوالے سے ذمہ داریوں کا بوجھ کم کرکے اپنے آپ کو ترجیح دے۔ زندگی توازن کا نام ہے۔ ہم صرف اپنی ذات میں سمٹ کر بھی ڈھنگ سے جی نہیں سکتے اور دوسروں میں گم ہوکر بھی اپنا نقصان کرتے رہتے ہیں۔ اپنے ماحول کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر کا حال یہ ہے کہ جی تو رہے ہیں مگر اپنے وجود کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے۔ یہ عمل غیر محسوس طور پر ہماری پوری زندگی کو اپنے زیرِ اثر کرلیتا ہے۔
جینے کا مزا تب ہے جب انسان تمام معاملات کی مکمل تفہیم کے ساتھ کسی کو بھی نظر انداز نہ کرے اور اپنے وجود کو تو بالکل نظر انداز نہ کرے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ معاشرے سے کٹ کر جیتے ہیں مگر صرف اہلِ خانہ کے لیے۔ معاشی معاملات کو دیگر تمام معاملات پر حاوی کرنے کی صورت میں زندگی غیر متوازن ہو رہتی ہے۔ صرف اہلِ خانہ یا متعلقین کے لیے زندہ رہنے کو ہم کسی بھی درجے میں جامع زندگی قرار نہیں دے سکتے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اہلِ خان و دیگر متعلقین کے لیے زندہ رہنا بھی بہت اہم ہے اور بیشتر معاملات میں اُنہیں ترجیح دینا انسان کے لیے لازم ہوا کرتا ہے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ باقی دنیا کو نظر انداز کردیا جائے۔ ہم مختلف سطحوں پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایک سطح یہ ہے کہ ہم صرف اپنے لیے جئیں۔ دوسری یہ ہے کہ اہلِ خانہ اور متعلقین کے لیے وقف ہوکر رہ جائیں۔ تیسرے درجے میں معاشرہ ہے جس کا ہم حصہ ہیں۔ جن لوگوں سے ہمارے تعلقات ہیں اُن کے لیے زندہ رہنا بھی ناگزیر ہے‘ یعنی سبھی ناگزیر ہیں۔ کسی ایک سطح کو دوسری سطح پر مکمل ترجیح دینے کے خاصے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ہم زندگی بھر اِسی غلطی کا ارتکاب رہتے ہیں۔
نفسی اور فکری امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ بھری دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں پایا جاتا جو اپنے وجود کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے سکھی رہ سکا ہو۔ زندگی ہر معاملے میں توازن اور اعتدال کا نام ہے۔ ہم بالعموم انتہاؤں کے درمیان جیتے ہیں۔ یہ بے اعتدالی ہمیں برباد کرکے دم لیتی ہے۔ اپنے آپ کو مکمل نظر انداز کرنا بھی درست نہیں اور ہر معاملے میں صرف اپنی ذات کو اہمیت دینا بھی غلط ہے۔ کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو صرف اپنے وجود کے لیے وقف ہوکر بھی نہیں جیتے اور دوسروں کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ زندگی ہمیں قدم قدم پر آزماتی ہے۔ ایک بڑی آزمائش اِس بات میں ہے کہ ہم اپنے وقت اور وسائل کو احسن طریقے سے تقسیم کریں، زندگی کو تمام ممکنہ خانوں میں پوری احتیاط اور اعتدال و توازن کے ساتھ رکھیں۔ کسی کو بھی بلا جواز ترجیح نہ دی جائے۔
انسان کا سب سے بڑا حق اُس کے اپنے وجود کا ہے۔ اگر اپنے وجود کو مضبوط بنائے رکھنے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے گی تو دوسروں کے لیے بھی کچھ کرنا ممکن ہوسکے گا۔ اپنے وجود کو نظر انداز کرنا انسان کو مزید بوجھل کردیتا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اِس کا احساس اُسے بروقت نہیں ہو پاتا۔ زندگی کی ہماہمی انسان کو کچھ دیر سکون سے ایک طرف بیٹھ کر اپنے معاملات کا جائزہ لینے کے قابل بھی نہیں رہنے دیتی۔ اب بیشتر معاملات ہنگامہ آرائی کی نذر ہوچکے ہیں۔ ایسے میں انسان سوچنے کے قابل رہا نہیں۔ جنہیں سوچنے کی عادت پڑ چکی ہو اُنہیں غیر معمولی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔
نفسی امور کے ماہرین کی نظر میں زندگی وہی ہے جس میں اپنے وجود کو باقی تمام امور پر مقدم بھی نہ رکھا جائے اور مکمل طور پر نظر انداز بھی نہ کیا جائے۔ اپنے وجود کی اہمیت سے رُوشناس کرانے والی سینکڑوں کتابیں بازار میں دستیاب ہیں۔ اِن کتابوں کی مدد سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ کس طور اپنے وجود کو اہم گردانتے ہوئے، اُس کا احترام کرتے ہوئے معقول انداز کی زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا بہت بڑی بات ہے اور اِس کا اجر بھی زیادہ ہے مگر ہمارے خالق کی مرضی ہے کہ ہم اپنے وجود کو بھی نظر انداز نہ کریں اور اُس کے حقوق ادا کرنے پر بھی متوجہ رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved